ہماری کے الیکٹرک کے خلاف عوامی تحریک کے مقاصد یہ تھے:

  • کے الیکٹرک کو فوراً قومی تحویل میں لیا جائے
  •  آئین کی دفع ٢٤٨ کے تحت توانائی ایمرجنسی نافذ کی جائے
  •  کے الیکٹرک نے جو ٢٠٠ ارب روپے لوٹے ہیں ان کا حساب لیا جائے
  • لوٹی ہوئی رقم صارفین کوواپس کی جائے
  • کے الیکٹرک کی ناجائز وصولیوں کا خاتمہ کیا جائے

ان میں سے کوئی نہ مانا گیا اور ونہ موجودہ سرمایہ دارانہ ریاستی نظام میں کبھی مانا جا سکتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں فیصلہ سازی کے عمل کو ہم بالکل نہیں جانتے۔

مہم کے دوران ہم نے جو اقدام اٹھائے وہ حسب ذیل ہیں:

  • کے الیکٹرک NEPRA   کے خلاف عدالتی چارہ جوئی
  • شاہراہ فیصل پر دھرنا
  • گورنر کا گھیرائو او ران سے بے معنی مذاکرات
  • کے الیکٹرک کے مرکز کے سامنے دھرنا اور عوامی Sit in
  • ٢ لاکھ عوامی پٹیشنوں کو پیش کرنا
  • شاہراہ فیصل سڑک پر پرامن دھرنا جس میں گورنر کو شرکت کی دعوت دی جو اس نے قبول نہیں کی
  • سندھ ہائی کورٹ میں قائم کمیشن میں کے الیکٹرک کے خلاف پیشی
  • یوم سیاہ منانے کا اعلان اور مہم کو انہی خطوط پر جاری رکھنے کا عزم

اندازہ لگائیے کہ اس سعی  پر ہم نے کتنی کثیر رقم لگائی ہو گی اور کارکنوں کا کتنا وقت  لگا  ہو گا اور حاصل کچھ بھی نہیں۔ آخر کیوں؟

وجوہات درج ذیل ہیں:

  • سرمایہ دارانہ نظام اقتدار پر عوامی دباو کامیاب صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ قانون کے دائرہ سے باہر اور پرتشدد ہو۔ ہمارا احتجاج سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے لیے کوئی خطرہ نہ بن سکا۔
  • ستم ظریفی یہ کہ ہم سرمایہ دارانہ اقتداری ستونوں گورنر سندھ، ہائی کورٹ، پولیس اسٹیشنوں سے انصاف کی اپیلیں کرتے رہے۔
  • اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

کے الیکٹرک کی کارفرمائی یقینا سرمایہ دارانہ ظلم ہے اور ایک ایسے شہر میں جہاں سرمایہ دارانہ ذہنیت عام ہے اس کو عوامی پذیرائی ملنی چاہیے تھی اس کی تین وجوہات ہیں:

  1. ایک یہ کہ احتجاجی طریقہ پرامن اور سرمایہ دارانہ قانونی جکڑبندیوں میں پھنسا ہوا تھا۔
  2. دوسری یہ کہ کراچی شہر میں ہم اپنی اسٹریٹ پاور کھو چکے ہیں اور سرمایہ دارانہ ظلم کے خلاف کوئی بھی عوامی تحریک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے اگر یہی مہم ایم کیو ایم چلاتی تو اس کی عوامی پذیرائی کہیں زیادہ ہوتی۔
  3. تیسری یہ کہ جو بھی مظاہرین متحرک ہوئے تھے انہیں جلسوں دھرنوں کے بعد منظم کرنے کا ہمارے پاس کوئی پروگرام نہ تھا۔ ریاستی اقتدار کے علی الرغم عوامی اقتدار کی تدوین اور تنظیم کے کام سے ہم بالکل ناواقف ہیں۔

اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ عدل  کے قیام کے لیے ہم جب بھی جدوجہد کریں گے ہم اپنی بنیادی (constituency) کو متحرک اور منظم نہ کر سکیں گے۔ سرمایہ دارانہ ظلم کے خلاف تحرک اسلامی عصبیت کو بیدار نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج میں ائمہ مساجد، مدارس کے طلبہ، تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے کارکنوں کی شرکت بالکل ناپید تھی جبکہ ہمارے کارکنان بھی کم تندہی اور بڑھتی ہوئی بے دلی کے ساتھ شرکت کر رہے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم کبھی بھی سرمایہ دارانہ عدل کو فروغ دینے والی ماڈرن جماعت نہیں بن سکتے۔ مولانا مودودی کے اساسی نظریات اور ہماری (سراج الحق کے دور سے پہلی) تاریخ اس رویہ کی تردید کرتی ہے۔ کراچی کی جماعت سرمایہ دارانہ عدل کی وکیل اور ماڈرن ازم کی وکیل بن کر سیاسی اور نظریاتی طور پرغلطی کر رہی ہے۔

 


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16