مضامین کے اس سلسلہ میں ابھی تک ہم نے حسب ذیل امور پر گفتگو کی ہے:

     ١۔ انتخابات میں حصہ لینے کی ضرورت

     ٢۔غیرسیاسی اسلامی جماعتوں کی انتخابی مہم میں سیاسی اسلامی جماعتوں کی پشت پناہی اور رہنمائی کی ضرورت

     ٣۔انتخاب لڑنے کے مقاصد

     ٤۔تحدہ اسلامی محاذ کا انتخابی منشور

اس مضمون میں ہم دینی جماعتوں کی انتخابی مہم کے وہ خدوخال بیان کریں گے جن کو اپنا کر ہم اپنی بنیادی سیاسی (constituency) (اہل مدارس، مساجد، خانقاہوں اور امام بارگاہوں کے مستقرین، ان کے پیروکاروں اور باجماعت نمازیوں) کو متحرک (Mobilize) اور منظم (Institutionalize)کر سکیں اور عوام میں اسلامی عصبیت کا جذبہ ابھار سکیں۔

ہمارے اندازے کے مطابق ہمیں انتخابی مہم کو چلانے کے لیے ہمیں نو ماہ کا وقفہ حاصل ہے اور انتخابی مہم کی تفاصیل اسی اوقاتی تناظر میں مرتب کی گئی ہیں۔ مہم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انتظامی، مزاحمتی اور اقدامی۔ ان تین مراحل کے اقدامات درج ذیل میں بیان کیے گئے ہیں۔

پہلا مرحلہ- انتظامی

    ١۔ جلد از جلد (جولائی کے وسط تک) اسلامی سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم کر لیا جائے۔

    ٢۔ یہ متحدہ سیاسی اتحاد فی الفور نفاذِ حدودِ شریعت کا مطالبہ کرے اور اعلان کرے کہ ہم انتخابات صرف اسی مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔

    ٣۔اس اعلان کے فوراً بعد غیرسیاسی اسلامی جماعتوں سے رابطہ کی ایک ہمہ گیر مہم چلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ غیرسیاسی اسلامی گروہ، جماعتیں اور افراد متحدہ اسلامی محاذ میں شمولیت حاصل کریں اور جید غیرسیاسی علما اور صوفیہ کو اسلامی محاذ میں قیادت کی ذمہ داریاں سونپی جائیں۔

    ٤۔متحدہ اسلامی انتخابی محاذ محلہ کی مسجد کی سطح پر منظم کیا جائے۔ انتخابی سیل مساجد میں قائم کیے جائیں اور کوشش کی جائے کہ امام مسجد (یا اس کا نمایندہ) اس انتخابی سیل کا سربراہ ہو۔

    ٥۔محلہ، ڈسٹرکٹ، تحصیل، بلدیاتی، صوبائی اور ملکی سطح پر ان انتخابی یونٹس کے اوقاف مرتب کیے جائیں۔

    ٦۔مقامی یونٹس کے دائرہ کار: (١) مقامی سطح پر جھگڑوں کو شریعت کی بنیاد پر نمٹا کر ایک مقامی سطح کا نظام قضا اور افتا کے قیام کی کوشش کرنا اور (٢) نفاذِ شریعت کے لیے عوامی جذباتیت ابھارنے پر مشتمل ہو۔ ہر جمعہ کا خطبہ عیاشی اور فحاشی کے پھیلائو، سودی نظام کے ہمہ گیر نقصانات، اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اور شہید ناموس رسالت غازی ممتاز قادری کے قتل، جہاد کشمیر اور افغانستان سے حکومت کی غداری اور استعمار کی حمایت، فرقہ وارانہ خطبات سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ بہتر ہے کہ خطبات جمعہ مرکزی طور پر تیار کیے جائیں اور ہر جمعہ کو ہر مسجد کے یونٹس سے ایک ہی خطبہ دیا جائے۔

دوسرا مرحلہ- مزاحمتی

یہ مرحلہ ٢٠١٨ء کی ابتدا سے شروع ہو جانا چاہیے۔ اس کا مرکزی عمل مزاحمتی جلسوں، دھرنوں اور مظاہروں کا ملک گیر سطح پر وقوع ہے جو ”جیل بھرو” تحریک کا حصہ ہوں۔ ان میں ہمارے مطالبات: (١) مساجد اور مدارس پر تمام ریاستی اور قانونی پابندیوں کا خاتمہ، (٢) علما اور طلبہ کے خلاف تمام مقدمات کا اخراج اور واپسی، (٣) سودی کاروبار کی فی الفور معطلی، (٤) ٹی وی چینلوں اور انگریزی اخبارات پر مکمل پابندی، (٥) بھارت، افغانستان اور امریکا سے سفارتی تعلقات کی فی الفور معطلی اور (٦) حدود آرڈی نینس میں مشرف دور میں کی گئی ترمیمات کی فی الفومنسوخیہوں۔

تمام مظاہرے، دھرنے سرکاری ادارہ سے اجازت لیے بغیر کیے جائیں اور ہر مظاہرہ اور دھرنا اوپر دیے ہوئے کسی ایک مطالبہ سے متعلق اور اس کا جائے وقوع مطالبہ کی مناسبت سے کیا جائے۔ مثلاً ٹی وی چینلوں اور انگریزی اخبارات سے متعلق دھرنا ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے دفاتر کے سامنے ہوں۔ سودی نظام کی معطلی کا دھرنا آئی آئی چندریگر روڈ اور اسٹیٹ بینک کے مرکزی دفتر کے سامنے ہو۔ مدارس پر پابندیوں کے خاتمے کا دھرنا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے مراکز کے سامنے۔ علما اور طلبہ پر مظالم کے خاتمہ سے متعلق مظاہرہ پولیس ہیڈ کوارٹر اور رینجرز کے دفاتر کے سامنے ہو۔

یہ مظاہرہ جنوری سے تسلسل کے سااتھ انتخابات کے انعقاد سے تین دن پہلے تک جاری رہیں۔ انتخابات سے تین دن قبل کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں عظیم الشان شوکت اسلام ریلیاں نکالی جائیں جن میں اس بات کو صریحاً کہا جائے کہ تمام سیکولر جماعتیں اسلام دشمن اور استعمار کی ایجنٹ ہیں اور متحدہ اسلامی محاذ کے جید ترین علما اور پیر متفقہ فیصلہ جاری کریں کہ کسی بھی سیکولر جماعت کو ووٹ دینا شرعاً جائز نہیں۔

ان مظاہروں اور دھرنوں کا مقصد انتخابات کے زمانہ میں اسلامی جذباتیت کی ایک ایسی لہر اٹھانا ہے جو اسلامی عصبیت دیگر تمام جذباتیت پر کم از کم اہل دین کے طبقہ میں غالب کر دے۔ عوام بھی اسلامی جذباتیت کی اس لہر سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے اور ہمارے انتخابی نتائج روایتی انتخابی مہم چلانے سے بہت بہتر ہوں گے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک مزاحمتی انتخاباتی مہم چلا کر اہم اہل دین کو متحرک اور منظم کرنے کی طرف پہلا ملک گیر قدم اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔

لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ کوئی بھی اسلامی جماعت انفرادی طور پر اس نوعیت کی انتخابی مہم کی سکت اور اہلیت نہیں رکھتی۔ اہل دین کو مقامی سطح پر متحرک اور منظم کرنے کی بنیادی شرط بین المسالک اسلامی اتحاد ہے۔ ایک ایسا اتحاد جس میں سیاسی اور غیرسیاسی اسلامی جماعتیں سب اپنا حصہ ڈالیں اور کوئی بھی اسلامی گروہ انتخابی عمل میں تماشائی کا کردار نہ اختیار کرے۔ اگر اتحاد قائم نہیں ہو سکتا تو ہر اسلامی جماعت ایک دفاعی انتخابی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس کا ایجنڈا لبرل، قوم پرستانہ اور سوشل ڈیموکریٹ آدرشوں سے بھرا ہوا ہو گا۔ وہ electable کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہو گی۔ وہ دہریہ (سیکولر) جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور تعاون کرے گی۔ اس صورت میں بھی اہل دین کے لیے مناسب نہیں کہ وہ انتخابی عمل سے لاتعلق رہیں کیوں کہ یہ لاتعلقی سیکولر اقتدار کو مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ دفاعی حکمت عملی اپنا کر بھی اسلامی سیاسی جماعتیں دینی اداروں کے تحفظ اور شعائر اسلامی کے استحکام کا کام کرتی ہیں یہ بات جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں سب سے زیادہ تیقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کے پارلیمانی عمل کا محور اور مرکز مدارس اور مساجد کو حکومتی اور استعماری دست برد سے محفوظ رکھنا ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں انتخابی عمل میٰں اسلامی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنی چاہیے خواہ وہ متحد ہوں یا نہ ہوں۔ خواہ وہ اقدامی انتخابی حکمت عملی اختیار کریں یا نہ کریں۔

تیسرا مرحلہ- انتظامی

یہ مزاحمتی مرحلہ سے اوقاتی اعتبار سے متصل ہے یعنی اس کا دورانیہ بھی جنوری ٢٠١٨ء ہے لیکن انتخابات کے وقوع تک کا ہے۔ ہماری دوسری سطح کی قیادت پر مشتمل انتخابی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جن کے ارکان منظر پر آنے سے گریز کریں اور مظاہروں اور احتجاجوں وغیرہ میں شرکت نہیں کریں گے۔ اقدامی انتخابی حکمت عملی کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں ہماری صف اول کی قیادت طویل عرصہ کے لیے قید کر لی جائے گی اور یہ عین ممکن ہے کہ ہمارے بیش تر زعما جیل ہی سے انتخابات لڑیں لہٰذا صف اول کی قیادت پر انتظامی ذمہ داریاں نہیں ڈالی جا سکتیں۔ انتظامی ذمہ داریوں کا دائرہ کار حسب ذیل ہو گا:

    ١۔ بین المسالک مساجد میں قائم انتخابی سیل کی نگرانی

    ٢۔ بلاشرکت انتخابی مہمات کی تشکیل اور تنظیم

    ٣ ۔ انتخابی منشور کا اجرا اور عوامی سطح پر اس کی تشہیر و تقسیم

    ٤۔ رابطہ عوام مہمات کی تنظیم

    ٥۔ انتخابی کارکنوں کی ذہنی تربیت اور کردار سازی

    ٦۔ اتحاد میں شریک سیاسی اور غیرسیاسی جماعتوں میں اشتراک عمل کو فروغ دینے کے لیے منصوبہ بندی اور اس کی تنفیذ

    ٧۔ انتخابی مالیاتی نصاب کی تحویل اور خرچ اور یہ یقینی بنانا کہ کسی حرام ذریعے سے رقوم حاصل نہ کی جارہی ہیں نہ خرچ کی جا رہی ہیں۔ انتخابی بیت المال کی ذمہ داری غیرسیاسی اسلامی جماعتوں (بالخصوص تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی) کے سپرد کی جائے گی۔

    ٨۔ عوامی رائے اور مزاحمتی عمل کے نتیجہ میں اس میں تبدیلی کا گاہے بگاہے تجزیہ۔

    ٩۔ صف اول اور کارکنوں سے مشاورت کی بنیاد پر ان حلقوں کی نشان دہی جہاں ہمارے جیتنے کے امکانات پچاس فی صد سے زیادہ ہوں۔

    ١٠۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ کسی سیکولر جماعت سے کسی درجہ کا اشتراک عمل  (seat adjustment)نہ ہو اور کسی امیدوار کی اس بنیاد پر مخالفت نہ کی جائے کہ (electable) یا موروثی صاحب اقتدار ہے۔

    ١١۔ امیدوااران کی تیاری جو لازماً:

            کسی نہ کسی سیاسی یا غیرسیاسی جماعت سے کم از کم پچھلے پانچ سال سے منسلک رہے ہوں

            ترجیحاً عالم دین، راسخ العقیدہ پیر یا مسجد کے امام ہوں۔

            صادق اور امین ہوں۔

            کسی ایسے حلقہ سے متعلق ہوں جہاں ہمارے جیتنے کے امکانات پچاس فی صد سے زیادہ ہوں۔

    ١٢۔ پولنگ ایجنٹس کی تقرری اور پولنگ ڈے کے انتظامات۔

ہم برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انقلابی بنیادوں پر انتخابات لڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ابھی ہماری انتظامی استعداد اور ہمارے وسائل بہت محدود ہیں لہٰذا اس حکمت عملی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ:

    ١۔ فعال انتخابی انتظامی یونٹ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

    ٢۔ ہمارے جیتنے کے امکانات پچاس فی صد سے زیادہ ہوں۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ انقلابی عمل کا مقصد حکومت میں شمولیت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے علی الرغم عوامی سطح پر ایک اسلامی نظام اقتدار کا قیام ہے لہٰذا ہماری انتخابی مہم اسی عوامی اقتداری صف بندی کی بنیادی فراہم کرے گی۔ انتخابی عمل کی ابتدا میں جو بین المسالک مساجد یونٹ قائم کیے گئے ہیں وہ انتخابات کے بعد تحلیل نہیں کیے جائیں گے اور ہماری منتخب پارلیمانی قیادت کی یہ اولین ذمہ داری ہو گی کہ وہ اس نئے اسلامی اقتداری نظام کو قانونی تحفظ فراہم کریں اور اس کے دائرہ کار کی مستقل جاری توسیعی مہمات کی پشت پناہی کریں۔ یوں ہم انتخابات کو سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کو مسخر کرنے کی طرف ایک قدم اٹھائیں گے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16