NA-120 کی عبرت ناک شکست نے ہمیں کیا سبق دیا؟

اس ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی کو صرف ٥٩٢ ووٹ ملے, اس کے برعکس دو اسلامی جماعتیں ملی مسلم لیگ اور لبیک یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تیسرے نمبر پر رہیں۔ ان کے مشترکہ ووٹوں کی تعداد مجموعی ووٹوں کی تقریباً بارہ فی صد رہی۔ ہمارے ووٹوں کی تعداد سے تقریباً ٦ گنا زیادہ , وہ پیپلز پارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں۔

یہ دونوں بالکل نئی جماعتیں ہیں اور ان کی انتظامی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے, ان میں سے ایک جماعت کے پیچھے کارفرما “خفیہ ہاتھوں” کی بازگشت اپنی جگہ لیکن بہرحال ان دونوں تنظیموں نے خالص مذہبی بنیادوں پر لوگوں سے اپیل کی۔ ملی مسلم لیگ کی انتخابی مہم کا محور اعانت جہاد کشمیر اور لبیک یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا غازی ممتاز قادری کا عدالتی قتل اور تحفظ ناموس رسالت رہا۔ 

مذہبی شناخت پر زور دینے کے نتیجے میں اتحاد اسلامی کی راہ بھی ہموار  ہوئی۔ لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بریلوی مذہبی عصبیت کو ابھارنے کا پوٹینشل رکھتی ہے اور وہ اس انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ بریلوی حلیفوں، جمعیت علمائے پاکستان اور سُنّی اتحاد کو مسلم لیگ سے توڑنے اور مسلم لیگ کے مذہبی ووٹ بینک کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

اگر ہم ملی مسلم لیگ اور لبیک یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیاسی قوت اور اپیل کا صحیح اندازہ لگا کر اس بات کی جدوجہد کرتے کہ NA-120 میں ایک متحدہ اسلامی امیدوار سامنے آئےتو بِلاشبہ چاہے مولانا کی JUI نواز لیگ کا ساتھ نہ بھی چھوڑتی اور انتخابی نتائج بہت مختلف نہ بھی ہوتے لیکن  اس مشترکہ اسلامی نمائندے کی مہم کے نتیجے میں اسلامی اتحاد آئندہ کے مضبوط option کے طور پر سامنے آتا جس سے مستقبل قریب میں صرف نظر کرنا مولانا فضل الرحمن کے لئے بھی مشکل ہوتا- 

NA-120 کے انتخابی نتائج کے تناظر میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم تسلسل سے جو انتخابی حکمت عملی تجویز کر رہیں ہیں وہ اصولاً درست ہے۔ اس انتخابی حکمت عملی کے اجزا حسب ذیل ہیں:

٢٠١٨ء کے انتخاب میں سیکولر جماعتوں کے خلاف کامیابی کے لیے اسلامی سیاسی اور غیرسیاسی جماعتوں کا اتحاد لازم ہے۔ اس اتحاد کو قائم کرنے کے لیے جماعت اسلامی کو فی الفور دیرپا جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے۔

سیکولر جماعتوں کے خلاف کامیابی صرف اسلامی مذہبی عصبیت کو ابھار کر حاصل ہو سکتی ہے۔ عوام کے حقوق کے حصول کی جدوجہد اسلامی عوامی تحرک کبھی پیدا نہیں کر سکتا۔ سوشل ڈیموکریٹ اور مسلم قوم پرست ایجنڈہ اپنا کر اسلامی جماعتیں اپنے نظریاتی تشخص کو بری طرح مجروح کرتی ہیں اور اسلامی رجحان رکھنے والے  معاشرے میں بالکل اجنبی ہو جاتی ہیں ,جلسے جلوس قانونی دائرہ میں مقید مظاہرے، دھرنے وغیرہ انتخابی عمل کو بالکل متاثر نہیں کرتے۔ یہ بات تو ہمیں ١٩٧٠ء کے یوم شوکتِ اسلام کی ناکامی کے وقت سے سمجھ لینی چاہیے تھی۔ سرمایہ دارانہ نظم اقتدار اس نوعیت کے احتجاجوں کو بآسانی اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور اس نوعیت سے اس کی بنیادی سیاسی حیثیت ترتیبی بالکل متاثر نہیں ہوتی۔ ہم بے پناہ وسائل اس نوعیت کی سعی لاحاصل میں پچھلے ٤٠ سالوں سے ضائع کرتے چلے آ رہے ہیں۔

عوام میں نوجوانوں اور عورتوں کی بھیڑ جمع کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ تجربہ ہم پاسبان بنا کر ٢٥ سال پہلے بھی کر چکے ہیں۔ 

NA-120 کے انتخابات میں جے آئی یوتھ بالکل اثرانداز نہ ہو سکی، اس کی وجہ یہ ہے کہ  بے ہنگم طور پر نکلے ہوئے غیر تربیت یافتہ نوجوان اور خواتین تو سرمایہ دارانہ عدل کے حصول کے خواہاں ہیں سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے انہدام کے نہیں، وہ اسی نظام اقتدار کا ایک جز ہیں۔ اسی کے اقتدار سے وابستہ ہیں، وہ بھلا ہمارے کارکن کیسے ہو سکتے ہیں۔

اصل چیلنج مخلصین دین کو ائمہ مساجد کی قیادت میں مقامی سطح پر منظم کرنا ہے۔ ٢٠٠٢ء کی انتخابی مہم میں ہم نے کسی حد تک مخلصین دین کو عوامی سطح پر اسلامی ایجنڈہ پر متحرک کر دیا لیکن ہم ان کو مقامی سطح پر ائمہ مساجد کے تحت منظم نہ کر سکے۔ لہٰذا جب سرحد میں حکومت بنی تو ہم اقتدار سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں سے مذہبی عوامی اداروں کی طرف منتقل نہ کر سکے اور جلد ہی ایم ایم اے کا شیرازہ بکھر گیا۔

اگر ہم ٢٠١٨ء کے انتخابات مخلصین دین کی جماعت کو متحد کر کے لڑے، اگر ہمارا ایجنڈا خالصتاً مذہبی عصبیت کو ابھارنے والا ہوا اور ہم نے ائمہ مساجد کی قیادت میں مقامی اسلامی ادارتی صف بندی کا کام شروع کیا تو اس کا قوی امکان ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کو کسی نہ کسی حد تک متزلزل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اگر ہم نے ٢٠١٨ء کے انتخابات عوامی حقوق کے چیمپیئن کی حیثیت سے کندہ ناتراش جے آئی یوتھ کے نوجوانوں کی بھیڑ پر انحصار کرتے ہوئے لڑے تو ہماری ایک اور شکست نوشتہ دیوار ہے۔

اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد

فکر مودودی رحمہ


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16