عصر حاضر کے اسلامی گروہوں کی اصلاحی و انقلابی جدوجہد

کا تجزیہ

پاکستان کے تمام اسلامی گروہوں

جمیعت علماء اسلام، جماعت اسلامی ، دعوت  اسلامی ،جمیعت علماء پاکستان،تبلیغی جماعت ،تنظیم اسلامی،علماء مدارس

تحریک  لبیک پاکستان،ملی مسلم لیگ،جمیعت الحدیث،جمیعت اہلسنت

کے نام

 فکر مودودی بلاگ کا پیغام

عصر حاضر کے اسلامی گروہوں کی    اصلاحی و انقلابی  جدوجہد(باب اول)

تمہید:

اس مقالہ میں ہم حسب ذیل سوالات سے بحث کریں گے-

1)  اسلامی اصلاحی گروہوں اور اسلامی انقلابی گروہوں کے کام کی نوعیت انکی تاریخی حیثیت،  ان کے مابین فرق اور مماثلت ، پر روشنی ڈالی  گئی ہے  تاکہ ایک  دیرپا اسلامی انقلاب کے لئے امت کے ان دونوں اقسام  کے گروہوں کے کام کو مربوط،  متصل اور ہم آہنگ کیا جاسکے ۔

2-  انقلاب کی تاریخ ، انقلاب کے لئے درکار لوازم اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے بارے میں آگہی –

3-اسلامی اصلاحی گروہوں اور اسلامی انقلابی گروہوں کے قلیل  و طویل المدت  اہداف-

– اسلامی تحریکاتِ اصلاح و انقلاب  اور کافرانہ تحریکات اصلاح و انقلاب میں فرق اور اسی ضمن میں  اس خطرہ کا ادراک جس کے تحت، اسلامی  اصلاحی و انقلابی تحریکوں کا سرمایہ دارانہ حقوق و عدل کی فراہمی کی جدوجہد کو قبول کرکے اسکا اسلامی جواز پیش کرنا شامل ہے-

5-  غلبہ دین کے مختلف مراحل میں متحرک اسلامیان کے دو گروہوں (اصلاحی/دفاعی اور انقلابی) کا کیا کردار ہوتا ہے اور کس کے کام کی کب ضرورت اور کیا اہمیت ہوتی ہے-

6- انقلابات عالم کی موجودہ تاریخ میں کہاں کہاں ان انقلابات کو سرمایہ دارانہ نظام سے چیلنج درپیش ہوئے اور وہ چیلنج کیا تھے  جن سے آئندہ انقلابیوں کو نبرد آزما  ہونے کی ضرورت ہے-

7) سرمایہ دارانہ نظام کے وہ کون کون سے تضادات وکمزوریاں ہیں جن سے ان دونوں اسلامی گروہوں کو فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔

                موجودہ دور کے علاوہ ہماری پوری تاریخ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلامی انقلاب کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نظام اقتدار شریعت مطہرہ کے تابع نہ رہا ہو،  اس لحاظ سے موجودہ دور میں اسلام  کی سیاسی  مغلوبیت  ہماری تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے-  آج جس نظام اقتدار کو اقتداری اور معاشرتی غلبہ حاصل ہے وہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ یہ نظام اقتدار سرمایہ کی حاکمیت قائم کرتا ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست شرع مطہرہ اور اسلامی علمیت کی فوقیت کو صریحاً ردّ کرتی ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار کی تسخیر امت کے لیے فرض کفایہ ہے۔ اسلامی انقلابی تحریکات اسی فرض کفایہ کو ادا کرنے کی جدوجہدکر رہی ہیں۔

اسلامی تاریخ میں  انقلاب کا تصور نیا نہیں ،  کبھی  یہ انقلاب سلطان کی اپنی سرپرستی میں جہاد کی صورت زندہ رہا اور کہیں سلطان کو راہ راست پر رکھنے کے لیے خروج کی شکل میں کارفرما رہا- غلبہ دین کے قیامِ اوّل کے شروع کے 100سال کے اندر ہی امام حسین  وعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور بعد میں آنے والے بزرگوں کے پیروؤں کی عسکری و انقلابی جدوجہد نے یہ بات طے کر دی تھی کہ مسلمانوں پر حکومت شرع مطہرہ کے مطابق ہو گی اور جب بھی نظام اقتدار و ریاست اس سے ہٹنے لگے گا تو خروج کے ذریعے اس کا رٗخ واپس شرع مطہرہ کی طرف موڑ دیا جاے گا- ان ہی بزرگوں کی جدوجہد قربانیوں اور اخلاص کا نتیجہ ہے کہ الحمدللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ پاکیزہ اسلامی انقلاب سے لے کر 1200 سال تک نظم اقتدار اسلامی بنیادوں پر قائم رہا اور تمام معاشرتی فیصلے علوم اسلامی سے تطبیق کی بنیاد پر کیے گئے۔ اس کے نتیجہ میں استعمار کے غلبہ کے دور تک مسلمانوں پر حکومت ایک اسلامی حکومت ہی رہی یہاں تک کہ تاتاری سلطنتوں تک نے شرع کو نافذ رکھااور ریاستی نظام کو تسخیر کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی۔ لہٰذا ہمارے علما اور صوفیا کے لیے انقلاب ایک اجنبی تصور ہو کر رہ گیا۔

اس دوران میں اصلاح کا دائرہ کار یقیناً انقلاب سے بڑھ کر رہا کیونکہ اصلاح کی ضرورت تو ہر وقت رہتی ہے- انفرادی ، معاشرتی اور ریاستی اعمال شاذ ہی معیار مطلوب پر پورے اترتے ہیں اور ان میں اصلاح کی گنجائیش ہمیشہ باقی رہتی ہے- مزید یہ کہ جب بھی انقلابی عمل اور عسکری جدوجہد کے نتیجے میں دین غالب ہوا یا ہو گا تو اسے قائم رکھنے کیلئے اصلاحی عمل ہی کی ضرورت پیش آئے گی-

وقتاً فوقتاً مصلحین تحریکات بھی برپا کرتے ہیں (گو کہ عمومی حالات میں مصلحین امن پسند ہوتے ہیں اور تحریکات سے اجتناب کرتے ہیں) ان تحریکات کا مقصد اور ہدف اقتداری تغیر نہیں بلکہ انفرادی ریاستی یا معاشرتی عمل میں اصلاح ہوتا ہے (مثلاً ردِّ قادیانیت، تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحاریک وغیرہ)، ان اصلاحات کو سرمایہ دارانہ نظم اقتدار اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے(اس میں  وہ کبھی جزواً کامیاب ہوتا ہے  کبھی کلیتہً) ۔ ان مصلحین کی تحریکات کے نتیجہ میں جو شخصیت اور علمیت تعمیر ہوتی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظم میں تحلیل بھی ہوسکتی ہے (اور عموماً ایسا ہی ہوتا ہے) اور اس کوانقلابی جدوجہد کے ایک وسیلہ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے (بشرطیکہ انقلابیوں میں یہ کرنے کی تنظیمی استطاعت موجود ہو)۔ عموماً اصلاحی تحریکات کی وقتی کامیابی کے نتیجہ میں انفرادی اور معاشرتی رویوں اور رجحانات میں دائمی اور دیرپا تبدیلی نہیں آتی ، جبکہ غیرمطالباتی اصلاحی تحاریک (مثلاً صوفی سلا سل، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی) اس ضمن میں کہیں زیادہ کامیاب نظر آتی ہیں-

مصلحین انقلابی واقعہ کو ناقابل حصول اور انقلابی عمل کو لاحاصل سمجھتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ غلبہ دین کو بحیثیت ایک ہدف کے ردّ نہیں کرتے بلکہ غلبہ دین کے عمل کو ایک کرشماتی، معجزانہ یا بلااختیاری عمل تصور کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا بنیادی تصور یہ ہے کہ جب انفرادی اور معاشرتی اصلاحی عمل کا دائرہ کار پورے تمدن پر محیط ہو جائے گا تو اسلامی ریاستی نظام خود بہ خود برآمد ہو جائے گا اور کسی ریاستی یا معاشرتی مزاحمت کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

اقتدار اسلامی کے غیرارادی طور پر وقوع پذیر ہونے کا یہ عقیدہ اس حقیقت کے علی الرغم ہے کہ اصلاحی اسلامی تحریکات خود بہ خود وجود میں نہیں آتیں بلکہ ان کے موجد بھی ہوتے ہیں (مولانا الیاس کاندھلوی اور مولانا الیاس قادری ) اور ان کی تنظیمی صف بندی بھی مستحکم اور مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک منظم انقلابی جماعت کے وجود کو ضرر رساں گردانتے ہیں اور عوام میں انقلابی شعوری بیداری کو مضر خیال کرتے ہیں۔انقلابی عمل گنجلک اور پیچیدہ ہے۔ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ انقلابی عمل کے ذریعہ حاکم اور محکوم کے تعلقاتی نظام کی ترتیب نو ہوتی رہتی ہے۔ انقلابی ، “انقلابی عمل” پر یقین رکھتےہیں انقلابی واقعہ پر نہیں۔ یہ لازم نہیں کہ انقلابی عمل کے ذریعے انقلابی واقعہ لازماً  ظہور پذیر ہو جائے ۔ اسلامی انقلابی حصولِ رضائے الٰہی کے لیے انقلابی عمل کو جاری رکھتے ہیں، انقلابی واقعہ (اسلامی ریاست کے قیام ) کے لیے نہیں۔انقلابی عمل پر یقین وہ بنیادی خصوصیت ہے جو اسلامی انقلابیوں  کو مصلیحین سے جدا کرتی ہے۔ اس کے باوجود انقلابی واقعہ (اسلامی ریاست کا قیام) اسلامی مصلحین اور اسلامی انقلابیوں کے اشتراکِ عمل پر بہت بڑی حد تک منحصر ہوتا ہے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں  کیوں کہ مصلحین اور انقلابیوں دونوں کا مقصد ِ جدوجہد یکساں ہے یعنی حصولِ رضائے الٰہی۔

عیسائیوں کے برخلاف اسلامی مصلحین حکومتِ الٰہیہ کے انکاری نہیں۔ وہ دہریت (سیکولرازم) اور دہری قوانین کی تردید کرتے ہیں اور اپنی ذاتی اور جماعتی زندگی میں شرع مطہرہ کی سختی سے پابندی کی کوشش کرتے ہیں۔ جب اور جہاں بھی انقلابی واقعہ پیش آتا ہے (اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ہے ) تو اس کی انتظامیہ بڑے پیمانے پر مصلحین کے گروہ ہی فراہم کرتے ہیں اور تنفیذ احکامات شرع مطہرہ مصلحین ہی کی ذمہ داری قرار دی جاتی ہے۔مصلحین کی نگاہ انفرادی اعمال کی اصلاح پر ہوتی ہے۔ ان اعمال کی عمومی تطبیق اور تدوین کے نتیجہ میں معاشرت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان پر فتوے نہیں لگائے جاتے۔ مثلاً سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی ادارتی صف بندی پر کبھی فتوے جاری نہیں کیے گئے۔ لہٰذا مصلحین کی صفوں سے ایسی اصلاحات کی تائید کی گئی جن کی بنیاد پر  اسلامی معاشرتی تشخص  سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں ضم ہوتا جا رہا ہے- اس کی سب سے واضح مثال اسلامی بینک کاری کے ضمن میں جاری فتاویٰ ہیں۔ اس بات سے سہو نظر کیا گیا کہ پوری اسلامی تاریخ میں بینکوں کا وجود نہ تھا اور بینک خالصتاً یہودیوں کی ایجاد ہیں اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے معاشی نظام کا مرکز و محور ہیں،  لیکن ا نہیں بینکوں سے متعلق ایسے فتاویٰ جاری کیے گئے جو سرمایہ دارانہ معاشی اور تجارتی معاہدوں کا شرعی جواز مرتب کرتے ہیں۔ نتیجتاً اسلامی بینک عالمی سود اور سٹہ کے بازاروں کا حصہ بن گئے اور ہر سال مسلمانوں کے اربوں ڈالر کی دولت عالمی سودی اور سٹہ کے بازاروں میں منتقل ہو رہی ہے اور یہودی بینک، عیسائی بینک، دہریہ بینک وغیرہ سب اسلامی بینک کاری کے بڑے بڑے کھلاڑی بن بیٹھے ہیں-

اگر مصلحین انقلابی عمل کے قائل ہوتے تو ان کے لیے یہ سوال اٹھانا ناگزیر ہو جاتا کہ کون سی اور کس نوعیت کی اصلاحات دور حاضر میں اسلامی معاشرت او رریاستی نظام سرمایہ داری میں سمونے کا ذریعہ بن سکتی ہیں اور کس نوعیت کی اصلاحات اسلامی معاشرتی اور ریاستی تشخص کو مستحکم کرنے اور سرمایہ داری کو منتشر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر انقلابی عمل عام ہو جائے تو مصلحین اور انقلابی گروہوں میں ربط فطرتاً پیدا ہو جاتا ہے اور دنیا میں کئی جگہ ایسا ہوا ( مثلاً ایران، بولیویا، اسپین) کے مطالباتی اصلاحی تحریکوں نے انقلابی جماعتوں کو جنم دیا اور ایران اور افغانستان کے تجربہ سے ثابت ہے کہ انقلابی واقعہ  (اسلامی ریاست کے قیام) کے بعد اسلامی انقلابی حکومتوں نے انہی مصلحین کا سہارا لےکر انقلابی عمل (جو قیام ریاست کے بعد جہاد میں تبدیل ہو جاتا ہے) کو آگے بڑھایا۔

اصلاحی اور انقلابی گروہوں میں ربط و تعاون کا بڑھنا فطری ہے کیوں کہ انقلابی جدوجہد طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت ریاستی اقتدار کو مقامی اور گروہی سطح پر بتدریج مرتب کرنے کا عمل ہے اور محلہ، بازار اور برادری کی سطح پر مصلحین کا اثر ہمیشہ نمایاں ہوتا ہے اور انقلابی عمل اور واقعہ کے اشارات کو جانچنے کا ایک اہم پیمانہ  یہی ہے کہ اس عمل اور واقعہ سے عام آدمی کی روزمرہ زندگی کس حد تک متاثر ہوتی ہے۔

ہماری اسلامی تاریخ سے ہٹ کر جدید دور میں “کافرانہ طرز انقلاب “کا تصور مغرب کے فلاسفہ جان لاک اور ژاک روسو نے پندرہویں صدی میں فرانس میں متعارف کروایا  جس کے مطابق پہلی مرتبہ ریاستی نظام میں عمومی معاشرتی دباو کے تحت تغیر ممکن ہوا اس لئے کہ ریاستی نظم میں تبدیلی کی گنجائش بھی تھی اور ایک متبادل کا تصور بھی ان فلاسفہ کے پاس موجود تھا- انقلابی عمل اسی صورت میں جاری رہ سکتا ہے جب یہ تینوں عوامل موجود ہوں یعنی

(الف) معاشرہ کی سطح پر یہ احساس موجود ہو کہ ریاستی تنظیم اقتدار میں بنیادی تغیر کی ضرورت ہے

(ب)ایک متبادل فلسفہ حیات کے تحت ایک متبادل ریاستی خاکہ موجود ہو

 (پ)عمومی معاشرتی دباو ان دونوں مندرجہ بالا مفروضات کے پیچھے موجود ہو، اگرچہ انقلابی عمل  شاذ ہی انقلابی واقع میں تبدیل ہوتا ہے۔

انقلابیوں کے اہداف دو ہیں,

(۱) انفرادی اور معاشرتی سطح پر اقتدار برتنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور معاشرتی سطح پر عوامی اقتداری صف بندی؛

(۲) ملکی سطح پر ریاستی اقتدار کا حصول بذریعہ پارلیمانی عمل  یا بذریعہ ایسی ہمہ گیر عوامی مزاحمت جو سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار کو منتشر اور مسخر کرے اور عوامی اقتداری صلاحیت کو بڑھائے- معاشرتی اقتداری صف بندی انقلابی عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے (یعنی اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی) اور سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار کا مکمل انہدام وہ واقعہ ہے جس پر اسلامی انقلابی عمل منتج ہوتا ہے۔ یہ واقعہ اس عمل کا محض ایک حادثاتی سنگ میل ہے جو شاذ و نادر ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس عمل کا مقصد یا اس کی منزل نہیں۔ منزل تو حصولِ رضائے الٰہی ہے اور انقلابی سمجھتے ہیں کہ حشر میں اللہ عز وجل ان سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ ہم نے اسلامی ریاست کیوں قائم نہ کی بلکہ یہ پوچھیں گے کہ ہم نے اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے کتنی جدوجہد کی اور کیا عجب کہ حضرت حق سبحانہ مصلحین سے بھی پوچھے کہ “میرے جو بندے اسلامی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے تم نے ان کا ساتھ کیوں نہ دیا؟”

پھر کہو تو میاں​​کیا کہو گے وہاں

انقلابی عمل پر یقین ایک مخصوص انفرادیت تعمیر کرتی ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو سرمایہ دارانہ ریاستی کارفرمائی کے ہمہ جہت عمل کا مستقل مطالبہ کرتی رہتی ہے اور اس عمل کو منتشر کرنے کے لیے پیہم نئی نئی حکمت عملیاں مرتب کرتی ہے۔ مصلحین کے گروہ سرمایہ دارانہ نظاماتی فعالیت کا ادراک مرتب کرنا ضروری خیال نہیں کرتے۔ وہ یا تو سرمایہ دارانہ اقتدار کی کارفرمائی کو سرے سے خاطر ہی میں نہیں لاتے (جیسے کہ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی) یا اس عمل کو غیراقداری اور ٹیکنیکل گردانتے ہیں۔ مصلحین کے اس نوعیت کے رویوں کو اختیار کرنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ انقلابی عمل پر یقین نہیں رکھتے۔

انقلابی معاشرتی اور روزمرہ کی زندگی میں اسلامی رجحانات اور تعلقاتی نظام کو غیر اسلامی رجحانات اور تعلقاتی نظام سے ممیز کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ معاشرتی سطح پر سرمایہ دارانہ کارفرمائیت کو معطل کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ وہ ایسی علمیت مقبول عام بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظاماتی غلبہ کے ضرر اور اس کی نامعقولیت اور تضادات کو واضح کردے۔ ان اہداف کا حصول اسلامی روحانیت، اخلاقیت، سیرت اور کردار کے عام ہونے پر منحصر ہے  اور اسلامی روحانیت اور اخلاقیت کو فروغ دینا مصلحین کا دائرہ کار ہے۔ معاشرے میں مقاماتی اقتداری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اسلامی اخلاقیات اور روحانیت کا فروغ ناگزیر ہے۔ لہٰذا اسلامی انقلابی عمل کا ارتقا بنیادی طور پر مصلحین کی جدوجہد کی کامیابی پر منحصر ہے۔ انہیں معنوں میں اسلامی مصلحین اور اسلامی انقلابی ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں اور اصلاح (تحفظ دین کی جدوجہد) اور انقلاب (غلبہ دین کی جدوجہد) ایک ہی عمل کے دو زاویے ہیں جن کا آپس میں مربوط ہونا ناگزیر ہے۔ یہ بات اس سے بھی عیاں ہے کہ مصلحین اور انقلابی تمام اسلامی گروہ الحمدللہ سب راسخ العقیدہ ہیں اور ان کے اختلافات محض طریقہ کار کے ضمن میں ہیں –

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایم ایم اے کے قیام کے وقت مولانا شاہ احمد نورانی (نوراللہ مرقدہٗ) نے کراچی میں اسلامی جماعتوں کا اجلاس بلایا تاکہ ان کے اختلافات پر گفتگو ہو۔ چھہ گھنٹے کی طویل بحث کے بعد مولانا نے بحث کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا “معلوم ہوا کہ ہم میں کوئی اصولی اختلاف نہیں، ہمارے اختلافات محض فروعی اور تزویراتی ہیں۔ میں جو کہوں گا اس پر سب عمل کریں گے”۔ پوری مجلس نے یک زبان ہو کر مولانا کے ارشاد پر آمنا و صدقنا کہا۔

مقاصد کی یکسانیت کے باوجود اصلاحی اور انقلابی گروہوں کے دائرہ کار میں واضح فرق ہے۔ انقلابیوں کا دائرہ کار نظام اقتدار ہے۔ وہ  سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے انہدام اور اس کے متبادل اسلامی نظام اقتدار کی تعمیر کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

اسلامی انقلابی ہر سطح پر سرمایہ دارانہ اقتدار کو منتشر اور مسخر کرنے کی جدوجہد کے قائل ہیں۔ محلہ کی سطح پر، بازار کی سطح پر ، برادریوں کی سطح پر، ضلع اور شہر اور صوبہ اور وفاق کی سطح پر۔ بہ الفاظ دیگر وہ سرمایہ دارانہ قانون اور سرمایہ دارانہ انتظامیہ کی کارفرمائی کو محدود اور بتدریج معطل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ اس کے متبادل اسلامی اقتدار کو ہر سطح پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ محلہ کی سطح پر، بازار کی سطح پر، برادری اور خاندان کی سطح پر، ضلعی، شہری، صوبائی اور وفاقی سطح پر۔ ہر سطح پر وہ اسلامی شخصیت، روحانیت اور علمیت کا غلبہ قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ہر سطح پر سرمایہ دارانہ انفرادیت، روحانیت اور عقلیت کو مغلوب کرنے کے خواہاں ہیں۔

سرمایہ دارانہ اصلاحی و انقلابی تحریکات اور اسلامی اصلاحی تحریکات میں فرق اور اسلامی اصلاحی و انقلابی  تحریکات کے سرمایہ دارانہ علمیت سے مرعوبیت  کے ضمن میں پوشیدہ خطرات-

 جس دور  میں ہم رہ رہے ہیں سرمایہ دارانہ غلبے کا دور ہے اس میں حاکمیت  ہرسطح پر سرمایہ دارانہ عقائد ونظریات کی ہے، اورہر دوسرا عقیدہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنی علمیت کو سرمایہ دارانہ علمیت میں ضم کرچکا ہے یا کررہاہے ۔کوئی معاشرت یا انفرادیت اس نظام کے اثر سے باہر نہیں رہ گئی ہے دنیا میں کوئی معاشرہ اور کوئی مذہب ایسا نہیں بچا جس کی علمیت آج بھی سرمایہ دارانہ علمیت پر فوقیت رکھتی ہو اور کوئی معاشرہ سرمایہ دارانہ تسلط سے باہر قائم ودائم ہو اور مامون بھی ہو۔

سرمایہ دارانہ اصلاحی و انقلابی تحریکیں سرمایہ دارانہ حقوق کی عمومیت اور سرمایہ دارانہ عدل کے قیام اور استحکام کیلئے جدوجہد کرتی ہیں – دور حاضر کا ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ اسلامی اصلاحی و انقلابی جدوجہد کرنے والے گروہ سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی اور سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کو بحیثیت اہداف کے قبول کرکے انکا اسلامی جواز (apology) پیش کریں – یہ ہی رویہ اختیار کرکے اسلامی نظم اور طرز زندگی سرمایہ دارانہ نظم اور طرز زندگی میں ضم ہو چکا ہے – ایسے میں بہت بڑا چیلنج تمام اصلاحی گروہوں کو موجودہ نظاماتی کشمش کی آگاہی دینا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے اسلامی معاشرت و شخصیت پر مرتب ہونے والے اثرات اور اس لے غلبے کے نتیجے میں معدوم ہوتی اسلامی علمیت کے نتائج سے انہیں آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اسلامی انقلابی عمل revolution  و واقعہ process کی اہمیت کو سمجھ سکیں – چونکہ یہ آگاہی انہیں ہمارے تاریخی علمی ورثہ میں نہیں ملتی اسی لئے اصلاحی گروہوں کو اس پورے عمل و واقعہ کی اہمیت سے آگاہی دے کر انہیں تطبیق کے لئے ذہنی و علمی طور پر تیار کرنا اسلامی علمیت کی بقا کیلئے اشد ضروری ہے  – اس مضمون میں کوشش کی جائےگی کہ اس کار عظیم کی طرف پیش رفت کی جا سکے تاکہ اسلامی اصلاحی و دفاعی گروہ انقلابی عمل کی اہمیت اور اس سے متعلق علمیت کو جانیں اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے غلبے کی جدوجہد کی اہمیت کو سمجھیں اور اس میں اپنے کردار کو جانیں ۔

دوسرا چیلنج اسلامی انقلابی گروہ کو بھی سمجھانا ہے کہ انقلابی عمل وانقلابی واقعہ کے دوران اصلاحی و دفاعی گروہوں کی فعال شمولیت کے بغیر اکیلے انقلابی ، انفرادی معاشرتی وسیاسی سطح پر کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام دینے کی پوزشن میں نہیں ہیں –

اسلامی تحریکاتِ اصلاح اور انقلاب کو اچھی طرح پہچان لینا چاھئے کہ اسلامی اصلاحی اور انقلابی جدوجہد کا بنیادی مقصد اسلامی انفرادیت کا عمومی فروغ ہے، یعنی ایک شخصیت کی معاشرتی عمومیت جس میں نفس مطمئنہ نفس امارہ پر غالب آ گیا ہو – ظاہر ہے کہ کافرانہ اصلاحی اور انقلابی جدوجہد نفس مطمئنہ کی معاشرتی عمومیت پیدا کرنے سے کچھ سروکار نہیں رکھتی- سرمایہ دارانہ نظام اقتدار پورے قومی معاشرے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ وہ کمیونٹی علما کی سطح پر بھی قائم ہے اور بازار کی سطح پر بھی، ضلع کی سطح پر بھی، شہری سطح پر بھی، صوبائی اور وفاقی ریاستی سطح پر بھی۔ اس کی گرفت میں تعلیمی ادارے ہی نہیں تمدنی ادارہ بھی ، مذہبی ادارہ بھی، تجارتی اور کاروباری ادارہ بھی اور سیاسی ادارہ بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ قانون اور سرمایہ دارانہ انتظامیہ وہ ذرائع ہیں جو سرمایہ دارانہ غلبہ کو ممکن بناتی ہیں۔

سرمایہ دارانہ قانون اور سرمایہ دارانہ انتظامیہ کی کارفرمائی کا مقصد غیرسرمایہ دارانہ گروہوں اور اداروں کو اقتدار سے محروم کرنا اور تمام اقتدار سرمایہ دارانہ اداروں اور گروہوں (بالخصوص سرمایہ دارانہ اشرافیہ) کے ہاتھوں میں اقتدار کو مرتکز کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ  اقتدار سرمایہ دارانہ قانون اور سرمایہ دارانہ انتظامیہ قوت کے استعمال سے قائم کرتی ہے۔

لیکن اس کا اصل ذریعہ سرمایہ دارانہ تعقل (rationality) کا بتدریج معاشرتی تفوق ہے۔ ہماری خانقاہیں اور مدارس عالمی سرمایہ دارانہ استعمار کے نشانہ پر ہیں اس لیے کہ اب وہ دنیا میں واحد روحانی اور علمیاتی مراکز رہ گیے ہیں جہاں سرمایہ دارانہ روحانیت (انسان پرستی) اور سرمایہ دارانہ علمیت (سائنس) کو غیرمعقول اور مہمل (incoherent) ثابت کیا جا رہا ہے۔ اور جہاں خداشناس علمیت اور انفرادیت کی پرورش کی جا رہی ہے۔ آج یہ کام نہ گرجے کر رہے ہیں نہ مندر نہ پگوڈے۔ ان تمام مذہبی مراکز کو سرمایہ دارانہ معاشرت اور سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں ضم کر لیا گیا ہے۔

سرمایہ دارانہ تضادات

سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں  بے شمار تضادات موجود ہیں، ان تضادات کا سمجھنا اسلامی مصلیحین و انقلابیوں کے لیے اس لیے ضروری ہے تاکہ پھر وہ  محلے بازار برادری شہری اور ملکی سطح پر ان تضادات کا شعور فراہم کر کے سرمایہ دارانہ علمی تفوق کو مجروح کرنے اور اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ اقتدار کو کمزور کرنے کے کی جدوجہد کر سکیں –

سرمایہ دارانہ اقتدار کی تنفیذ کا عمل تضادات سے بھرپور ہے۔ یہ تضادات اقتداری نظام کی ہر سطح پر پائے جاتے ہیں۔ ان تضادات کے دائمی وجود کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام فکر اور عمل کی اساسی نامعقولیت ہے۔ سرمایہ داری کا بنیادی کلمہ “لاالٰہ الا انسان” ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کذب بین ہے۔ اس کذب بین کا ناقابل انکار ثبوت یہ ہے کہ ہر انسان مر جاتا ہے اور خود سرمایہ دارانہ علمیت (سائنس) نے ثابت کر دیا ہے کہ کائنات عدم کی طرف رواں دواں ہے۔ پھر پس جدید (پوسٹ ماڈرنسٹ) فکر نے یہ بھی دو اور دو کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ سرمایہ داری کی اساسی قدر (آزادی) مہمل اور نامعقول ہے۔ کوئی فرد بھی آزاد نہیں ہو سکتا ۔ اس کا بدنی نظام مقید ہے (گردشِ خون ویسے ہی جاری رہے گی جیسے فطرتاً متعین کر دیا گیا ہے) انسان کے خیالات اور احساسات اس معاشرتی ماحول سے بڑی حد تک متاثر ہوں گے جس میں وہ بغیر اپنی مرضی کے پیدا ہوا ہے۔ ہائیڈیگر اسے “پھینک دیا” جانا کہتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انفرادی موت تمام احساسات کو یک سر جبراً معطل کر دیتی ہے۔ یہ کیسا خدا ہے جو مر جاتا ہے اور جسے نہ اپنے پیدا ہونے پر اختیار ہے نہ مرنے پر۔

پھر جیسا کہ دریدا اور دلیوز اور لاکاں اور بے شمار فلسفیوں نے ثابت کیا کہ آزادی خلائے محض ہے (سارتر اسے عدم وجود کہتا تھا)۔ آزادی کا مطلب ایک ایسی شے کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس کی انفرادی اور معاشرتی زندگی احساسِ ناکامی سے بھر جاتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ” اور آزادی کا پجاری اپنے نفس پر بھی ظلم اپنے معاشرہ پر بھی اور اپنی نوع پر بھی ظلم کرتا ہے۔

سرمایہ دارانہ انفرادیت کے بنیادی غالب احساسات حرص  (acquisitiveness)  اور حسد   (competition)  ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ طرز اور نظام زندگی حرص اور حسد کی بنیاد پر ہی کارفرما ہوتی ہیں اور حرث اور حسد کی یہی فعالیت سرمایہ دارانہ تضادات کو مستقلاً فروغ دیتی رہتی ہیں۔ سرمایہ کا ہر پجاری سرمایہ کے ہر دوسرے پجاری کو اپنا دشمن گردانتا ہے۔ اسی لیے سارتر نے کہا تھا  “Hell is other people”  جہنم ہر دوسرے فرد کے وجود میں پائی جاتی ہے۔ سرمایہ کا پجاری غیر کو اپنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔

سرمایہ کے پجاریوں کی اس پیہم جاری وحشیاتی کش مکش سے ہی سرمایہ دارانہ نظاماتی تضادات پیدا ہوتے ہیں۔ ہم دورِ حاضر کے ان سرمایہ دارانہ نظاماتی تضادات کا ذکر اگلے باب میں کریں گے۔

اسلامی انقلابی اساسی نظاماتی تصورات کا شعور حاصل کرنے کی کوشش کو مہمیز کر کے محلہ، بازار ، برادری، ضلعی، شہری، وفاقی اور عالمی غالب سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کو کم زور اور مجروح کرنے کی جدوجہد مرتب کرتے ہیں۔ اس جدوجہد کو اقتداری نظام کی ترتیب نو کہا جاتا ہے اور اقتداری ترتیب نو کا یہ عمل انقلابی واقعہ (اسلامی ریاست کے قیام) کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور انقلابی واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کے بعد اسلامی مصلحین بھی اس عمل میں شریک ہو جاتے ہیں۔ انقلابی واقعہ (قیام ریاستِ اسلامی) سے قبل سرمایہ دارانہ مقتدر اداروں میں پائے جانے والے صالح افراد ہے اقتداری ترتیب نو کے اس عمل اسلامی انقلاب تعاون حاصل کر سکتے ہیں۔

انقلابی واقع سے قبل اسلامی مصلحین اور اسلامی انقلابی گروہوں کی حکمت عملیاں جدا ہوتی ہیں۔ مصلحین اقتداری ترتیب نو کے عمل سے گریز کرتے ہیں یہ اس کو ضروری (یا ممکن) نہیں سمجھتے۔ جس حد تک مصلحین سرمایہ دارانہ نظاماتی اور اساسی تضادات سے واقف ہوتے ہیں وہ ان تضادات کو اس طرح وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے تناظر میں اسلامی شخصیت سازی اور معاشرتی روایات کو فروغ دینے کی گنجائشیں پیدا کی جا سکے۔ ان کی مجوزہ اصلاحات ہمہ جہت اور ہمہ پہلو نہیں ہوتیں بلکہ وہ جدا جدا انفرادی اور اجتماعی اعمال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات مزاحمتی اور غیرمزاحمتی اصلاحی تحریکوں دونوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ مثلاً نہ دعوت اسلامی اپنی احیائے رسوم اسلامی کی جدوجہد کا سرمایہ دارانہ نظاماتی کارفرمائی پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے، پر توجہ دیتی ہے۔ نہ ردِ قایانیت کی تحریک کے سرمایہ دارانہ اقتداری نظام کو معطل کرنے سے کوئی تعلق تھا۔

مضمون کا پس منظر :

یہ مضمون پاکستان کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر تحریر کیا گیا ہے اس لیے ہمارے پیش نظر یہ باتیں رہنی چاہیں-

  • برصغیر میں 1857 کے جہاد آزادی سے بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک مسلسل عزیمت کے باوجود  پے درپے شکست کے  بعد  تمام تحریکات اسلامیہ نے شعوری حکمت عملی کے تحت دفاعی و اصلاحی  طرز فکر کو اپنا لیا، جو آج بھی ماسوائے جماعت اسلامی کی سیاسی فکر کے، تمام تحریکات کا بنیادی وصف ہے- یہ کامیاب اور بابرکت حکمت عملی ،جہاں پاکستان میں  ترکی اور شرق اوسط کی بیشتر سرمایہ دارانہ معاشرتوں سے بہتر اسلامی معاشرت کی ضمانت بنی، وہیں اب ہمارے مصلیحین و دفاعی تحریکوں کو  اس حکمت عملی کے ساتھ نظاماتی کشمکش سے ہمکنار کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے-
  • پاکستان کی انقلابی جماعت اسلامی میں ایک خاص مزاج پروان چڑھا، جس میں مساعی کا حجم  نظم اقتدار کی تبدیلی پرزیادہ نطر آتا ہے  جبکہ فرد و  معاشرتی اصلاح  کی کوشش اور اسی ضمن میں اس تحریک کا معاشرتی اثر و نفوذ کم سے کم تر ہوتا چلا گیا-
  • انقلابیوں کی اصلاحیوں کی جدوجہد کی لازوال تاریخ عزیمت سے لاعلمی اور اصلاحیوں کی نظم اقتدار  کی کشمکش سے ناواقفیت، دونوں کے درمیان کسی ارتباط کے ناپنپنے  کا باعث ہے-

Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16