ہم ایک انقلابی اسلامی جماعت ہیں۔ انقلابی جماعتوں کا مخصوص دائرہ عمل نظاماتی غلبہ کا حصول اور استحکام ہوتا ہے۔ تغلب کی تنظیم کو ریاست کہتے ہیں۔ جب اسلامی ریاست قائم اور مستحکم ہو تو تمام اہل دین قوت حاصل کر لیتے ہیں، مزکی بھی، مدرس بھی، مصلحین بھی، مبلغین بھی۔ اسلامی انقلابی جماعت تمام اہل دین کا ایک آلہ کار ہے، نظاماتی غلبہ حاصل کرنے کے لیے تمام اہلِ دین کا ہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام حضرت شبیر احمد عثمانی  نے ١٩٥٣ء میں مولانا مودودی کو اسلام کی تلوار کہا تھا۔

ہم نہ کوئی گروہ ہیں نہ کوئی فقہی مسلک نہ کوئی سلسلہ بلکہ ہم تمام اہل دین کو نظاماتی سطح پر بااختیار اور بااقتدار بنانے کی جدوجہد پچھلے ٧٦ سال سے مستقل کر رہے ہیں۔ ہم سب کے خادم ہیں ، مدرسین کے بھی، مزکیوں کے بھی،مربیوں کے بھی ،مصلحین کے بھی، بریلویوں ، دیوبندیوں ، شیعوں، سنیوںاور اہل حدیث ہم سب کے خادم ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے ہمارے سابق امیر مولانا معین الدین نے کہا تھا:

جماعت سے عالم کی یہ کیسی ان بن

سمجھتے ہو کیوں پہرہ داروں کو رہزن

تمام اہل دین کے نظاماتی غلبہ کا حصول انتخابات میں شمولیت کا اولین ہدف ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ نظاماتی غلبہ کی ترتیب کو ریاست کہتے ہیں۔ نظاماتی غلبہ حاصل کرنا ہے تو ہمیں موجودہ دور کی ریاست کی ترتیب نو اور تشکیل نو لازم آتی ہے۔

نظاماتی غلبہ محض موجودہ ریاستی نظام میں دخول سے نہیں حاصل ہو سکتا گو کہ ریاستی دخول (entryism) کی حکمت عملی کو اپنا کر تحفظ دین کا کام کیا جا سکتا ہے اور ہماری مصلحین کی جماعتیں بالخصوص جمعیت علمائے اسلام اس فریضہ کو بخوبی انجام دے رہی ہیں اور اس کے نظاماتی دخول کے نتیجہ میں مساجد اور مدارس اور تدریس اسلامی کا نظام بڑی حد تک استعماری دست برد سے محفوظ ہے لیکن اس سے اہل دین کو نظاماتی اقتدار حاصل نہیں ہوتا اور وہ ریاستی نظام میں ایک اقلیتی شریک بنے رہنے پر مجبور رہتے ہیں اور نظاماتی اقتدار ی عمل میں ان کی شمولیت ان کو اس ہی نظام اقتدار کا جزو بنا دیتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے اجزائے ترکیبی حسب ذیل ہیں۔

            ١۔ کارپوریشن

            ٢۔سود اور سٹہ کے بازار (financial markets)

            ٣۔فوج

            ٤۔سول عسکری تنظیمیں بالخصوص پولیس

            ٥۔ریاستی انتظامیہ

            ٦۔میڈیا

            ٧۔عدلیہ

            ٨۔مقننہ

ان تمام ادارتی صف بندیوں کا وظیفہ سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کو فروغ دینا، اسے منظم کرنا اور مطابقت رکھنے والی انفرادیت اور معاشرت کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔

ان تنظیموں کی ادارتی کارفرمائی کے نتیجہ لازماً اسلامی انفرادیت اور معاشرت کمزور پڑتی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت نفس کی بندگی کو مقدم گردانتی ہے اور نفس کا بندہ، اللہ کی بندگی اختیار کرنے کو نامعقول عمل سمجھتا ہے۔ ہم سرمایہ دارانہ ریاستی جبر کا شکار اور سرمایہ دارانہ معاشرت میں پھنسے ہوئے اللہ کے بندے بھی نفس کی بندگی پر مجبور کر دیے جاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ اقتداری ادارہ ان کے لیے خدا کی بندگی اختیار کرنے کو مشکل سے مشکل بناتا چلا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ ریاست میں مقننہ واحد منتخب ادارہ ہوتی ہے وہ دیگر تمام اقتداری اداروں کے اقتدار کا جواز فراہم کرتی ہے۔ یہ جواز فراہم کرنے کا ذریعہ سرمایہ دارانہ عدل کا فروغ ہے۔ سرمایہ دارانہ عدل یہ ہے کہ ہر فرد کا یہ مساوی حق ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے بلارکاوٹ جدوجہد کرتا رہے۔ جتنا زیادہ سرمایہ دارانہ عدل فراہم کیا جائے گا اتنا زیادہ سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت فروغ پائے گی اور اتنا زیادہ سرمایہ دارانہ اقتدار محفوظ اور پراثر ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ دورحاضر کے سب سے مشہور سیاسی فلسفی Jurgen Habermas نے کہا ہے کہ نظاماتی غلبہ کو قابل قبول بنانے کے لیے سب سے موثر Social Democratic آدرشیں ثابت ہوتی ہیں۔

بحیثیت اسلامی انقلابی ہم سرمایہ دارانہ نظام کو منہدم اور منتشر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سرمایہ دارانہ عدل کو ظلم گردانتے ہیں کیوں کہ یہ نفس کی بندگی کا پرچار کرتا ہے۔ نفس کی بندگی شرک ہے اور شرک ظلم عظیم ہے۔ لہٰذا ٢٠١٨ء کے انتخابات میں سرمایہ دارانہ عدل کی فراہمی ہمارا ہدف نہیں ہو سکتا۔

ہمارا ہدف سرمایہ دارانہ اقتداری اداروں کارپوریشن، فنانشل مارکیٹس، انتظامیہ، میڈیا وغیرہ کی معاشرتی گرفت کو کمزور اور بتدریج غیرموثر بنانا ہونا چاہیے تاکہ پاکستانی معاشرہ میں وہ گنجایش بڑھتی جائے جس میں رب کے بندہ رب کے احکامات کے مطابق اپنی معاشی، سیاسی، علمیاتی اور ثقافتی زندگی گزار سکیں۔ لہٰذا ٢٠١٨ء کے انتخابات میں شمولیت کا ہدف وہ مہماتی(Mobilizationary) بنیاد فراہم کرنا ہونا چاہیے جس کے اوپر اہل دین کی معاشرتی ، معاشی، سیاسی اور ثقافتی ادارتی صف بندی ممکن ہو سکے۔

مقننہ میں شرکت کے ذریعے ہمیں سرمایہ دارانہ غیرمنتخب اداروں کے معاشرتی جبر کو محدود کرنے کا ہدف اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ہم اسلامی شخصیت، اسلامی معاشرت، اسلامی علمیت اور اسلامی عدالت کے حصول کے ذریعے اہل دین کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی مقننہ روز بہ روز قانونی کارروائیوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ جبر اہل دین پر مسلط کر رہی اور سرمایہ دارانہ ریاستی ادارتی جبر کی بے غیرت پشت پناہ بنی ہوئی ہے۔ وہ استعمار کی کاسہ لیسی کر رہی ہے۔ سودی معیشت کو فروغ دے رہی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ایک مقروض بھکاری کا کردار اختیار کر رہی ہے۔ عریانی اور فحاشی کو ہر سطح پر فروغ دے رہی ہے۔ گستاخانِ رسول کو فرار ہونے کا موقع دے رہی ہے اور محبان رسول کو پھانسی پر لٹکا رہی ہے وہ جہادِ کشمیر کی غدار ہے۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی ادارتی صف بندی کے بغیر اہلِ دین پر جاری اس ریاستی یلغار کو روکا نہیں جا سکتا۔

پاکستان میں ذہنی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی ادارتی صف بندی کے مواقع وافر ہیں۔ یہاں نوے فی صد کاروبار بالکل حلال ہے۔ ان معنوں میں کہ اس کاروبار کا نہ سود کے بازار سے کوئی تعلق ہے نہ سٹہ کے بازار سے۔ معاشرتی اور خاندانی زندگی پر اسلامی روایات، رسوم و رواج کی گرفت مضبوط ہے۔ علمائے کرام او رصوفیائے عظام نے ہماری مقدس علمی اور روحانی ورثہ کو بالکل محفوظ کیا اور لاکھوں علما ہمارے مدارس اور خانقاہوں سے مستقل مستفید ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ ہم پاکستان کی سب سے بڑی نظریاتی، جذباتی اور اخلاقی potential قوت ہیں۔

لیکن ہم نہ متحد ہیں اور نہ منظم۔ معاشی، سیاسی، معاشرتی سطح  پرہمارے پاس بہت محدود اقتدار ہے اور یہ اقتدار دن بہ دن کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ہم پر دہریت (secularism) کا غلبہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری اس پسپائی کی گہری تاریخی وجوہات ہیں۔ جہاد ١٨٥٧ء کی پسپائی کے بعد استعمار اس بات میں کامیاب ہو گیا کہ اہل دین کے مسلم سوادِ اعظم کو اسلامی انقلابی تحاریک سے بالکل لاتعلق بنا دے۔ لہٰذا سوادِ اعظم نے شیخ المشائخ کے خروج کا ساتھ دیا نہ حضرت شیخ الہند کے خروج کا نہ حاجی صاحب ترنگ زئی اور فقیر ایپی کا نہ شاہ جی کا نہ علمائے صادق پور کا

گلہ جفائے  وفا نما جو  حرم کو  اہل حرم  سے  ہے

کسی بت کدہ میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری

اور استعمار کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم مسلم لیگ اور کانگریس کو غلبہ دین کی تحریکات سمجھ بیٹھے اور آج تک اہل دین دہریہ (secular) سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنے اقتداری قوت سے محرومی کا بہت کم احساس ہے۔

جب تک ہم معاشرتی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی طور پر اپنے آپ کو متحد اور منظم نہیں کر لیتے سرمایہ دارانہ حکومتوں میں شمولیت سے ہم غلبہ دین کا کام نہیں لے سکتے لہٰذا ٢٠١٨ء کے انتخابات میں شمولیت کا ہدف کسی حکومت میں شمولیت نہیں نہ وفاقی سطح پر نہ صوبائی سطح پر۔ اسلامی معاشرتی اور ادارتی صف بندی کے بغیر غیرمنتخب سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں کی ترتیب نو کا عمل نہ ممکن ہے اور انتخابی عمل سے گزر کر جو اسلامی حکومتیں قائم ہوتی ہیں انہیں لامحالہ دہری (secular) نظام سے ایسے سمجھوتے کیے ہوتے ہیںجس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کا اسلامی جواز فراہم پر کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہیں اور چونکہ سرمایہ دارانہ نظاماتی غلبہ عالمی ہے لہٰذا ہر گھڑی استعماری قوتوں کو یہ موقع ملتا رہتا ہے کہ وہ اسلامی حکومتوں کو بے دست وپا کر دے۔ اس کی سب سے اہم مثال مصر کے سابق وزیر اعظم مرسی کی حکومت ہے۔ پاکستان میں اسلامی حکومت اور اسلامی عدل کا قیام نہ چین برداشت کر سکتا ہے نہ امریکا اور جب تک اہل دین متحد اور معاشی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر منظم نہ ہوں اس وقت تک ہم استعمار کے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے۔ حکومت میں شمولیت کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ اسلامی انقلاب کے تصور سے عملاً رجوع کیا جائے اور ہم سرمایہ دارانہ اقتدار اور سرمایہ دارانہ عدل کے اسلامی معاصین (apologists) کا رویہ اختیار کر لیں۔

لہٰذا ٢٠١٨ء کے انتخابات میں شمولیت کے اہداف یہ ہونا چاہئیں۔

            ۔ تمام اہل دین اور ان کی جماعتوں کو عصبیت اسلامی کی بنیاد پر غلبہ دین کی جدوجہد سے منسلک کرنا۔

            ۔تحفظ دین اور غلبہ دین کی تمام تحریکات اتحاد عمل پیدا ہو تاکہ انتخابی تحرک کے بعد معاشی، معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی ادارتی صف بندی کا عمل منظم کیا جا سکے۔

            ۔ہمارے منتخب نمایندوں کی بنیادی ذمہ داری اسلامی شعائر کا تحفظ اور اسلامی معاشرتی اقتداری اداروں کو سرمایہ دارانہ ریاستی دست برد سے محفوظ رکھنا اور استعماری پیش رفت کو کمزور کرنا ہو۔

جب تک ملک میں سرمایہ دارانہ نظام غالب ہے اور ہم اس کی اقتداری ادارتی صف بندی کا متبادل نظام نافذ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اس وقت تک ہمیں کسی قومی یا صوبائی حکومت میں شرکت نہ کرنا چاہیے او رایک ایسی مستقل حزب مخالف (Permanent Opposition)کا کردار ادا کرنا چاہیے جو سرمایہ دارانہ عدل کو ظلم عظیم مستقل ثابت کرتی رہے۔    

سراج الحق اور چودھری شجاعت کا مشترکہ اعلان

چودھری شجاعت وہ بدنام زمانہ سیاست دان ہے جو مدتوں جنرل مشرف کا دست راست بنا رہا اور اس کا وزیراعظم بھی۔

شجاعت پاکستان پر امریکی تسلط کو مستحکم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر چکا ہے اور آج بھی استعمار کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔

کتنے شرم کی بات ہے کہ ایسے رسوائے زمانہ غدار سے ہمارے امیر مشاورت کر رہے ہیں اور ٢٠١٨ء کے انتخابات میں اس سے تعاون اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔

کیا جماعت اسلامی کسی ایسے حکومت مخالف سیاسی اتحاد میں شرکت کی سوچ رہی ہے جو مشترکہ طور پر ٢٠١٨ء کے انتخابات لڑے یا اس سے پہلے حکومت مخالف عوامی مہم چلائے؟

ایسا محاذ لازماً اسلام دشمن، امریکا نواز اور خالصتاً سیکولر ہو گا۔

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق) وغیرہ یہ سب خالصتاً اسلام دشمن، سیکولر اور امریکا کی لے پالک جماعتیں ہیں جن سے اشتراک عمل اسلامی قوتوں کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو گا۔

ہمیں کسی حال میں بھی اسلام دشمن ، امریکا نواز سیکولر جماعتوں سے اشتراکِ عمل نہیں کرنا چاہیے۔

ہمیں اس بات کی پوری کوشش کرنا چاہیے کہ ہم آیندہ انتخابات خالصتاً اسلامی ایجنڈہ پر لڑیں اور تمام سیکولر جماعتوں کو کرپٹ، استعمار کی کاسہ لیس اور اصولاً و عملاً اسلام دشمن ثابت کریں۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16