مظفر سید جماعت اسلامی کے نمایندہ پختون خوا کے وزیر خزانہ ہیں۔

انہوں  نے جو ٢٠١٨/٢٠١٧ء کے لیے صوبائی بجٹ پیش کیا ہے اس میں پچیس ارب روپے کے سودی قرضہ لینے کا اعلان ہے۔

بجٹ میں چھ ارب حکومتی قرضوں پر سود دینے کے لیے مختص کیے گئے۔

بیرونی استعماری اداروں ورلڈ بینک، ایشین بینک، برطانیہ کے حکومتی ادارہ DFID وغیرہ سے بیاسی ارب روپے امداد ملنے کی توقع کی گئی ہے اور اس امداد کا زیادہ حصہ سودی قرضوں کی شکل میں ہو گا۔

حکومت پختونخوا استعماری امداد پر اپنے مجموعی بجٹ اخراجات کا تقریباً پندرہ فی صد کے لیے انحصار کرے گی۔

حکومت پختونخوا امریکا کی جنگ میں شرکت اور تعاون کے عوض ١٠٧ ارب وصول کرے گی جو مجموعی وصول یابیوں کا تقریباً ١٨ فی صد بنتا ہے۔

لہٰذا پختونخوا استعماری امداد سے اپنے مجموعی اخراجات کا ٣٣ فی صد حاصل کرنے کی توقع رکھتی ہے۔ اس کے برعکس صوبہ اپنے ذرائع سے صرف ٦٨ ارب وصول کرے گا یعنی مجموعی اخراجات کا صرف ١١ فی صد اور جماعت اسلامی کے نمایندہ وزیر مزید امداد وصول کرنے کے لیے بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کریں گے۔ ترقیاتی بجٹ پر اخراجات کا بہت بڑا حصہ چینی سرمایہ کاری کی اسکیموں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ ٤٤٩ نئی سرمایہ کاری اسکیموں سے ٨٣ (یعنی ١٨ فی صد) وہ ہیں جن پر چین نےCPEC کے تحت پیسہ لگا دیا ہے۔ حکومت پختونخواہ امریکی امداد کے ساتھ چینی امداد کی بھی شدید طلب گار ہے۔

جماعت اسلامی کے وزیر خزانہ نے نویں بار پختونخوا کے لیے ایک سودی بجٹ پیش کیا ہے۔ چار سودی بجٹ جناب سراج الحق MMA کے وزیر خزانہ پیش کر چکے ہیں۔ اب مظفر سید تحریک انصاف کی حکومت کا پانچواں سودی بجٹ پیش کر رہے ہیں۔

اپنی وزارت خزانہ کے دور میں سراج الحق بھی یورپ میں امدادکے لئے دورے کرتے رہے ہیں ۔ آج مظفر سید بھی استعماری امداد کے لیے جستجو کر رہے ہیں۔

ہم نو سال سے صوبہ پختونخوا کی وزارت خزانہ سنبھالے ہوئے ہیں ہم نے صوبائی معیشت کو غیرسودی بنانے اور استعماری بھیک سے نجات دلانے کا کبھی تصور تک نہیں کیا۔ سراج الحق آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کے پسندیدہ ترین وزیر خزانہ تھے۔

ایم ایم اے کی حکومت کے پہلے سال اسلامی جماعتوں کے کارکنوں نے ایک ایسا مجوزہ صوبائی بجٹ بنایا تھا جس میں سودی اخراجات اور وصول یابیوں سے مکمل اجتناب اور بیرونی بھیک سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ بتایا گیا تھا۔ یہ بجٹ پروفیسر غفور احمد کے ذریعے سراج الحق کو بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے فوراً اسے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا ۔

ایسا لگتا ہے کہ ہماری قیادت نفاذِ شریعت اور اقامت نظام اسلامی کا کوئی تصور نہیں رکھتی۔

حکومت میں آ کر ہمارے وزیر اور دوسرے اہل کار سرمایہ دارانہ نظام کے مخلص اور دیانت دار خادم بن جاتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کا ہلکے سے ہلکا تصور ان کے ذہن سے قطعاً محو ہو جاتا ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کا جزولاینفک بن جاتے ہیں۔

  اے منور حسن صاحب

  اے مولانا عبدالمالک صاحب

  اے حافظ ادریس صاحب

  اے مولانا عبدالرؤف صاحب

  اے محمد حسین محنتی صاحب

آپ ٹھنڈے پیٹوں یہ سب کیسے برداشت کر رہے ہیں؟


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16