2۔ دورِ حاضر میں تحفظ اور غلبہ دین کی تحریکات کے مواقع، امکانات اور چیلنجز

پچھلے باب میں ہم نے سرمایہ دارانہ اساسی اور ساختی تضادات کا ذکر کیا تھا۔ یہ تضادات تحفظ اور غلبہ دین کی جاری حالیہ تحریکات کے لیے چیلنجز بھی پیش کرتے ہیں اور تحفظ اور غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان چیلنجز اور مواقع سے آگاہ ہونا اور ان سے فائدہ اٹھانے کی استعداد پیدا کرنا مصلحین کے گروہوں کے لیے بھی ضروری ہے اور انقلابیوں کے لیے بھی۔

دورِ حاضر کے چیلنج:

آج اسلامی انقلابی واقعہ اور عمل پر یقین رکھنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ اساسی مفروضات اور سرمایہ دارانہ عقلیت نے ایسی عمومی مقبولیت اور تغلب پہلے کسی دور میں حاصل نہیں کیا۔ آج مواصلاتی ایجادات (آئی ٹی) نے پوری دنیا کو سرمایہ دارانہ نظاماتی شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ برقی میڈیا کے ذریعے سرمایہ درانہ عقلیت اور سرمایہ دارانہ رواج و روایات کا پھیلاؤ عالمی ہو گیا ہے اور دنیا کا کوئی خطہ اس کی دست برد سے محفوظ نہیں رہا۔ حب مال کی وبا عام ہو گئی اور ایک آدمی سرمایہ دارانہ حقوق اور معیارِ زندگی میں مستقل اضافہ کا خواہش مند تیزی سے بنتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ دورِ حاضر کی استعمار مخالف حکومتوں – وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور، سوڈان، ایران- کوعالمی استعماری نظام میں کسی نہ کسی طرح شمولیت قبول کرنا پڑتی ہے کہ اس کے بغیر وہ اپنے عوام کےمادی معیار زندگی نہ بڑھا سکیں گی۔ سرمایہ داری کے علمیاتی اور تمدنی تغلب نے اسلامی انقلابی جماعتوں مثلاً جماعت اسلامی، اخوان المسلمون کو بھی سرمایہ دارانہ حقوق کا محافظ اور معیارِ زندگی میں مستقل اضافہ کرانے والے ایجنٹ کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انقلابی جماعتیں populist بنتی جا رہی ہیں۔ پاپولیشن عوامی خواہشات کی پیروی اور تابع داری کا نام ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان آج ان معنوں میں ایک populist جماعت بنتی جا رہی ہے کہ اس نے عوامی خواہشات اور جذبات کواسلامی روحانی اور اخلاقی سانچے میں ڈھالنے کی جدوجہد تقریباً بالکل ترک کر دی ہے اور اس کی سیاست کا پورا زور سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی اور معیارِ زندگی میں مستقل ترقی کے حصول پر مرکوز ہو گیا ہے اور وہ سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی اور سرمایہ دارانہ ترقی کے حصول کا اسلامی جواز پیش کر کے اسلامی تشخص اور معاشرت سرمایہ دارانہ طرز اور نظم زندگی میں سمونے کی راہ اختیار کر رہی ہے۔

جب populist جماعتیں ریاستی اقتدار حاصل کر لیتی ہیں تو سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی اور سرمایہ دارانہ ترقی کے حصول کے لیے عالمی سرمایہ دارانہ استعمار سے قربت حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اس رویہ کی مخالفت اس جماعت کے وہ کارکن کرتے ہیں جو انقلابی جدوجہد اور استعمار مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ populist جماعت اقتدار میں آنے کے بعد ان عناصر کو نہایت بے رحمی سے کچل دیتی ہے کیوں کہ اس کے بغیر عالمی استعماری نظام سے سمجھوتا کرنا اور سرمایہ دارانہ حقوق اور ترقی کا فروغ ناممکن ہے۔

اس کی واضح ترین مثال چین کی کمیونسٹت پارٹی کا 1978کے بعد اور بولیویا کی MAS پارٹی کا 2006 کے بعد کا عمل ہے۔ دونوں جماعتیں طویل انقلابی جدوجہد کے بعد برسراقتدار آئیں لیکن جب سرمایہ دارانہ ترقی کے حصول کے لیے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہونے کی حکمت عملی اپنائی گئی تو ان جماعتوں نے اپنے ان کارکنوں کو نہایت بے دردی اور سفاکی سے مفلوج کر دیا جن کی انقلاب لانے میں قربانیاں سب سے بڑھ کر تھیں اور یہی عمل آج لاؤس، ویت نام، ترکی اور کسی نہ کسی حد تک ایران میں بھی جاری ہے۔

پھر جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، انقلابی واقعہ (اسلامی ریاست کا قیام) صرف انقلابی عمل کے اوپر منحصر نہیں۔ اس کے لیے حالات بھی سازگار ہونے چاہیئں۔ اور بلاشبہ حالات –ملکی اور عالمی- نہایت سازگار ہیں۔ آج نیولبرل ازم کا تسلط ہے اور نیولبرل فکر کی ایک بہت بڑی کامیابی انقلاببی عمل کو مہمل اور لایعنی ثابت کرنا ہے۔ وہ ہر اجتماعی صف بندی کو استعماری گردانتی ہے اور ہدایت کی افادیت کی منکر ہے۔ فوکو اس فکر کا سب سے بڑا داعی ہے اور اس فکر کی عمومیت کے نتیجے میں انقلابی تحاریک سب کی سب یک جہتی پاپولسٹ کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ نیولبرل ازم سرمایہ داری کی سب سے طاقت ور نظریاتی توجیہہ ہے اور اسی کے فروغ کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ تغلب آفاقی ہو گیا ہے۔ نیولبرل دور میں سرمایہ دارانہ بحران ناپید نہیں ہوئے۔ 2006 تا 2008 کا قرضہ جاتی بحران نہایت سنگین تھا لیکن اس بحران کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ طرز کارفرمائیت تبدیل نہ ہوا اور سرمایہ دارانہ اقتداری غلبہ کسی نہ کسی حد تک مضبوط ہو گیا گو کہ اس نظام اقتدار کے لیے کچھ نئے مسائل (بالخصوص قوم پرستی کا احیا) ضرور پیدا ہو گئے۔ نیو لبرل نظریہ کی کامیابی اصلاً وجودی اور معاشرتی ہے۔

نیولبرل ازم نے ایک ایسی انفرادیت کو جنم دیا ہے جو سرمایہ دارانہ اقتدار کو ناممکن، غیرضروری اور لاحاصل تصور کرتا ہے۔ ان معنوں میں ہماری دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت بھی نیولبرل جماعتیں ہیں۔ جو چیز تبلیغ اور دعوت کو حقیقی نیولبرل تحریکوں سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حقیقی نیولبرل تحریکیں (خواہ اسلامی خواہ کافر) سرمایہ دارانہ اقتدار سے مساوات کی فراہمی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دعوت اور تبلیغ سرمایہ دارانہ اقتدار سے کوئی مطالبہ نہیں کرتیں جو سرمایہ دارانہ قوت اور جبروت کو برداشت کرنے کا درس دیتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کے اندر اسلامی انفرادیت اور معاشرت کو فروغ دینے کی جدوجہد کرتی ہیں۔ عیسائی تاریخ میں بھی اس نوعیت کی غیرمطالباتی اصلاحی تحریک اٹھی ہیں۔ ان کو Queitist تحاریک کہا جاتا ہے اور ان کی مشہور (لیکن متضاد) مظاہر Quakerism اور Evangelism ہیں۔ غیرمطالباتی اصلاحی تحاریک (خواہ اسلامی خواہ کافرانہ) اس بات کو عموماً نظرانداز کرتی ہیں کہ اقتداری ادارتی صف بندی (سیاسی، معاشی، معاشرتی) شخصیت سازی کے عمل کو بڑی حد تک متاثر کرتی ہے۔

دورِ حاضر کا ایک اہم چیلنج یہ بھی ہے کہ آج نمایندہ جمہوریت ایک غالب نظریہ کے طور پر پوری دنیا میں مقبولِ عام ہے۔ آج دنیا کی ہر حکومت (خواہ لبرل، خواہ اشتراکی، خواہ قوم پرست، خواہ اسلامی) اپنے آپ کو جمہوری کہتی ہے اور اپنے اقتدار کا جواز نمایندہ جمہوری عمل کے اجرا ء ہی سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور دنیا کے ہر ملک میں گاہے گاہے انتخابات ہوتے رہتے ہیں جن میں عوام بڑی تعداد میں حصہ لیتے ہیں (گوکہ یہ تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے)۔ مطالباتی اصلاحی تحاریک –خواہ اسلامی خواہ کافرانہ –جمہوری عمل میں توسیع کا مطالبہ کرتی ہیں۔ انقلابی اسلامی جماعتیں تک اپنے جمہوری ہونے پر فخر کرتی ہیں۔

نمایندہ جمہوریت کا رائج الوقت تصور سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں لاک اور مونٹیسقیو نے پیش کیا ۔ معتزلہ فلسفی فارابی نے بھی اس سے ملتا جلتا تصور پیش کیا جس کو ہمارے قدیم سیاسی ائمہ نے شدت سے ردّ کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ایران کی اسلامی حکومت کے قیام تک کہیں بھی اور کبھی بھی نمایندہ جمہوریت قائم نہ ہوئی اور ہماری فقہ میں عوام کی رائے کی بنیاد پر فیصلہ سازی کو قطعاً ممنوع ہمیشہ گردانا گیا لیکن آج ہم جمہوری عمل میں شرکت پر مجبور ہیں اور جمہور علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شرکت جائز ہے کیوں کہ جمہوری عمل میں عدم شرکت اقتداری کش مکش سے دست برداری کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

لیکن نیولبرل نظم اقتدار نے جمہوری عمل کو مسخر کر لیا ہے۔ رائے عامہ کی تعمیر بڑے پیمانے پر سرمایہ دارانہ میڈیا کرتا ہے اور یہ رائے عامہ سرمایہ دارانہ اہداف اور ترجیحات کو ردّ کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ سیاسی جماعتوں کے منشوروں اور لائحہ عمل میں فرق نہ ہونے کے برابر ہو جاتا ہے۔ مثلاً 2013 کے انتخابات  میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے منشور ایک دوسرے کا چربہ معلوم ہوتے تھے۔ یہ سب سوشل ڈیموکریٹ منشور تھے۔ 2002 سے 2008 تک ایم ایم اے نے سرحد میں حکومت کی لیکن اس حکومت نے اقتداری نظام کو سرمایہ دارانہ ضوابط کے مطابق مرتب کیے رکھا اور صوبے میں اسلامی اقتداری ادارتی صف بندی بالکل ناپید رہی۔

نیولبرل حکومت دراصل کارپوریشنوں اور بینکوں کی حکومت ہوتی ہے اور کارپوریشنیں اور بینک جمہوری ادارے نہیں ہوتے۔ ان کا اقتدار نظم بڑھوتی برائے بڑھوتری سرمایہ کا اقتدار ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ میڈیا اور تعلیم کے ذریعے وہ جمہوری عمل کو ایسی انتظامی  اور قانونی ساخت میں جکڑ لیتے ہیں جو عوامی رائے کو سرمایہ دارانہ حکمت عملیوں کی تصدیق کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس قانونی اور انتظامی شکنجوں سے نکلنا آج کے دور میں اور دشوار بنا دیا گیا ہے کیوں کہ کارپوریشنوں اور بینکوں کا تسلط عالمی ہو گیا ہے اور وہ عالمی انتظامی صف بندی اور قانون سازی کو ملکی سیاسی نظام پر مسلط کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ نمایندہ جمہوریت تو ملکی ریاست تک محدود ہے۔ سرمایہ دارانہ عالمی نظم اقتدار جو کہ قطعاً جمہوری نہیں قومی جمہوری اقتدار کو مقید کرتا ہے اور اس عالمی سرمایہ دارانہ استبدادی نظام کے پشت پر امریکی استعمار کی ہمہ گیر عسکری قوت ہے۔

عالمی سرمایہ دارانہ اقتدار کا قومی جمہوری نظام پر تسلط یونان کے حالیہ جاری بحران سےواضح ہوتا ہے۔ 9-2008 کے عالمی قرضہ جاتی بحران سے پہلے یورپی بینکوں نے بڑے پیمانے پر یونانی تمسکات خرید رکھی تھیں۔ جب 9-2008 میں بحران آیا تو یورپی بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے خطرات بڑھ گئے تو انہوں نے یونان کے دیے گئےتمسکات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ یونان کی حکومت ان مطالبات کو پوا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ 2009 سے آج تک یونانی حکومت یورپی یونین ، یورپی مرکزی بینک اور آئی ایم ایف سے مالی امداد حاصل کر رہی ہے۔ لیکن اس امداد کو فراہم کرنے کے لیے یورپی یونین، یورپی مرکزی بینک اور آئی ایم ایف  نےبڑی کڑی شرطیں لگا رکھی ہیں جس کے نتیجے میں یونان میں کساد بازاری ، غربت اور بے روزگاری بے تحاشا بڑھی۔

ان ظالمانہ “اصلاحات” کے خلاف 2011 سے یونان میں ایک بڑی عوامی مزاحمت ابھری۔ اس تحریک کے نتیجے کے طور پر ایک انقلابی جماعت وجود میں آئی۔ یہ SYRZIAہے اور اس نے 2013 اور 2015 کے انتخابات اس دعوے کی بنیاد پر لڑے کہ وہ حکومت میں آ کر عالمی قرضہ داروں کو کڑی امداد ی شرائط نرم کرنے پر مجبور کرے گی۔ SYRZIA 2015 کے انتخابات جیت گئی  اور اس کے فوراً بعد قرضہ جاتی شرائط کو نرم کرنے کے لیے یورپی مرکزی بینک، یورپی یونین اور آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کیے۔ لیکن یہ ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ مذاکرات کے دوران SYRZIA نے ایک ریفرنڈم بھی منعقد کیا جس میں موجودہ شرائطی تجاویز کو ردّ کرنے کے حق میں بڑی تائید حاصل ہوئی لیکن پھر بھی  یورپی مرکزی بینک، یورپی یونین اور آئی ایم ایف نے جمہوری عمل سے حاصل شدہ اس نتیجہ کا کچھ نوٹس نہ لیا اور SYRZIA کو پہلے سے بھی زیادہ سخت قرضہ جاتی شرائط قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ آج SYRZIA، یورپی مرکزی بینک، یورپی یونین اور آئی ایم ایف کی ماتحتی میں حکومت کر رہی ہے۔

اسی طرح عالمی منڈیوں میں شرکت بھی انقلابی عمل کو بڑی حد تک متاثر کر سکتی ہے۔ وینزویلا میں 1999 میں ایک انقلابی حکومت قائم ہوئی۔ وینزویلا تیل برآمد کرنے والا بہت بڑا ملک ہے۔ 2000 سے اگلے تقریباً 12 سال تک تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں اور وینزویلا کو کثیر رقوم اور محصولات حاصل ہوتی رہیں۔ہوگوشاویز کی حکومت نے ان رقوم کو فلاحی اخراجات کے لیے استعمال کیا۔ بہت بڑے پیمانے پر صحت، تعلیم اور رفاہِ عامہ کی سہولتیں فراہم کیں۔ اس کے نتیجے میں عام آدمی کا معیارِ زندگی بہت تیزی سے بڑھا۔ حکومت نے پورے ملک میں مقامی سطح پر عوامی اقتداری اداروں (communes)کا ایک وسیع جال بچھا دیا۔ ان communes کےاقتداری اختیارات میں مستقل اضافہ کیا جاتا رہا اور ان communes کو مرکزی حکومت بہت بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کرتی رہی۔

لیکن 2013 سے تیل کی قیمتیں گرنے لگیں اور حکومت وینزویلا کے مالی وسائل تیزی سے گر رہے ہیں رفاہِ عامہ کے لیے اور communes کے لیے رقومات کا فراہم کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کرپشن ملک میں عام ہو گئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے بیرون ملک منتقل کیے جانے لگے۔ تورم (inflation) میں  بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔ وینزویلن کرنسی کی قدر بہت بہت گرنے لگی ۔ اشیائے صرف کی قلت بڑھتی چلی گئی اور وہی عوام جو انقلابی حکومت کے حامی تھے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریک پچھلے تقریباً تین سال سے وینزویلن حکومت کے خلاف جاری ہے۔ 2016 کے پارلیمانی انتخاب میں برسراقتدار پارٹی کو بہت بڑی شکست ہوئی اور اب Maduro(شاویز کا جانشین) کی صدارت پولیس اور فوج کی اعانت کے سہارے قائم ہے۔

2000 تا 2011 کی دہائی میں کئی لاطینی امریکا ممالک میں اشتراکی اور سوشل ڈیموکریٹ استعمار مخالف انقلابات لانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان میں ارجنٹینا، برازیل، ایکواڈور، پیرو، بولیویا اور وینزویلا شامل ہیں۔ آج ان تمام ممالک میں انقلابیوں کو شکست دی جا چکی ہے یا ان کی بنائی ہوئی حکومتیں شدید بحران کا شکار ہیں۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔

  • پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ سب انقلابی جماعتیں اپنے ملک کے معاشی نظام میں ساختی تبدیلی نہ لا سکیں۔ یہ ممالک بڑے پیمانے پر دھاتیں، تیل اور زرعی خام مال بین الاقوامی منڈیوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے برآمد کرنے والے ممالک ہیں۔ انقلابی حکومتوں نے تیل اور دھاتوں والی صنعتوں میں ملٹی نیشنلز کے حصص کی اکثریت خریدی۔ لیکن اس عمل سے وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اقتصادی گرفت کم زور نہ کر سکیں کیوں کہ ملٹی نیشنلز کے حصص کا کاروبار بڑے پیمانے پر لندن، نیویارک، فرینکفرٹ اور ٹوکیو کے سٹہ بازاروں میں ہوتا ہے اور وہیں ان کے اثاثوں کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے ۔ لاطینی امریکی برآمدتا (تیل، دھاتیں) کا کاروبار بھی بین الاقوامی صرافہ(کموڈٹی) سٹہ بازاروں میں مرکوز ہیں لہٰذا ان اشیا کی قیمتوں کے تعین پر بھی لاطینی امریکی انقلابی حکومتوں کا کچھ اختیار نہیں۔ اس کے علاوہ ان انقلابی حکومتوں نے بڑے پیمانے پر تجارتی اور صنعتی قرضے بین الاقوامی بینکوں سے لیے۔ اس سب کے نتیجے میں سیاسی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کے باوجود استعمار کی معاشی گرفت ان ممالک پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ ان میں سے کسی ملک نے بھی قومی معاشی خودمختاری کو فروغ دینے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ ملٹی نیشنلز، بینکوں اور عالمی منڈیوں سے حاصل شدہ رقوم ہی کو استعمال کر کے عوام کا معیارِ زندگی بڑھانے کے اخراجات پر خرچ کیا۔
  • دوسری وجہ یہ ہےکہ انقلابی حکومتیں جمہوری عمل کے ذریعے ہی قائم ہوئیں اور انہوں نے جمہوری عمل کو جاری رکھا۔ جمہوری عمل وہ موثر ترین راہ ہے جس کے ذریعے عالمی استعماریت کے مخالف ملک میں اپنی اقدار، میلانات اور سیاسی رجحانات کو فروغ دیتی اور جمہوری عمل میں دراندازی کرکے بڑے پیمانے پر مخالف ملک میں تخریب کاری کرتے ہیں۔ جمہوری عمل کے تسلسل کے نتیجے میں لاطینی امریکی استعمار مخالف میں امریکی تخریب کاروں کو گھس آنے کے وافر مواقع حاصل ہوئے اور انہوں نے اپنے گھس بیٹھیوں کے ذریعے مخالف ملک میں بڑے پیمانے پر منظم معاشی، معاشرتی اور سیاسی تخریب کاری جاری رکھی ہوئی ہے۔ انقلابی واقعہ کے بعد جمہوری عمل کو مفلوج یا معطل کرنا انقلابی غلبہ کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ بات ہٹلر، لینن اور علمائے ایران نے اچھی طرح سمجھ لی ہے۔ جمہوری عمل کو مفلوج اور معطل کرنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آتی ہے کہ انقلابی جدوجہد ہمیشہ ایک اقلیت ہی کرتی ہے اور عوامی رائے کو اس اقلیت کی اقداری ترجیحات سے ہم آہنگ کرنا لازماً ایک نہایت طویل المدت عمل ہے۔ انقلابی واقعہ کے بعد انقلابی عمل کو جاری رکھنے میں جو مشکلات آتی ہیں وہ عموماً انقلابیوں کی عوامی اکثریتی حمایت کو کم کرتی رہتی ہیں اور استعماری انقلاب مخالف قوتیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لہٰذا تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ جو انقلابی حکومتیں جمہوری عمل کے ذریعے قائم ہوتی ہیں اگر جمہوری عمل جاری رہے تو وہ جمہوری عمل ہی کے ذریعے ختم کر دی جاتی ہیں۔
  • لاطینی امریکا کی انقلابی قوتوں کی شکست کی تیسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ کلیدی اقدار کی بھرپور تائید کی۔ ان تحریکوں نے عوام کو اپنے معیارِ زندگی بلند سے بلند تر کرنے کے لیے جدوجہد کی دعوت دی۔ جب تک یہ عوامی معیارِ زندگی بلند کرنے میں کامیاب رہیں اس وقت تک عوام نے ان کا ساتھ دیا۔ جب بے روزگاری، اشیا کی قلت اور انفلیشن بڑھا اور غربت پھیلنے لگی تو عوام نے ان جماعتوں کا ساتھ اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ انہوں نے جو غربت کم کرنے کا وعدہ کیا وہ نبھا نہ سکیں۔ یہ کوئی انقلاب سے عوامی غداری نہیں بلکہ اس حقیقت کا اقرار ہے کہ موجودہ عالمی معاشی تناظر میں نیولبرل ریاستیں قوم پرست اور سوشل ڈیموکریٹ ریاستوں کے مقابلے میں عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں زیادہ کامیاب ہیں لہٰذا معیارِ زندگی میں مستقل اضافہ اور سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی کے خواہاں عوام عموماً نیولبرل حکمت عملیوں پر یقین کرتے ہیں۔

ان تجربات سے اسلامی انقلابی دو سبق حاصل کر سکتے ہیں:

  • انقلابی عمل کو جاری رکھنے کے لیے انقلابی واقع سے قبل اور اس کے بعد عوام کے میلانات اور ترجیحات میں اساسی تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔ معیارِ زندگی بلند کرنے اور سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی کی دعوت دینا اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودنے کے مترادف ہے (جیسا کہ جماعت اسلامی آج کر رہی ہے)۔ عوامی مذہبیت اور روحانیت میں اضافہ کی بنیاد پر ہی اسلامی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ یہ مذہبیت اور روحانیت کا عوامی پھیلاؤ مصلحین بالخصوص صوفیا اور مبلغین کا دائرہ عمل مصلحین کی پشتیبانی کے بغیر اسلامی انقلاب نہ برپا کیا جا سکتا ہے نہ دیرپا بنایا جا سکتا ہے۔ یہ مصلحین ہی ہیں جو عوام کو تحفظ دین اور غلبہ دین کی جدوجہد مستقل قربانیاں دینے کے لیے راضی کر سکتے ہیں۔
  • انقلابی واقعہ (اسلامی ریاست کے قیام) کے بعد جمہوری عمل کو مفلوج اور معطل کرنا اور بین الاقوامی سرمایہ دارانہ منڈیوں کا ملکی معیشت سے بتدریج ناطہ توڑنا اور معاشی خودمختاری کی حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے کیوں کہ جمہوری عمل اور بین الاقوامی سرمایہ کاری اور تجارت کے ذریعے ہی استعمار انقلاب مخالف تخریب کاری کرتا ہے۔

ان دونوں اقدام کی تفصیل ہم ان شاء اللہ آیندہ باب میں بیان کریں گے۔

ایک اور خطرہ جو اسلامی مصلحین اور انقلابیوں کو دورِ حاضر میں درپیش ہے وہ سرمایہ دارانہ ریفارمسٹ اور انقلابی تحریکوں سے تعاون کا خطرہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ سیاسی طاقت ور عوامی کافر تحریک قوم پرستی کی ہے جس نے برصغیر پاک و ہند  میں مذہب کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور مسلم اور ہندو قوم پرستی عوامی سطح پر فروغ پا رہی ہے۔ قوم پرستی ایک استعمار مخالف سرمایہ دارانہ نظریہ ہے جو سرمایہ دارانہ اہداف (آزادی، مساوات اور ترقی، معیارِ زندگی میں مستقل اضافہ) کی تصدیق اور تبلیغ کرنا ہے۔ قوم پرست جماعتیں اپنے ملکی یا مذہبی تشخص پر زور دیتی ہیں اور عوام کو اپنے ملک یا گروہ کی آزادی اور ترقی کے لیے متحرک کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کا مقصد اپنے ملک کو ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ملک بنانا ہوتا ہے۔ یہ سب سے پہلے پاکستان اور مسلم قوم کے سرمایہ دارانہ حقوق کے فروغ کا نعرہ لگاتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ ارتکاز اور بڑھوتری مسلمانوں کے لیے، پاکستان کے لیے ہو نہ کہ ہندوستان کے لیے یا امریکا کے لیے۔ جب قوم پرست ریاستیں قائم ہو جاتی ہیں تو وہ خالصتاً سرمایہ دارانہ طرز اور نظام زندگی نافذ کر دیتی ہیں۔ شعائر اسلامی کا تحفظ نمائشی اور علامتی اظہار کرتی ہیں اور پورا نظام سیکولر سرمایہ دارانہ قانون اور سرمایہ دارانہ انتظامیہ کی گرفت میں دے دیتی ہیں۔ ان کی استعمار مخالف گرفت رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ ملکی آزادی اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے استعمار سے سودے بازی کر کے اس کی باج گزاری اختیار کر لیتی ہیں۔

ہمیں پاکستان میں مسلم قوم پرستی نے بے اندازہ نقصان پہنچایا ہے۔ تحریک علی گڑھ اور تحریک پاکستان خالصتاً مسلم قوم پرست تحریک تھی اور اس نے جو قوم پیدا کی وہ ایک فاسق قوم ہے اور جو ملک انہوں نے بنایا اس میں ایک دن بھی نہ شرع نافذ ہوئی اور نہ کبھی ملکی یا لیسی سازی علوم اسلامی کے تناظر میں مرتب ہوئی۔ آج بھی ملک میں مقبول ترین جماعتیں (مسلم لیگ نون، تحریک انصاف) اسلام کی غدار اور استعمار کی کاسہ لیس جماعتیں ہیں جنہوں نے غازی ممتاز قادری کا عدالتی قتل کیا۔

ان جماعتوں سے اشتراک عمل اسلامی انقلاب کی راہ مسدود کرتا ہے۔ اس سے اسلامی سیاسی تشخص متاثر ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کا جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے سیاسی تعاون نے اسلامی سیاسی ایجنڈے کو بالکل معطل کر دیا ہے اور اب پاکستان کے سیاسی منظر میں اسلامی تشخص تقریباً معدوم ہو گیا ہے۔

دوسری نوعیت کی استعمار مخالف سرمایہ دارانہ تحاریک وہ ہیں جنہیں نئی سماجی تحریکیں (نیو سوشل موومنٹس) کہتے ہیں۔ ہم دنیا میں ان کا وجود محدود کر رہے ہیں (گو کہ عرب بہار کے دوران مصر اور تیونس میں ان کی کچھ شرکت موجود تھی) ۔ یہ تحریکیں پس جدیدی شخصیت کا اظہار ہیں۔ پس جدیدی شخصیت ہر قسم کی اخلاقی، سماجی اور نظاماتی حدود و قیود سے آزادی کی خواہاں ہے۔ نئی سماجی تحریکیں فحاشی اور عیاشی کو فروغ دینے کا فطری ذریعہ ہیں۔ یہ شخصیت سرمایہ دارانہ عقلیت کی قائل ہیں لیکن ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس عقلیت کے تقاضے کسی بیرونی اقتداری ذریعے سے ان پر نافذ نہ کیے جائیں بلکہ وہ خود اپنے اوپر اس عقلیت کے فیصلے نافذ کرنے کا فیصلہ کر سکیں۔ لہٰذا نئی سماجی تحریکات بلا قیادت نظر آتی ہیں اور ان کی ادارتی صف بندی نہایت ڈھیلی ڈھالی نظر آتی ہے۔ نئی سماجی تحریکیں عموماً خفیہ رہتی ہیں اور ان کا سرمایہ دارانہ نظام کی تسخیر کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا بلکہ سرمایہ دارانہ ریاست سے مراعات کے حصول پر معاملہ طے کرتی ہیں۔ سب سے کامیاب نئی سماجی تحریک میکسیکو کی زپاتستا تحریک رہی ہے۔ اس نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا معاشرتی تسلط قائم کر لیا لیکن اس کے لیڈر نے دارالخلافہ میں داخلہ کے بعد حکومت حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ اس قائد کی قیادت میں زپاتست تحریک امریکن استعمار کی آلہ کار بن گئی اور اس نے نکاراگوا کی انقلابی حکومت کو امریکا کی تخریب کار کے طور پر اہم خدمات انجام دیں۔

ظاہر ہے کہ اسلامی گروہوں کا نئی سماجی تحریکات سے اشتراک عمل نہایت غیرفطری ہے۔ لیکن تیونس اور قاہرہ میں عرب بہار کے دوران اس نوعیت کا تعاون کیا اور اس کا خمیازہ اخوان کو بھگتنا پڑا جب ان تحریکات میں شامل بے شمار لبرل اور قوم پرست گروہوں نے اخوان کی حکومت کے خلاف فوج کا ساتھ دے کر اسلامی حکومت کا ناطقہ بند کر دیا اور آج کل اخوان پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ان میں ان سماجی تحریکات کے لبرل اور قوم پرست گروہ بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔

پس جدیدی سرمایہ داری اپنا غلبہ شہوانی جذبات کو مہمیز دے کر اپنا تسلط قائم رکھتی ہے۔ شہوانی جذبات کی حتمی تسکین ناممکن ہے۔ شہوانی خواہشات جتنا پوری کی جائیں اتنا ہی ان میں ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا خواہشاتِ نفسانی کو مہمیز دینےو الی تحریکیں نظاماتی تبدیلی پر کبھی منتج نہیں ہوتیں بلکہ عوامی جوش و جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ پھر شہوانی جذبات کی تسکین کے لیے منظم جدوجہد کرنا فطرت کے بھی خلاف ہے۔ اس قسم کی مزاحمت ہمیشہ ایک محدود اقلیت تھوڑے عرصہ کے لیے جاری رکھتی ہے ۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت ان تحاریک سے لاتعلق رہتے ہیں اور عوامی تائید جلد سے جلد کم ہو جاتی ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنی  چاہیے کہ سرمایہ دارانہ حقوق اور معیارِ زندگی میں مستقل بڑھوتری کی جدوجہد عوام کے جذبہ حرص و حسد کو مہمیز دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ عدل کی فراہمی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی خواہشاتِ نفسانی پوری کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں اور جیسا کہ الین بادیو اور فریڈرک جیمز نے کہا ہے نفسانی خواہشات کی تسکین ناممکن ہے کیوں کہ ان خواہشات کی بنیاد حسد ہے۔ سرمایہ دارانہ طرز زندگی حسد کو فروغ دیتا ہے۔ ہر شخص کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کو وہ حاصل ہو جو دوسرے کو میسر ہے۔

مساوات کی طلب حسد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ عدل کا طالب بنیادی طور پر دوسرے افراد کو ان کے اموال اور مراعات سے محروم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی سب سے موثر عوامی جدوجہد اشتراکیت ہے اور اشتراکی جدوجہد کی روح حسد ہے۔ فریڈرک جانسن کے مطابق اگر مارکس کی مفروضہ جنت (کمیونسٹ سوسائٹی) کبھی وجود میں آئی تو وہ حسد سے لبریز ہو گی۔

سرمایہ دارانہ عدل کا عدم وجود یعنی نامساویت کا فروغ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کا ذریعہ ہے۔ یہ بات لبرل سرمایہ داری کے ایک اہم وکیل ہائیک نے واضح کی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بیش تر لوگ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی کارفرمائی خود بہ خود معاشی نامساویت پیدا کرتی ہے لہٰذا اگر وہ معاشی ارتکاز کی دوڑ میں پیچھے رہے جا رہے ہیں تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں ،کوئی اور فرد، گروہ یا ادارہ نہیں۔ لہٰذا اپنے معاشی وسائل کو فروغ دینے کے لیے انہیں مزید لگن کے ساتھ سرمایہ کے حصول کی تگ و دو کرنی چاہیے۔ یوں ان کا حسد ان کے حرص کو مہمیز دیتا ہے۔ اور پورا سرمایہ دارانہ معاشرہ حرص او رحسد کے اوصافِ خبیثہ کے زیرنگیں آ جاتا ہے۔

حرص اور حسد کو پرورش کرنے والا مرکزی ادارہ سرمایہ دارانہ مارکیٹ ہے۔ جتنا زیادہ مارکیٹ کا معاشرہ پر تسلط ہو گا اتنا زیادہ معاشرہ میں حرص او رحسد کا غلبہ ہو گا مارکیٹ کا غلبہ سود اور سٹہ کے بازاروں تک محدود نہیں بلکہ ان تمام کاروباروں پر محیط ہے جو سود اور سٹہ کے بازار سے منسلک کمپنیوں سے لین دین کرتے ہیں۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ معاشرہ میں ہر شخص کسی نہ کسی حد تک حرص اور حسد اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسے پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں جو سرمایہ دارانہ مارکیٹ کی دسترس سے باہر ہیں-

یہی وجہ ہے کہ آج کل سرمایہ دارانہ مخالف عسکری جدوجہد پس ماندہ علاقوں تک محدود رہتی ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ مراکز اور سرمایہ دارانہ قوتِ تحکیم کو متاثر نہیں کر پاتی۔ وہ سرمایہ دارانہ تعقل کے لیے کوئی چیلنج پیش نہیں کرتے۔ سرمایہ دارانہ معاشروں میں عموماًان کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اور وہ سرمایہ دارانہ بحرانوں سے مستفید ہونے کی صلاحیت جو نقصان وہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو پہنچاتے ہیں وہ نہایت وقتی ہوتا ہے۔

پھر اس کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ یہ عسکری تحریکیں سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہو جائیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ماؤسٹ تحریکیں ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے 1928 سے 1946 تک چینی اور جاپانی سرمایہ دارانہ تسلط کے خلاف ایک “عوامی جنگ” لڑی جس کے نتیجے میں اس نے آخرکار پورے چین پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ کی کامیابی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ایک ایسی عوامی شخصیت تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گئی جو انفرادی نہیں اجتماعی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کے تسلط کے علاقوں کا عام باشندہ اس بات کا قائل ہو گیا کہ وہ انفرادی طور پر نہیں اجتماع کے طور پر ہی سرمایہ دارانہ ظلم اور استحصال پر فتح پا سکتا ہے۔ یہ اجتماعی شخصیت سرمایہ دارانہ شخصیت ہی تھی۔ اس کے اہداف آزادی، مساوات اور ترقی ہی تھے۔ لیکن عوام یہ سمجھتے تھے کہ ان سرمایہ دارانہ اہداف کے حصول کے لیے ذاتی قربانیاں دینا ضروری ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کی عوامی جنگ کا بھرپور ساتھ دیا۔

لیکن جب کمیونسٹ پارٹی فتح یاب ہوئی تو سرمایہ دارانہ  اجتماعیت بتدریج تحلیل ہونے لگی اور سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی کے اندر ہی سرمایہ دارانہ انفرادیت ابھر آئی اور دھیرے دھیرے پورے معاشرہ میں سرمایہ دارانہ انفرادیت کا غلبہ ہو گیا۔ ماؤ اور اس کے پیروکاروں نے اس سرمایہ دارانہ انفرادیت کا مقابلہ کرنے کی جتنی بھی کوششیں کیں بالخصوص Great Proletarian Cultural Revolution 1966-72 سب ناکام ہوئیں اور بالآخر 1978 کے بعد سے چین بین الاقوامی سرمایہ دارانہ مارکیٹ کا جزو لاینفک بنتا چلا جا رہا ہے او رایک عام امریکی اور ایک عام چینی کے طرز زندگی میں کوئی فرق موجود نہیں۔

ہندوستان، نیپال او رلاطینی امریکا کے کچھ ایسے علاقوں میں جہاں قدیم باشندوں (ریڈ انڈینز) کی اکثریت اب بھی موجود ہے ماؤسٹ تحریکیں طویل عرصہ جاری رہی ہیں لیکن نیپال اور لاطینی قدیم باشندوں کی تحریکیں غالب سرمایہ دارانہ اقتدار سے سمجھوتا کر چکی ہیں اور نکسلباڑی اور سرنگا پٹم کے باقی ماندہ عسکری اپنے تسلط کے دائرے کو وسعت دینے کےقابل نہیں رہے۔

عسکری تحریکوں کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ غیرسرمایہ دارانہ انفرادی شخصیت سازی سرمایہ دارانہ مراکز میں کریں اور اس کے لیے سرمایہ دارانہ مراکز میں ایک غیرسرمایہ دارانہ معاشی اور معاشرتی نظام کا قیام، استحکام اور بتدریج پھیلاؤ ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام عسکری جدوجہد کےساتھ  انجام نہیں دیا جا سکتا اور غیرسرمایہ دارانہ عوامی معاشرتی اور اقتداری ادارتی صف بندی اسلامی مصلحین اور اسلامی انقلابیوں کی ذمہ داری ہے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16