سرمایہ دارانہ علمیت کا ایسا فکری غلبہ ہے کہ خود تحریک اسلامی کے اندر سے بھی ، خال خال ہی سہی ، پر سر سید جیسی شخصیت کے متعلق تعریفی باتیں سنائی دینے لگی ہیں ، ایسے میں ہمارے اہل الرائے opinion leaders کا فرض بنتا تھا کہ وہ اپنے قلم سے اس گرد کو صاف کریں اور حقیقت کیا ہے یہ واضح کریں –

اور الحمدللہ ایسا ہی ہوا – اس سلسلے میں زیر ِنظر دو مضامین اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم فکری طور پر توانا اور اپنے نظریات کے دفاع میں مستعد ہیں –

اس سلسلے میں جسارت بروز اتوار بتاریخ 29 اکتوبر 2017 کے ادارتی صفحہ نمبر 4پرمحترم شاہنواز فاروقی کے سر سید سے متعلق مضمون میں تحریر سر سید کے کچھ مرمودات نمونے کے طور پر یہاں پیش خدمت ہیں جن سے بخوبی سر سید کی ذہنی غلامی واضح ہوتی ہے-

 “خدا کی مرضی ہوئی کہ ہندوستان ایک دانشمند قوم کی حکومت میں دیا جائے جس کا طرز حکومت زیادہ تر قانون ِعقلی کا پابند ہو- بےشک اس میں حکمت خدا تعالی کی تھی”

“ہم کو کچھ بھلائی کی توقع ہے تو انگریزوں سے ہے”

 “خدا کا شکر ہے ہم ملکہ معظٌمہ کوئن وکٹوریہ قیصر ہند کے زیر سایہ ہیں”

 “ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے- اس کی اطاعت اور فرماں برداری اور پوری وفاداری اور نمک حلالی، جس کے سایہ و عاطفت میں امن و امان سے زندگی بسر کرتے ہیں ، خدا کی طرف سے ہمارا فرض ہے- میری رائے آج کی نہیں بلکہ پچاس ساٹھ برس سے اسی رائے پر قائم ہوں”

آئیے دیکھتے ہیں جسارت سنڈے میگزین بتاریخ ٢٩ اکتوبر صفحہ نمبر 27 پر “نون الف “سر سید کے متعلق کیا فرماتے ہیں

 “سر سید کے نزدیک “عصری علوم حاصل کریں” کا معاملہ صرف یہ تھا کہ کسی طرح انگریز کو یہ باور کرایا جائے کہ ہر مسلمان ان کا دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ ہے اور اس طرح اس نے اس کام میں عافیت جانی کہ انگریز کا دوست بن کر رہے- اس طرح کا معذرت خواہانہ رویہ کسی مسلمان عالم  یا  سائینس دان نے نہیں اپنایا”

 “میں نے بہت غور کیا تو مجھے سواے کمال اتا ترک کے کوئی فرد ایسا نہیں ملا جس نے اس قسم کی ابتلاءمیں ہونے کے باوجود سر سید جیسی سوچ اپنائی ہو، اور کمال اتا ترک کون سا ریفارمر تھا؟ اسلام دشمنی اور انگریز سے وفا داری کے علاوہ تو (سر سید اور اتا ترک میں  ) کوئی قدر مشترک نہیں دکھائی دیتی”

 “اگر (سر سید کی) انگریزی ادب کا اردو ترجمہ اور اردو ادب کے انگریزی ترجمہ کرنے کی “خدمات عظیمہ” دیکھتا ہوں تو ایک لمحہ کو سوچنا پڑتا ہے کہ یہ ترجمے مسلمانوں کی مجبوری تھے یا نووارد انگریز کی؟ اس لئے کہ نو آبادیاتی نظام میں “غلاموں کی زبان” کا سیکھنا حکمران غاصب طبقے کے لئے ضروری ہوتا ہے”

ہم اپنے ان دونوں لکھنے والوں اور جسارت کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے ایسے وقت میں قارئین کی راہنمائی کا اہتمام کیا جب ہر طرف سر سید کے دو سو سالہ جشن ولادت کی آڑ میں اسلام بیزار سر سید کی جھوٹی سچی تعریفیں کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں اور انھیں حکومت , NGOs اور میڈیا کا تعاون حاصل ہے

امید ہے تحریک اسلامی سے وابستہ افراد تو کم از کم “نام نہاد ترقی پسند دانشوروں “کے اس جال میں نہیں پھنسیں گے جو وہ معاشرے کو سیکولر بنانے کے لئے سر سید جیسی شخصیات کو مثالیہ کے طور پر پیش کر کے بچھاتے ہیں-


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16