پچھلے دنوں جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کے واٹس ایپ گروپس میں جماعت اسلامی کے متعلق غلط تجزیہ پر مبنی ایک مضمون گردش کر رہا تھا- یہ ہی مضمون کسی نے ہمارئے بلاگ پر بھی کمنٹس میں  بھیجا ہے- اس مضمون میں لکھنے والے نے بھیانک غلطیاں کی ہیں جن کا جواب دینا  ضروری ہے- زیر نظر مضمون اس پوسٹ کا جواب ہے- اصل پوسٹ ہمارئے جواب کے آخر میں ملاحظہ کر سکتے ہیں-

ہمارا جواب:

اس مضمون کے دو دعووں کو ہم رد کرتے ہیں –

ایک یہ کہ جماعت اسلامی ایک فرقہ ہے ۔مولانا مودودیؒ فقیہ نہیں متکلم تھے۔آپ کے کوئی جداگانہ عقائد نہ تھے،  آپ کے دوکلیدی اجتہادات ۔اسلام ایک مکمل نظام طرز حیات ہے اور مغرب جاہلیت خالصہ ہے ،کسی راسخ العقیدہ مسلک کی نفی نہیں کرتے اور تمام اسلامی جماعتوں کے لئے قابل قبول بنایا جاسکتے ہیں-  اس ہی وجہ سے ہم تمام راسخ العقیدہ جماعتوں بریلوی،دیوبندی،شیعہ ،سنی ،اہل حدیث سب کو اہل حق سمجھتے ہیں اور جماعت اسلامی تمام  اسلامی جماعتوں و گروہوں کی رابطہ کی جماعت اور ان کی خادم اور ہمنواجماعت ہے ہم ان جماعتوں سے تعلق منقطع کرنے کا تصور  تک نہیں کرسکتے ۔

دوسرا دعوہ یہ ہے کہ اسلام کا سرے سے کوئی معاشرتی تشخص ہی نہیں اور  غلبہ دین کی جدوجہد سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد کے سوا کچھ نہیں۔

صاحب مضمون اس اشتراکی پروپگنڈہ کے وکیل ہیں کہ انسان صرف مادی فوائد کے لئے متحرک (motivate   ) ہوتا ہے لہذا جماعت اسلامی کو ایک (    social democratic agenda) اپنانا چاہئے اور وہ اس سے عوامی مقبولیت حاصل کریگی- لیکن جب جماعت نے اکیلے الیکشن لڑے ۔1970ء 1993 اور 2013 تو اس کا ایجنڈا سوشل ڈیموکریٹ دعووں سے بھرا  ہوا تھا اس سے ہمارا انقلابی تشخص بری طرح مجروح ہوا عوامی تائید تو کیا ملتی خود جماعت کے ذمہ دار کارکن اس ایجنڈہ سے      motivateنہیں ہوئےاور  نہ ہوسکتے ہیں۔

ہم اصلاً ایک مذہبی جماعت ہیں اور ہمارے  70سالہ تجربہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان ایک خالصتاً دہریہ ( secular )ریاست ہے جس کے دستور میں نمائشی اسلامی اصلاحات شامل کردی گئی ہیں جن پر ریاست کے لئے عمل کرنا قطعاً ناممکن ہے لہذا اسلامی انقلابی جدوجہد کا مقصد سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں سے اقتدار منتقل کرکے اسلامی اداروں میں مرتکز کرنا ہے ۔ہم سرمایہ دارانہ نظام میں شرکت کے خواہاں نہیں سرمایہ دارانہ عدل کے فراہمی سے ہمیں کچھ سروکار نہیں۔ہم سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو منہدم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں انہی معنوں میں ہماری جماعت ایک انقلابی اسلامی جماعت ہے ۔ہم   متجددین(modernist   ) نہیں , دور حاضر کے ایک عظیم مجتہد متکلم اسلام کی قائم کردہ جماعت ہیں۔

اس مضمون میں یہ دعوہ بالکل غلط ہے کہ اتحاد نے جماعت کا نقصان پہنچایا ہے ۔ہماری بہترین انتخابی کامیابی اتحادی سیاست کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے 1988ء میں آئی جے آئی کے اتحاد سے1977 میں PNA کے اتحاد سے اور سے بڑھ کر 2002ء میں ایم ایم اے کے مبارک اتحاد سے ۔اس مضمون میں لکھنے والے کی سوچ اس حد تک سیکولر ہوگئی ہے کہ وہ سیکولر ازم کے وجود ہی سے انکار کرتے اور پاکستان کی نیم سیکولر معاشرت اور خالص سیکولر سیاسی نظام کو اسلامی گردانتے ہیں ۔سیکولر ازم کے وجود کو پہچاننے کو صاحب مضمون جرم اور گناہ کہتے ہیں۔

یعنی مصنف  پیپلزپارٹی ،مسلم لیگیوں،تحریک انصاف،اے این پی ،ایم کیوایم سب کو اسلامی جماعتیں گردانتے اور ان کی خواہش ہے کہ انہی سیکولر جماعتوں  کے سوشل ڈیموکریٹ ایجنڈہ کو جماعت اسلامی بھی کلیتاً   اپنائے-  جزواً  ہم نے یہ تجربہ 1970 ,  1993 , 2013، میں کرکے دیکھ لیا اور اس سے رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔

جب ہم اسلامی جماعتوں سے اتحاد کرتے ہیں تو اپنے پروگرام اور اپنی انفرادیت سے انکار نہیں کرتے ہمارا پرچم اتحاد اسلامی کا پرچم ہے ہم ملک کی نمائندہ غیر فرقہ وارانہ مذہبی اسلامی جماعت ہیں ہم تمام راسخ العقیدہ اسلامی جماعتوں کے رابطہ کی جماعت ہیں ہم سب اسلامی جماعتوں کو ان دوکلیدی اجتہادات پرجمع کررہے ہیں “اسلام ایک مکمل نظام حیات اور مغرجاہلیت خالصہ ہے” ہمارا مؤقف ہے ۔

حیات لے کے چلو بینات لے کے چلو

چلو ہر ایک جماعت کو ساتھ کے لے چلو

مصنف نے حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کو کرپشن کا وکیل اعظم اور ایم ایم اے کے قائدین کو” خون چوسر جونک” اور “مردار خور گدھ”لکھا ہے ۔انہوں نے یہاں دشمنان اسلام کے بہتانوں کو دہرایا ہے جو افسوس کی بات ہے- ہمیں  خدا سے ڈرتے ہوئے آخرت میں جواب طلبی کا احساس ہونا چاہیئے ۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارئے دلوں سے علماء کرام ،صوفیاء عظام اور بزرگان دین کے خلاف کدورت اور بدگمانیوں کو نکال دے ۔

ہمارا گمان ہے کہ صاحب مضمون جماعت اسلامی کے ایک کارکن ہیں اور modernism کی اس وباء کا شکار ہیں جو  ہمارئے  بہت سے مخلص نوجوانوں کو بیمار کررہی ہے modernism کی یہ وباء ہمارے نوجوانوں میں اس وجہ سے پھیلی ہے کہ ہمارا نظام تربیت کمزور ہے ۔ہمیں اپنی کمزوری کا احساس ہونا چاہئے ۔اس کا تدارک روایتی دینی حلقوں کی طرز پر تربیت و تزکیہ کا نظام قائم کرنا   ہے-

قابل اعتراض پوسٹ کا متن ذیل میں پیش ہے

جماعت اسلامی کا فکری مغالطہ، مذھبی سیاست اور دین کا کام\” جماعت اسلامی اپنے راستے کی خود بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک سیاسی بیداری کی تحریک بننے کے بجائے زیادہ زور ایک نیا مذہبی فرقہ بننے پر لگا دیا گیا۔۔۔ اپنے پرچم و نشان کو برقرار رکھا جاتا، جہاد کو ریاست کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا، لوگوں کے تقوے، ٹوپیاں، پرنے، کرتے اور داڑھیاں ناپنے کے بجاۓ تعلیم/صحت/روزگار، تھانہ/پٹواری/کورٹ اور پانی/بجلی/گیس کے ایشوز کو فوکس کیا جاتا، اوپن عوامی پلیٹ فارم سے جارحانہ سیاست کی جاتی تو دو تین الیکشن میں شکست کے بعد اتخابی فتح کی منزل یقینآ قریب ہوتی۔۔۔ جب اسلام دستور پاکستان کی اساس ہے اور اقتدار میں آ کر آئین ایمپلیمنٹ کرنے میں کوئی قدغن بھی نہیں تو پھر طویل عرصہ سے مذھبی سیاست کا چورن بیچ کر کیا حاصل کر لیا؟؟؟ داخلی جمہوریت، دیانت اور خدمت بہترین اوصاف سہی مگر 70 سالہ سیاسی ناکامی کے بعد بھی جماعت اسلامی سیاسی تجدد اور ریفارمز پر آمادہ نہیں بلکہ آج بھی وھی محدود، مذھبی، مفاہمتی اور بے ڈھنگی اتحادی سیاست۔۔۔ اللہ کے \”دین\” کے کام کی دعویدار تو سنی تحریک بھی ہے اور اس سے بڑھ کر جے یو آئی ف، جے یو آئی س، قادری، تبلیغی جماعت، ملی مسلم لیگ، وحدت المسلمین، جمعیت اہلحدیث، نورانی گروپ، نیازی گروپ، ثروتی گروپ، جلالی گروپ، رضوی گروپ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ پھر لوگ آپ والے \”دین\” کو ہی کیوں ترجیع دیں؟؟ بہت سے \”دیندار\” تو آپکو مسلمان ہی نہیں سمجھتے بلکہ ایک دوسرے کو بھی نہیں سمجھتے۔۔ ایسے میں عام آدمی میں اتنی اپروچ کہاں ہے کہ تحقیق کرتا پھرے کہ کس کا \”دین\” اوریجنل ہے؟ روزی روٹی کا مارا ہوا فرد آپ کے بجاۓ اس شخص کے پیچھے کیوں نہیں جاۓ گا جو اسے روزی/روٹی، بجلی/پانی اور صحت/تعلیم کی امید دلاتا ہے۔۔۔ اسے روٹی کتنی ملتی ہے، کتنے میں ملتی ہے یا سرے سے ملتی ہی نہیں یہ بعد کا مرحلہ ہے۔۔۔ قبیلہ، برادری، علاقہ، زبان و نسل، مسلک و فرقہ کی بنیاد پر تقسیم اور تعصب اتنا گہرا اور شدید تر ہے کہ مذھبی سیاست کی علمبردار کوئی بھی جماعت اس خلیج کو پاٹ نہیں سکتی۔۔۔ سرمایہ دار مافیا، وڈیرہ ازم و پیری فقیری نے قوم کو الگ سے جھکڑ رکھا ہے۔۔ اگر آج بھی جماعت اسلامی کا ون ٹو ون مقابلہ پی ٹی آئی \\ ن لیگ سے ہوتا جیسے 70/80 کی دہائی میں جماعت سارے ملک میں پپلزپارٹی اور بنگلہ عوامی لیگ کو چیلنج کر رہی تھی۔۔ جس طرح 93 میں قاضی صاحب ن لیگ اور پی پی پی کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے قرار کر تحریک برپا کی تھی۔۔۔۔۔ یا صرف سیٹ ایڈجسٹمنٹ آپشن کے ساتھ اپنے پرچم، نشان اور انفرادیت کو برقرار رکھا جاتا تو بھلے جماعت کو ایک سیٹ بھی نہ ملتی کارکنان و ہمدرد دل و جان سے جماعت کی کمپیئن کر رہے ہوتے مگر جماعت اسلامی اپنے پرچم و نشان سے دستبردار ہو کر ہر حکومت کے دربارئِ خاص اور کرپشن کے \”وکیلِ اعظم\” مولانا فضل الرحمن کو پیاری ہو گئی ہے ۔۔ ماضی میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان اتحادوں اور بائیکاٹ کی سیاست نے پہنچایا اب ایک بار پھر \”ملا مریم الائنس\” کا مطلب خون چوسر جونکوں اور مردار خور گِدھوں کو ہی فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے۔۔۔۔ ……………………………………………….. \”میر\” بھی کیا سادہ ہیں، بیمار ہوۓ جس کے سبب۔۔ اسی عطًار کے \”لونڈے\” سے دوا لیتے ہیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭اصولی سیاسی جماعت۔۔۔ اپنے پرچم، پلیٹ فارم اور نشان سے کبھی دستبردار نہیں ہوتی بلکہ سیٹ ایڈجسمنٹ آپشن کو بھی آخری آپشن کے طور پر بروۓ کار لاتی ہے۔۔ ٭اصولی سیاسی جماعت۔۔۔ (جو مسلمانوں کی جماعت بھی ہو) مسلمانوں کو کھبی مذھبی و سیکولر، دینی و لا دینی کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی حماقت نہیں کرتی۔۔۔ ایک آئینی، اسلامی، دستوری اور جمہوری ملک اور اکثریتی مسلم سماج میں ایسی تقسیم ہی جرم اور گناہ ہے۔۔۔ ٭اصولی سیاسی جماعت۔۔۔ جس کا خمیر ہی فرقہ واریت کی نفی سے اٹھايا گیا ہو وہ کبھی تنگ نظر، فرقہ پرست درباری مولویوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر فرقہ واریت کی توثیق نہیں کرتی اور خود پر بھی فرقہ نمبر 49 کا لیبل نہیں لگواتی۔۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16