ہم نے اس ضمن مٰیں اپنے پچھلے مضمون میں وضاحت کی کہ تحریک لبیک کی کامیابی سے اسلامی مقاصد کو کتنا بڑھاوا (Mileage)ملا ہو گا، اس کا اندازہ سیکولر عناصر کے رد عمل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے-

 اس مضمون میں ہم  تحریک لبیک کی  نومبر 2017ء یا آیندہ ایسی کسی بھی اسلامی خطوط پر چلائی جانے والی تحریکات کی کامیابیوں کو غلبہ دین کی  طرف پیش رفت کا باعث بنانے کے لیے تجاویز پیش کر رہے ہیں، تاکہ یہ وقتی کامیابیاں جلد ہوا میں تحلیل نہ ہو جایا کریں-

اتحادِ اسلامی:

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سنی تحریک کے علاوہ کسی اور  اسلامی سیاسی یا مذہبی جماعت نے تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھرپور اور انتظامی سطح پر ساتھ نہ دیا اور تحریک لبیک اور سنی تحریک یکا و تنہا ہی عظیم عوامی تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ہمارے امیر نے تحریک لبیک کی کھل کر لفظی حمایت کی جبکہ  کچھ شہروں میں جماعت اسلامی کے کارکن انفرادی طور پر مظاہروں میں شامل رہے  اور ہمارے راولپنڈی    سے تعلق رکھنے والے  ایک  کارکن، راجہ زہیب   کو اللہ نے شہادت بھی نصیب کی -اللہ قبول فرمائے (آمین )، لیکن جماعت اسلامی انتظامی تعاون سے گریز کرتی رہی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جماعت اپنے  تمام انتظامی اور سیاسی وسائل تحریک لبیک کی پشت پناہی کے لیے وقف کرتی اور اس کے شانہ بشانہ دہریہ قوتوں کا مقابلہ کرتی لیکن وہ جماعت جو پانی اور بجلی اور سرمایہ دارانہ کرپشن کے ضمن میں تو ہر وقت سڑکوں پر جلوس نکالنے کے لیے تیار رہتی ہے اور یوتھ کنونشن اور پی ایچ ڈی کانفرنس کے نام پر میلوں کا انتظام کرتی ہے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے احتجاج  میں کہیں نظر نہیں آئی۔ یہ کیسی جماعت اسلامی ہے۔

نہایت شرم کی بات ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف)  نے اس احتجاج کو غلبہ دین کا ذریعہ نہیں  بلکہ دشمن استعمار کی سازش قرار دیا۔ تبلیغی جماعت اور تنظیم اسلامی اپنے سالانہ اجتماعات کرتی رہیں اور تحریک تحفظ ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً بے تعلق رہیں۔ اسی طرح اس احتجاج سے دعوت اسلامی کی عدم موجودگی ناقابل فہم ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (س) تحریک انصاف کی انتخابی حلیف بننے جا رہی ہے۔

ہمارے اس انتشار کو دور کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تمام جماعتوں کو یہ باور کرنا ہو گا کہ تحریک لبیک کو اس مرحلہ پر اکیلا چھوڑنا تحریک غلبہ دین کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ تحریک لبیک سیاسی میدان میں نووارد  ہے اور اس کا نظاماتی تغیر کا شعور ناپختہ اور مبہم ہے۔  تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کمزوری اسی وقت دور کی جا سکتی ہے جب اس کو قائم ہونے والی متحدہ مجلس عمل کے اتحاد میں انتظامی طور پر شامل کیا جائے۔

تحریک لبیک کو اسلامی سیاسی دھارے  (mainstream) میں شامل کرنے کی بنیادی ذمہ داری جماعت اسلامی پر آتی ہے کیوں کہ یہ تحریکاتِ اسلامی کی رابطہ کی جماعت ہے۔ یہ بریلوی کی، دیوبندیوں کی، شیعوں کی ، اہل حدیثوں کی، سب مخلصین دین کی خادم جماعت ہے۔ یہ اسی کا کام ہے کہ فرقہ واریت کی دیواروں کو مسمار کرے اور اس کے لیے تحریک لبیک سے انتظامی سیاسی اورنظریاتی روابط استوار کر کے اس کو تمام مخلصین دین کے گروہوں سے منسلک اور مربوط کرنے کی سعی کو فوقیت دینا چاہیے۔ یہ کام ہمارے علاوہ پاکستان میں کوئی اور جماعت انجام نہیں دے سکتی۔

چھٹا جو ہاتھ ہمارا تو مل چکی منزل

کیوں کہ نظاماتی تغیر کا سب سے مربوط تصور مولانا مودودی کے اجتہاد  ”مغرب جاہلیت خالصہ ہے“   ہی میں ہے۔ ہم اتحاد اسلامی کو فروغ دینے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم رکھتے ہیں۔

بریلویت کا احیاء:

آج ہم برصغیر کی تحریک غلبہ دین کی تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں۔ 1857ء کے جہاد کے بعد مسلمانوں کا سوادِ اعظم تحریک غلبہ دین سے عملاً دست کش ہو گیا۔ پنجاب میں  بالخصوص یہ سوادِ اعظم بریلوی مکتب سے متعلق ہے اور تحریک غلبہ دین سے اس کی لاتعلقی کا مطلب یہ تھا کہ غلبہ دین کی جدوجہد میں میمنہ اور میسرہ تو حرکت میں تھے لیکن قلب لشکر محو خواب رہا اور مسلم لیگ کا اسیر۔ آج اللہ تعالیٰ  اس قلب لشکر کو حاجی صاحب امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا فضل حق خیرآبادی کے ایک سچے جانشین کی ولولہ انگیز قیادت کے تحت پھر بیدار کر رہا ہے۔

بریلویت ہی مخلصین دین کے سوادِ اعظم کو متحرک کر سکتی ہے کیوں کہ  یہ قادری صوفیائے کرام کی فطری جانشین ہے۔ یہ قلب  کو متاثر کرتی ہے اور اس کا تخاطب روح سے ہے، نفس سے نہیں۔ بریلویت کا احیا اسلامی روحانیت کا احیا ہے اور بریلوی علما اور صوفیہ کا میدان میں اترنا غلبہ اسلامی کا پیش خیمہ  ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے سوادِاعظم کو روحانی اور تمدنی طور پر بیدار کرنے کا فریضہ اور کوئی انجام نہیں دے سکتا اور تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عملاً کر کے دکھا دیا ہے۔

قیادت بالیقیں انہی کو ملنی چاہیے پہلے

عوامی رہبری ان میں سے چن کر لائے پہلے

2018ء کی انتخابی جدوجہد:

تحریک لبیک کے کامیاب احتجاج نے الحمدللہ وہ جذباتی فضا پیدا کر دی ہے کہ جس میں اسلامی جماعتوں کے لیے ایک طاقت ور سیاسی جتھے کے طور پر ابھرنا بالکل ممکن بنا دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس اسلامی جذباتیت کو فروغ دیں اور اس جذبایت کی بنیاد پر 2018ء کی انتخابی مہم مرتب کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے  کہ:

  • ایم ایم اے کا انتخابی منشور خالصتاً اسلامی ہو اور تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اس پوری انتخابی جدوجہد کا مرکز و محور ہو
  • انتخابی مہم کے دوران ہم دنیاوی فوائد کا لالچ بالکل نہ کریں۔ اور سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی کے وعدے سے مکمل پرہیز کریں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب جماعت اسلامی سوشل ڈیموکریٹ اور مسلم قوم پرست وعدوں کی بنیاد پر عوام میں جاتی ہے تو وہ مولا نا مودودی کے اس ارشاد  کو کسی خاطر مہیں نہیں لاتے کہ ”جو لوگ لااِلٰہ الا اللہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے ہیں ، آپ کے کسی کام نہیں آ سکتے،  اس کام میں تو وہی لوگ مفید ہو سکتے ہیں جو آپ کی طرف لاالٰہ الا اللہ کی آواز سن کر آئیں، اسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو  اور اسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اٹھیں” (اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے، صفحہ نمبر 29)
  • سوشل ڈیموکریٹ ، ترقی پسند اور مسلم قوم پرستانہ آدارش تو غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے سم قاتل کا حکم رکھتے ہیں یہ اسلامی سیاسی انفرادیت کو بری طرح مجروح کر تے ہیں اور مخلصین دین کے حوصلے پست کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ان نعروں کو اپنا کر اسلامی جماعتیں دھیرے دھیرے دہریت  (secularism) اور جدیدیت  (modernism)کو اپناتی چلی جاتی ہیں۔
  • ایم ایم اے دہریت اور جدیدیت کا مخالف اتحاد ہونا چاہیے ۔ کسی دہریہ جماعت سے کسی نوعیت کا سمجھوتا یا انتخابی اشتراک عمل نہیں کرنا چاہیے اور جو اسلامی جماعتیں دہریہ جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں ان کو ایم ایم اے میں شریک نہیں ہونا چاہیے
  • انتخابی مہم کے دوران ہمیں مسجد کی بنیاد پر دینی بین المسالک اتحاد قائم کر کے مسجد، مدرسہ اور خانقاہ کی مقامی تنفیذی صلاحیتوں میں اضافہ کی جدوجہد کرنی چاہیے۔
  • زیادہ سے زیادہ ائمہ مساجد، علمائے دین اور مشائخ عظام کو ایم ایم اے کا انتخابی امید وار بنانا چاہیے
  • ایم ایم اے کے جو امیدوار کامیاب ہو کر وفاقی اور صوبائی مقننہ میں پہنچیں ان کی ترجیحی جدوجہد مساجد اور مدارس اور خانقاہوں کی مقامی تنفیذی صلاحیت کا دفاع اور فروغ ہونا چاہیے

تحریک لبیک یارسول اللہ نے وہ جذباتی فضا پیدا کر دی جس میں غلبہ دین کی جدوجہد کو ان خطوط پر مرتب کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس نادر موقع سے کما حقہٗ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطافرمائے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16