جماعت اسلامی ایک انقلابی اسلامی جماعت ہے ، اس حوالے سے یہ تمام اسلامی گروہوں کی رابطہ کی جماعت ہے، لہذا جماعت اسلامی کی  ملک میں جاری کسی بھی اسلامی تحرک  Islamic mobilization) )پر گہری نگاہ ہونی  چاہیئے- اس مضمون میں ہم  اسلامی گرہوں کی حالیہ احتجاجی تحرک پر تجزیہ سے یہ واضح کریں گے کہ بحیثیت اسلامی انقلابی جماعت کے ہمارے لیے کسی بھی اسلامی احتجاج کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہو؟

کسی کی نیت پر شبہ کرنے کا کوئی جواز نہیں لیکن کسی بھی احتجاج یا تحریک ان کے اقدام کی افادیت پر گفتگو کرتے وقت چند بنیادی اصولی باتوں پر توجہ دینی چاہیے ۔

  • جماعت اسلامی ایک انقلابی اسلامی جماعت ہے جس کا مقصد اقتدار اسلامی کا قیام ہے ۔
  • لہذا جماعت کے لئے بنیادی سوال یہ ہے کہ کس نوعیت کی جدوجہد اسلامی اقتدار کو فروغ دے سکتی ہے ؟
  • اسلامی اقتدار کا فروغ دور حاضر میں لازماً سرمایہ دارانہ اقتدار کی تسخیر کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
  • لہذا بحیثیت ایک انقلابی اسلامی جماعت ،جماعت اسلامی کو اپنے ہر عمل کو جس کسوٹی پر جانچنا چاہیے وہ  یہ ہے ۔
    • کیا اس عمل کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ اقتدار کمزور اور متزلزل ہوتا ہے ؟
    • یہی وہ چیز ہے جو جماعت اسلامی کو تحریکات اسلامی کی رابطہ کی جماعت بناتی ہے اور اس کو اس کی اجتماعی شخصیت فراہم کرتی ہے ۔
  • مثلا ً ڈاکٹر جلالی  صاحب ، حمید الدین سیالوی صاحب  علامہ مولانا خادم حسین صاحب کے حالیہ اسلامی   تحرک Islamic activism )  کو اس کسوٹی پر پرکھنے سے پہلے ہم یہ سوال اٹھائیں گے ۔
  • سرمایہ دارانہ اقتدار کو متزلزل کرنے کے لئے کس نوعیت کے اقدام کا رگر ثابت ہوسکتے ہیں۔
  • ہماری رائے میں سرمایہ دارانہ اقتدار کو متزلزل کرنے کے لئے ایک موثر طریقہ سرمایہ دارانہ جمہوری عمل میں شرکت ہے ۔
  • کیونکہ سرمایہ دارانہ عمل مواقع فراہم کرتا ہے کہ عوام کو مخلصین دین کی قیادت اقتدار اسلامی کے قیام کے لئے متحد اور منظم کیا جائے
  • سرمایہ دارانہ سیاسی جدو جہد میں مخلصین دین تحریکوں  کے کارکن سرمایہ دارانہ قانونی تحکیم(rule of law  ) کو بتدریج معطل کرکے عوامی سطح پر نفاذ شریعت کوممکن اور آسان بنا سکیں۔
  • ان مقاصد کو پیش نظر رکھے بغیرتفویض کردہ اسلامی انتخابی حکمت عملی نہایت مضر ثابت ہوسکتی ہے۔
  • غیر انقلابی اسلامی انتخابی حکمت عملی سرمایہ دارانہ اقتدار کو مستحکم کرتی ہے ,متزلزل نہیں کرتی ۔
  • اگر انتخابات عوام کے خواہشات نفسانی کے اظہار اور تکمیل کا ذریعہ ہوں تو اس سے سرمایہ دارانہ عدل فروغ پاتا ہے  اور سرمایہ دارانہ اقتدار مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے ۔
  • غیر انقلابی انتخابی حکمت عملی کے نتیجہ میں ( electables ) ہی منتخب ہوتے ہیں ۔electables    اس اشرافیہ کے نمائندہ ہوتے ہیں جو سرمایہ دارانہ اقتدار کی بنیادی ( stakeholders  ) ہے electables   عموماً سرمایہ دارانہ عقلیت (  capitalist rationality) سے مغلوب نہایت سفاک ،خود غرض ،حریص اور حاسد لوگ ہوتے ہیں ۔
  • عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے اخراج کا یہ ( electables ) تصور تک ہی کرسکتے ہیں بلکہ انہی کے ذریعہ ملک سرمایہ دارانہ سٹہ اور سودی بازاروں میں مغلوب ہوجاتا ہے اور انہی کے ذریعہ ملک عالمی دہشت گردی (امریکی    war on terror)کا آلہ کار بنتا چلا جاتا ہے ۔
  • لہذا کامیاب انتخابی حکمت عملی وہ ہے جس کے نتیجہ میں قوت سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں سے منتقل ہوکر اسلامی عوامی اقتداری اداروں میں مستقل منتقل ہوتی رہے۔اور ہمارے پارلیمانی کارکن اس تسلسل انتقال اقتدار کو قانونی تحفظ کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔
  • لہذا اسلامی انقلابی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لئے عوامی اقتداری ادارتی صفبندی لازمی ہے ۔
  • اسلامی عوامی اقتداری صفبندی ایک ایسا عمل ہےجو مستقل جاری رہنے کا متقاضی ہے ،انتخابی عمل میں انقلابی شرکت اس مستقل عمل کو جاری رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
  • اس ادارتی صفبندی کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ “انہدام اقتدارسرمایہ داری” کا عمل انتخابی مہمات تک محدود نہ رہے ۔
  • بحیثیت ایک اسلامی انقلابی جماعت ،جماعت اسلامی کا فرض ہے کہ سرمایہ دارانہ اقتدار کو منہدم کرنے کی جدوجہد کو مسلسل متحرک اور منظم کرے ۔
  • اس مستقل انتقال اقتدار کو جاری رکھنے میں مظاہرہ اور احتجاج ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،بشرطیکہ ان کا مقصد سرمایہ دارانہ اقتدار کی تسخیر ہو۔
  • لہذا کامیاب مزاحمت وہ ہے جس کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت منفی طور پر متاثر ہو اس کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
  • ( Ecuador) میں( world bank ) نے اسپتالوں کی  نجکاری کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالا۔اس کی ناکامی کا سبب ڈاکٹروں کی وہ طویل المدت ہڑتالیں تھیں جس سے صحت عامہ کا نظام مفلوج ہوگیا (لیکن ان ہڑتالوں کے دور میں میں ڈاکٹر             ایمرجنسی سروس فراہم کرتے رہے)
  • چلی chili))میں طالب علموں کی طویل المدت (نومہینے) تک جاری رہنے والی ہڑتال کے ذریعہ جامعات کو نجکاری کے عمل سے محفوظ رکھا گیا
  • میکسیکو (mexico  ) میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کو اس طرح ناکام بنایا گیا کہ 18000مقامی                             تنصیبات   میں سراخ کرکے  عوام کو مفت تیل فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا
  • بولیویا( Bolivia) میں قدیم باشندوں نے مواصلات اور آمدورفت کے نظام کو معطل کر کے بین الاقوامی کمپنیوں (   multinational corporations) کے اپنے علاقہ میں          کانکنی اورتعمیراتی منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ۔
  • چلی،بولویا،میکسیکو میں انہی جماعتوں کو کامیابی ملی جنہوں نے یہ کامیاب احتجاج منظم کئے تھے ۔

o ان کامیاب احتجاجی مہمات کے نتیجہ میں عوامی انقلابی ادارتی صفبندی منظم ہوئی جس کی سب سے اہم مثال وینزوویلا  ( Venezuela  ) ہے جہاں پورے ملک میں ایسی عوامی کمیونٹی تنظیموں کا جال بچھا دیا گیا ہے جس نے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو عملاً معطل کردیا ہے اور وینزوویلا  کے خلاف امریکی ثقافتی اور سیاسی سازشیں  ناکام  ہورہی ہیں

  • Erica chenoweth نے اپنی کتاب (   Why civil resistance works) میں ثابت کیا ہےملک کی آبادی کی صرف ½3 فیصد سرمایہ دارانہ اقتدا ر کو متزلزل اور مسمار کرکے منظم اور متحرک کرلئے جائیں تو انقلابی کامیا ب ہوسکتے ہیں۔
  • پاکستان کی آبادی 208ملین ہے لہذا اگر ہم اس کے 3.5فیصد (یعنی72 لاکھ افراد کو انقلابی اسلامی بنیادوں پر منظم اور متحرک کرسکے تو سرمایہ دارانہ اقتدار کو متزلزل کرسکتے ہیں ،یاد رہے کہ ملک میں مخلصین دین (یعنی وہ لوگ جو پنج وقتہ نمازی ہیں)  آبادی کا تقریباً 14فیصد ہیں (تقریباً 3کروڑ)  تحریکات اسلامی کے لئے چیلنج یہ ہے کہ ہم مخلصین دین میں سے ایک چوتھائی افراد کو انقلابی اقتداری اداروں میں متحد اور منظم کردیں،یہ کام مستقل جاری رہنے والی اسلامی انقلابی جدوجہد کو جاری رکھنے سے ہوسکتا ہے اور انتخابات ،اس راہ پر جس پر ہم گامزن ہیں ،محض ایک سنگ میل ہے ۔
  • انقلابی احتجاجی مہمات کو مستقل طورپر جاری رکھنے کے لئے ہمیں اپنے اہداف ایک تزویراتی حکمت عملی کے تحت متعین کرنا ہوں گے مثلا فرض کیجئے ہم ابتداً تین سرمایہ دارانہ اداروں کو ہدف بنائیں ۔

نج کاری : 

  • نج کاری کے ذریعہ قائم ہونے والی کمپنیاں
  • لوکل حکومت کا محصولیاتی نظام
  • سود اور سٹہ کے بازار
  • نج کاری کے خلاف مہمات
  • مزدور یونینوں کی تنظیم سازی اور نج کاری کے خلاف مزاحمتی جدوجہد
  • نج کاری کے عمل سے قائم ہونے والی کمپنیوں (مثلاً K-Electricکی  تنصیبات اور نظام ترسیلات کی معطلی اور منصوبہ بندی)
  • نج کاری کمپنیوں کی وسولیابیوں کی مزاحمت اور ان کی اشیا اور خدمات کی متبادل عوامی فراہمی

لوکل حکومت: 

  • لوکل حکومت کے نافذ کردہ محصولات کے خلاف tax boycott
  • لوکل حکومت کے کارکنوں کا احتساب ،گھر اور لوکل حکومت کے   ​​corruption کی تشہیر
  • لوکل حکومتوں کے ​​دائرہ اختیار کی تجدید اور مساجد اور مدارس کو لوکل حکومت کے متبادل انتظامی مراکز کے طور پر قائم اور مستحکم کرنا

سود اور سٹہ کے بازار: 

  • بینکوں  اسلامی بینکوں NBFCاورNSSکی اسکیموں سے اپنی بچتوں کا اخراج
  • credit cards اور بینکوں وغیرہ سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگیوں سے مکمل انکار
  • حصص اور تمسکات کے بازار میں بحران کی حوصلہ افزائی
  • ایک متبادل اسلامی تمویلی نظام کا قیام جہاں مخلصین دین کی ​​بچتیں ان کے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے کھپائی کی جاسکیں ۔
  • اس نوعیت کی تمام مہمات مزاحمتی ہیں اور ان کی تنفیظ اور تنظیم میں ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ یہ اس ہی حد تک ہو جو تحریکات اسلامی​​ نبھا سکیں۔اس چیز کو ممکن بنانے کے لئے د و باتیں لازمی ہیں۔
  • ایک یہ کہ ہم انہدام سرمایہ داری کے اقدام کے لئے قانون کا تحفظ حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کریں
  • دوسرا یہ کہ سرمایہ دارانہ اقتداری نظام کے تضادات سے فائدہ اٹھانا ​اور سرمایہ دارانہ مقتدرہ کی  آپس کی مستقل جاری رہنے والی کشمکش سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت پیدا کریں ۔
  • یاد رکھیں انقلابی مہمات مستقل جاری رہتی ہیں (پہلو بدل بدل کے) احتجاج اور مظاہرہ لازماً وقتی ہوتے ہیں لہذا مظاہروں ،احتجاجوں کی کامیابی کا معیار ہے کہ وہ مستقل جاری رہنے والی انقلابی مہمات کو جاری رکھنے میں کتنے کامیا ب ہوتے ہیں۔
  • اس تناظر میں ہم اگر اپنے بریلوی بھائیوں کے حالیہ احتجاجوں کو پرکھیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں ۔
  • حضرت مولانا خادم حسین کا احتجاج ان معنوں میں کامیاب تھا کہ اس نے اسلامی جذباتیت کی بنیاد پر مخلصین دین کے ایک بڑے عنصر کو متحرک کردیا اور اہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ تحریک لبیک اس تحریک کو ایم ایم اے کے ساتھ مل کر 2018 کی انتخابی جدوجہد کی بنیاد بناسکیں۔
  • ڈاکٹر جلالی کی تحریک فی الحال عوامی اسلامی تحرک پیدا کرتی ہوئی نظر نہیں آئی اس کی سب سے بڑی وجہ بریلوی حضرات کا آپس کا افتراق ہے ۔مسلم لیگ (ن) کی کوشش نے تحریک لبیک کو کئی آپس میں متصادم گروہوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ اس تحریک کا انقلابی اثر ختم ہوجائے ۔پیر سیالوی صاحب سے وعدہ کرنے کے باوجود کسی مسلم لیگی ایم این اے یا ایم پی اے نے استعفیٰ نہیں دیا اور مولانا خادم حسین بھی نومبر میں کئے جانے والے وعدوں پر حکومت سے عمل نہ کرواسکے ۔
  • تحریک لبیک کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ وہ اکیلی مسلم لیگ کے نظام اقتدار کو متاثرنہیں کرسکتی اور اگر وہ ایم ایم اے کا حصہ نہ بنی تو لازماً اس کا نومبر 2017 کا پیدا کردہ عوامی اسلامی تحرک تحلیل ہوجائیگا ۔
  • ان حالات میں جماعت اسلامی کو پوری توجہ ایم ایم اے کو منظم اور متحرک کرنے اور اس کو توسیع پر مرکوز کرنی چاہیے تاکہ تمام اسلامی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آجائیں ہمیں ڈاکٹر جلالی اور مولانا خادم حسین رضوی سے گزارش کرنی چاہئے کہ اپنے احتجاجوں کو 2018 کی اسلامی انقلابی جدوجہد سے مربوط کریں اور تمام اسلامی گروہوں کے اقدام باہمی مشاورت سے طے ہوں تاکہ ہم ایک انقلابی تزویراتی انتخابی حکمت عملی مرتب اور نافذ کرسکیں ۔

Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16