• اوائل دسمبر 2017ء میں ہم نے حرمت القدس کی دفاع میں کراچی میں ایک بہت بڑا عوامی مظاہرہ کیا۔
  • کیا یہ مظاہرہ کامیاب تھا؟
  • اس سوال کا جواب دینے کے لئے پہلے سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں عوامی شرکت کے حدود اربعہ  کا تعین کرنا ضروری ہے ۔
  • سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کا بنیادی جواز عمومی خواہشات نفسانی کی تسکین فراہم کرتی ہے
  • سرمایہ دارانہ اقتدار میں عوام حکومت نہیں کرتے لیکن وہ حکمران طبقوں کی ریاستی اور معاشرتی تغلب کا جواز جمہوری عمل کے ذریعہ فراہم کرتے رہتے ہیں۔
  • اگر سرمایہ دارانہ مقتدرہ عوامی خواہشات کو پورا کرنے میں ناکام دکھائی دیں تو عوام ان کے خلاف بغاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
  • عموماً یہ عوامی بغاوت جمہوری ہوتی ہے جیسے Seattle , Occupy  Wall street  کے 2000   اور 2001ء  میں جاری رہنے والی اور کئی لاطینی امریکی ممالک کی بغاوتیں عرب بہار،یوکرین کی بغاوتیں۔اور ان بغاوتوں میں عوامی مظاہرہ ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • ان جمہوری بغاوتوں کی کامیابی ایک سرمایہ دارانہ مقتدرہ کا دوسرے سرمایہ دارانہ مقتدرہ کی تبدیلی میں ظاہر ہوتا ہے ،ان جمہوری عوامی بغاوتوں کے ذریعہ سرمایہ دارانہ اقتدار نئے سرے سے مرتب ( reconstitute) ہوتا ہے مسخر نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری بغاوتیں سرمایہ دارانہ حقوق (     human rights  ) کے لئے کی جاتی ہیں۔
  • لیکن عوامی بغاوتوں کا جمہوری ہونا ضروری نہیں غیر جمہوری عوامی بغاوتوں کی سب سے اہم مثال وہ عوامی بغاوتیں ہیں جو 1975ء کے بعد ایران میں وقوع پزیر ہوئیں اور جن کے نتیجہ میں ایران میں اسلامی انقلاب رونما ہوا ۔
  • غیر جمہوری عوامی بغاوتوں کا پیش خیمہ ایسے عوامی مظاہرے فراہم کرسکتے ہیں جن کا مقصد سرمایہ دارانہ حقوق (human rights )کی فراہمی نہ ہو بلکہ حصول رضائے الٰہی ہو۔
  • 1973،74ء کی تحریک ختم نبوت ،لبیک یارسول اللہﷺکا نومبر کا دھرنا اور ہمارا ناموس القدس کا دسمبر 2017ء والا کراچی کا مظاہرہ سب میں یہ استعداد(potential ) تھی کہ وہ غیر سرمایہ دارانہ عوامی بغاوت کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔
  • غیر سرمایہ دارانہ عوامی مظاہروں /بغاوت کا مقصد سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی یا سرمایہ دارانہ اقتدار کی ترتیب نو ( reconstitution       ) نہیں ہوتا ،غیر سرمایہ دارانہ عوامی بغاوتیں کسی خاص سرمایہ دارانہ مقتدرہ گروہ کو نہیں بلکہ پورے کے پورے سرمایہ دارنہ نظام اقتدار کا انہدام (     transcendence) ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں غیر سرمایہ دارانہ عوامی بغاوت کا مقصدغلبہ دین اسلام ہوتا ہے ۔
  • جماعت اسلامی ایک انقلابی اسلامی جماعت ہے اس کے لئے یہ سوال نہایت اہم ہونا چاہئے کہ عوامی مظاہروں /بغاوتوں کو سرمایہ دارانہ اقتدار کی ترتیب نو کا ذریعہ نہیں بلکہ  غلبہ دین کا ذریعہ کیسے بنایا جاسکتا ہے
  • عوامی مظاہروں کا غلبہ دین کا ذریعہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ
  • عوام کی ایک بڑی تعداد ان ( issues ) کو جن پر مظاہرہ مرکوز  ہے، اتنا اہم  سمجھیں کہ وہ ان  کے لئےبڑے پیمانے پر جانی اور مالی قربانی دینے پر آمادہ ہوں۔
  • یہ مظاہرہ اسلامی جذباتیت کو اس طرح فروغ دے کہ ملک میں ہر منظم اسلامی گروہ اس میں شرکت پر بتدریج مجبور ہوتا چلا جائے ۔
  • مظاہرہ کا تشخص خالصتاً دینی امرہی ہو سرمایہ دارانہ حقوق(human rights ) کے حصول کی کاوشوں سے اس کا کسی نوعیت کا تعلق نہ ہو
  • مظاہرہ محض ایک واقعہ (event   )نہ ہو بلکہ ایک جاری انقلابی عمل (process revolutionary     ) کا حصہ ہو
  • اس انقلابی عمل کے دوران مظاہرہ کے شرکاء کو منظم  کرنے    (institutionalize)  کرنے کی  تزویراتی حکمت عملی   (strategic planning) اس طرح بروئے کار لائی جائے کہ ریاستی اقتدار سرمایہ دارانہ مقتدرین کے ہاتھوں سے اسلامی انقلابی عوامی اقتداری اداروں کی طرف منتقل ہو۔
  • ان مظاہروں کا اختتام محض حکومت سے کیے جانے والے مطالبات پر نہ ہو بلکہ ایک ایسے نظام العمل ( action plan  ) کے اعلان پر ہے جس کو بروئے کار لاکر مظاہرہ کی منتظمین جماعتیں مظاہرہ کے اہداف کے حصول کے لئے عوامی جدوجہد کو آگے بڑھائینگی ،یہ نظام العمل لازماً (     time bound ) ہو
  • اس تناظر میں ناموس القدس کے مظاہرہ کا تجزیہ کیا جائے تواس کے انقلابی جدوجہد کو مہمیز دینے کی استعداد( potential ) کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
  • اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ پاکستانی عوام اور ان میں پائے جانے والے مخلصین دین کے گروہ ناموس القدس کے تحفظ کے لیے زبانی کلامی کے احتجاج سے بڑھ کر بڑے پیمانے پر جانی اور مالی قربانی دینے پر آمادہ ہیں- اسلامی گروہوں کی عملی لاتعلقی کا اظہار مدارس کی نسبتا محدود شرکت سے واضح ہے ۔
  • مظاہرہ کا انتظام کلیتاً جماعت اسلامی نے کیا دیگر اسلامی جماعتوں کی شرکت علامتی تقریروں کی حد تک تھی بحیثیت ایک انقلابی جماعت، جماعت اسلامی لازماً تمام پاکستانی تحریکات اسلامی کی رابطہ کی جماعت ہے  اس کی ہر عوامی پیش رفت   کو لازماً دیگر جماعتوں سے انتظامی اشتراک عمل کا مظہر ہونا چاہئے ۔

حیات لے کے چلو کائنات  لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

  • اس مظاہرہ کے شرکاء کا تشخص خالصتاً دینی مذہبی تھا اور مدت بعد جماعت اسلامی  نےایک ایسے اسلامی عوامی تحریک کو مہمیز دی ہے جس کا سرمایہ دارانہ حقوق (     human rights) کے حصول کی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک نہایت اہم اور حوصلہ  پیش رفت ہے
  • لیکن مظاہرہ محض ایک واقعہ تھا کسی جاری انقلابی عمل (revolutionary process   ) سے اس کو مربوط کرنے کی           کوئی کوشش نہ کی گئی
  • مظاہرہ کے شرکاء کو مقامی ادارتی اسلامی انقلابی صف بندی کے ذریعہ منظم کرنے کا کوئی تصور مظاہرہ کی منتظم قیادت کے پاس نہ تھا ۔
  • مظاہرہ کا اختتام محض حکومت اور بین الاقوامی اداروں سے کئے جانے والے مطالبوں پر ہو ایسے مطالبات جن کے مانے جانے کے امکانات صفر ہیں۔
  • مظاہرہ کا اختتام کسی لائحہ عمل (    plan of action) پر نہ ہوا – ایک ایسا ( action plan   ) جو مظاہرہ کی جدوجہد کو منظم کرکے اس کے اہداف کے حصول کو ممکن بنا دے ۔
  • مثلاً مظاہرہ کے اہداف کے حصول کا ایک ذریعہ امریکی اشیاء اور امریکی کمپنیوں سے اشتراک عمل کا بائیکاٹ ہوسکتا ہے اور اس بائیکاٹ میں US AID اور دیگر امریکی امدادی ایجنسیوں سے پیسہ لینے والے پاکستانی اداروں کو بھی target کیا جاسکتا ہے لیکن اس نوعیت کی مہم بھی کامیاب اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ ہم
  • دیگر بڑی اسلامی جماعتوں کو اس کے تنفیذی  عمل پر (محض زبانی   support سے بڑھ کر)  آمادہ کرسکتے ہوں
  • ان جماعتوں سے تعاون کے ذریعہ پاکستان کے چند بڑے شہروں کے متعدد بازاروں اور محلوں میں ایسی فعال عوامی بائیکاٹ کمیٹیاں تشکیل دے سکیں جو صارفین ،تاجروں اور بینکوں کو امریکی کمپنیوں سے لین دین کرنے سے روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
  • بزنس گروپس (business groups) کو اس پر آمددہ کر سکیں تو وہ سی پیک کے ذریعہ امریکی کمپنیوں کو SECP کےذریعہ         امریکی کمپنیوں کو اسٹاک ایکسچینج سے             Delistکروانے کی جدوجہد کا اتحاد کرسکیں ۔
  • مزدور تنظیموں کو اس پرآمادہ کرسکیں کہ ان کمپنیوں میں ہڑتال کریں جو امریکی کاروبار یوں سے لین دین کررہی ہیں بلخصوص کپڑے اور    پارچہ جات (    textile and apparel  )  کے شعبے میں-
  • طالب علموں اور ماہرین کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ امریکی امداد یافتہ تعلیمی ،سماجی اور تکنیکی اداروں کو امریکی امداد لینے سے روکیں۔

اگر یہ ہم نہیں کرسکتے تو ایسی بائیکاٹ  مہم قطعاً لاحاصل ثابت ہوگی اور استعمار مخالف مظاہرہ محض علاماتی نوعیت کے ہو جائیں گے جن سے نہ حکومتی پالیسی متاثر ہوگی نہ بین الاقوامی پالیسی ،ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی کی افرادی ،انتظامی اور مالی وسائل نہایت محدود ہیں لہذا مظاہرہ پر وقت ،پیسہ اور افرادی قوت صرف کرنے سے پہلے ہمیں مندرجہ ذیل امور پر غور کرنا چاہئے ۔

  • کیا اس مظاہرہ میں دیگر بڑی اسلامی جماعتوں کو انتظامی اشتراک پر راضی کیا جاسکتا ہے ؟
  • کیا مظاہرہ کے پیدا کردہ عوامی تحرک (mobilize)کو ایسی ادارتی صف بندی میں سمویا جاسکتا ہے جو انقلابی عمل (revolutionary process   )کے ذریعہ سرمایہ دارانہ ریاستی مفادات کو نقصان پہنچا کر سرمایہ دارانہ اقتدار کو منتشر (transcendence  )کیا جاسکتا ہے ۔
  • مظاہرہ اور اس سے جاری کردہ عوامی ادارتی صف بندی کے عمل پر ہمارے کتنے وسائل صرف ہونگے اور ہماری موجودہ تزویراتی حکمت عملی میں اس صرف کی کیا ترجیح ہے اور ہونا چاہئے ۔

Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16