۔ نواز شریف کی برطرفی ایک سرمایہ دارانہ ادارتی کش مکش کا نتیجہ ہے۔ اس عمل سے اسلامی عصبیت فروغ نہیں پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے جی ٹی روڈ کے احتجاجوں میں نواز شریف نے اسلام کا کہیں اور کبھی اشارةً بھی تذکرہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے حق میں اسلامی حمایت کو متحرک  (mobilize)کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی۔

۔ تحریک انصاف اور پی پی پی نے بھی نواز شریف کی اسلام دشمنی اور استعمار نوازی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جمعیت علمائے اسلام بھی نواز شریف پشت پناہ بنی رہی۔

۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے آج اسلام پاکستان کے سیاسی منظر سے تقریباً بالکل خارج کر دیا ہے۔ اس کا موازنہ ١٩٧٧ کی تحریک سے کیجیئے جب میاں طفیل رحمہ اللہ کی قیادت میں ہم نے اے این پی تک کو اسلامی ایجنڈا اپنانے پر مجبور کر دیا تھا۔

۔ آج ہر دینی سیاسی جماعت سیکولرائزیشن کی گرفت میں ہے اور بالخصوص جماعت اسلامی میں یہ عمل برق رفتاری سے فروغ پا رہا ہے۔ ہم بھی آج سرمایہ دارانہ کرپشن کے خلاف سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ کا کلیدی اجتہاد”مغرب جا ہلیت خالصہ ہے”، لیکن اسی جاہلی مغرب زدہ ریاستی نظام میں سرمایہ دارانہ عد کے قیام کی جدوجہد کرہے ہیں۔

۔ سرمایہ دارانہ عدل ظلم عظیم ہے۔ سرمایہ دارانہ عدل یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی خواہشات نفسانی کے حصول کے لیے بھرپور اور یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ بھلا اس کا مقاصدِ شریعت کے حصول سے کیا تعلق۔ یہ تو خدا کے بندوں کو نفس کے بندے بنانے کا مجرب نسخہ ہے۔

۔ سرمایہ دارانہ کرپشن یہ ہے کہ کچھ لوگ سرمایہ دارانہ نظام کی کارفرمائی سے اپنے ذاتی فوائد حاصل کریں جس سے سرمایہ دارانہ معاشرے میں رہنے والے دوسرے افراد اپنی خواہشات نفسانی سے محروم کر دیئے جائیں۔

۔ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی جدوجہد اور سرمایہ دارانہ کرپشن کے خاتمے کی مہمات سرمایہ دارانہ نظام کی مقبولیت کو فروغ دینے کی تحریکیں ہیں۔ یہی  وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ کرپشن کی روک تھام کے لیے سب سے مربوط اور موئثر ادارتی صف بندی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک (امریکا، چین، جرمنی،ا سکینڈے نیویین ممالک جنوبی کوریا وغیر)ہ میں کی گئی ہے۔

۔ اور جن سرمایہ دارانہ ریاستی اداروںعدلیہ، انتظامیہ( bureaucracy) سرمایہ دارانہ نظاماتی استحکام کو قائم رکھنے اور فروغ دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ سرمایہ دارانہ کرپشن کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ کوشاں ہیں۔

۔ سرمایہ دارانہ نظام کے مخلصین ہی سرمایہ دارانہ کرپشن کے خلاف عوامی مہمات سے عوامی اعتبار حاصل کرتے  ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کرپشن کے خاتمے کی مہم کو کتنا ہی فروغ کیوں نہ دیں ہمیں اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہ ہو گا اور اس کے برعکس اس نوعیت کی سیاسی تحریک  (political mobilization)کا پورے کا پورا فائدہ عمران خان کو ہو گا کیوں کہ وہ ایک مخلص سرمایہ داراہے اور ہم مخلص  سرمایہ دارانہ خادم ہونے کا کتنا ہی دعویٰ کریں عوام میں اپنی یہ شناخت پیدا نہیں کر سکتے۔

۔ ہم اصولاً (عملاً نہیں) ایک اسلامی انقلابی جماعت ہیں۔ ہمارا کام سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی کو استحکام بخشنا اور مقبولیت  ( legitimacy)فراہم کرنا نہیں۔ ہمارا کام سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی کو منتشر اور غیرمقبول  (de-ligitamize) کرنا ہونا چاہیے۔ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام اور سرمایہ دارانہ کرپشن کے خاتمے سے ہمیں کیا سروکار۔ یہ تو ان لوگوں کا کام ہے کہ جو سرمایہ دارانہ نظام میں اسلام کی پیوندکاری کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تو سرمایہ داری کے گورکن (grave digger)ہیں۔

۔ کرپشن کے خلاف مہم محض وقت کا ضیاع اور اپنے آپ کو اس دھوکے میں مبتلا رکھنا ہے کہ ہم سرمایہ داری کے مخلص خادم کی حیثیت سے عوامی مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کرنے کا کام نہیں۔ سرمایہ دارانہ کرپشن کا خاتمہ ہمارا ایشو ہی نہیں۔ ہمیں کرپشن کے خلاف ملک گیر مہم کو فی الفور معطل کر دینا چاہیے۔

۔ ہمارا کام ملکی سیاست میں اسلام کو دوبارہ ایک طاقت ور زندہ نظاماتی مطالباتی انداز میں داخل کرنا چاہیے۔ ہمیں ١٩٧٧ء کی نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فی الفور احیا ء کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی تحریک کے احیاء کے تناظر میں ہم ٢٠١٨ء کے انتخابات کامیابی سے لڑ سکتے ہیں۔

تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے احیا کے لیے دو اقدام اہم ہیں۔

تمام دینی، سیاسی اور غیرسیاسی اسلامی جماعتوں کا اتحاد اور تزویراتی اشتراک عمل بحیثیت ایک اسلامی انقلابی جماعت یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ تمام اسلامی گروہوں کو اس بات کا احساس دلائیں کہ آج اسلام شدید خطرے میں ہے ۔ امریکی او رچینی استعمار بھرپور طور پر حملہ آور ہے اور اسلامی قوت اور اسلامی معاشرت و علمیت کو مسخر کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔ پاکستان کی ہر سیکولر جماعت (پی پی پی، مسلم لیگ الف تا ے، تحریک انصاف وغیرہ) استعمار کی آلہ کار اور فطرتاً اسلام دشمن ہیں۔ اپنے استعماری آقائوں کے حکم پر یہ جماعتیں اسلامی اداروں (مساجد، مدارس، خانقاہوں، امام بارگاہوں، جرگوں، قبائلی اور برادری کی اجتماعیتوں)  پر قانونی اور استبدادی شکنجہ کس کر اسلامی انفرادیت ، معاشرت اور علمیت کو تہس نہس کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ آج کے دور میں سیاسی عمل سے لاتعلقی اختیار کرنا یا محض ایک دفاعی سیاسی حکمت عملی اختیار کیے رکھنا اسلام کے دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ دشمن (پی پی پی، مسلم لیگ، تحریک انصاف) صرف قوت کی زبان سمجھتا ہے کیوں کہ یہ اسلام کا غدار ہے۔ اس کا مقصد اسلامی معاشرتی اور علمیاتی قوت کو کچل دینا ہے۔ اسی لیے یہ امریکی اور چینی استعمار کا آلہ کار ہے۔

جماعت اسلامی کی اصل constituency نا عوام ہیں نا نوجوان ناپروفیشنل ہیں ۔ ہماری اصل constituency وہ لاکھوں افراد ہیں جو راسخ العقیدہ اسلامی تنظیمات ، حلقہ ہائے دروس و ارشاد سے اپنی زندگیاں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ ان تمام مخلصین دین کا نظاماتی محور جماعت اسلامی ہی کو فراہم کرنا ہے اور ان مخلصین دین کو اس قابل بنانا ہے کہ ریاستی اقتدار ان کی طرف منتقل ہو جائے۔

قیادت   بالیقین انہی کو ملنی چاہیے

عوامی رہبری ان میں سے جن  کا ۔۔۔

اسلامی انقلاب کا مطلب ریاستی اقتدار کا سرمایہ دارانہ اداروں سے قوت کے انتقال اور مخلصین دین کے ہاتھوں میں اس کے ارتکاز کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہی حقوق کی سیاست سے فرائض کی سیاست کی طرف مراجعت کا طریقہ ہے۔ ٢٠١٨ء کے انتخابات ہماری اسی بنیادی constituency کو متحرک کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اس کے لیے پہلی ضرورت ہمہ گیر اسلامی اتحاد کی ہے۔دوسری ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ انتخابات فرائض کی سیاست کو جدوجہد کا مرکز بنا کر لڑیں گے۔ حقوق کی سیاست کو شرحِ صدر کے ساتھ رد کریں گے۔ ہمارا منشور قوم پرستانہ او رسوشل ڈیموکریٹ آدرشوں سے یک سر خالی ہو ۔ الیکشن، انتخابات اور پارلیمنٹ میں شرکت کا اصل مقصد ایک ایسے عوامی اقتداری نظام کا تحفظ ہے جو عوام کی بڑھتی تعداد کو مخلصین دین کی قیادت کے تحت منظم کرے اور جس کا مرکز اور محور محلے کی سطح پر قائم ایک بین المسالک مساجد کا وفاق ہو جو بتدریج تمام اسلامی حلقوں کے اشتراک عمل سے تعمیر کیا جائے اور جس کی کارفرمائی کے ذریعے امام مسجد کو عوام کا واحد مقبول عام مقتدر قائد (legitimize) بنایا جائے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہم ملک کے لاکھوں مخلصین دین او روابستگان حلقہ ہائے اسلام کو متحرک اور منظم کریں گے۔ ہمارے ٢٠١٨ء کے انتخابی منشور کے نکات حسب ذیل ہونے چاہئیں:

۔ اسلام عالمی سطح پر اور بالخصوص پاکستان میں شدید خطرے میں ہے۔ ہم تمام دینی حلقوں سے التجا کرتے ہیں کہ وہ اس عظیم خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر کس لیں تاکہ رزم گاہِ حیات کے ہر مورچہ پر شیطانی قوتوں سے بھرپور مقابلہ کیا جاسکے۔

۔ تمام سیکولر جماعتیں(پی پی پی، مسلم لیگ، تحریک انصاف وغیرہ) دین کی غدار اور استعمار کی آلہ کار ہیں۔ ان سے انتخابی اشتراک عمل بالخصوص سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے کچھ نہیں ہو گا۔ ان جماعتوں کا مکروہ سیکولر چہرہ ان کی اسلام دشمن پالیسیوں سے واضح کیا جائے۔

۔ آج تمام اسلامی ادارے(مساجد، امام بارگاہیں، قبائلی جرگے،  تنظیمات مدارس اور برادریاں) ریاستی ظلم اور استبداد کا شکار ہیں۔ قانونی او رغیرقانونی طریقوں سے ان کی کارفرمائی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کی بیخ کنی کی جا رہی ہے۔ اسلامی اداروں کو ریاستی دست برد سے محفوظ رکھنا اور ان پر دہشت گردی کے الزامات کا مقابلہ کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔

۔ ہم تمام اسلامی عوامی اداروں کی اقتداری فعالیت کو فروغ دینے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم مسجد کو مقامی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی زندگی کا محور بنانے کی جدوجہد کریں گے۔

۔ اسلام دشمن قوتیں آج شعائر اسلامی پر رکیک حملے کر رہی ہیں۔ ہم تحفظ ناموس رسالت پر کٹ مریں گے اور دینی نظام تعلیم اور نظام ثقافت میں ادنیٰ سے ادنیٰ ریاستی دخول کے خلاف اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔

۔ آج ہماری معیشت پر سودی دہشت گرد مسلط ہیں انہوں نے مالی اور محصولاتی جکڑبندیوں کے ذریعہ حلال کاروبار کے مواقع تنگ سے تنگ کر دیے ہیں۔ ہم ملک میں حلال کاروبار کو فروغ دینے کے لیے مربوط منصوبہ بندی اور ادارتی صف بندی کریں گے۔

۔ آج اسلامی شناخت اور ثقافت کو پر سرمایہ دارانہ استعماری امدادی ایجنسیاں پوری قوت سے حملہ آور ہیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ملک سے USAID, DFID اور تمام یورپی این جی اوز کو نکالنے کی بھرپور جدوجہد کریں گے۔

حکومت جہاد کشمیر کو بھی دہشت گرد کارروائی ماننے کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ ہم اس غداری کو ناممکن بنا دیں گے اور جہاد کشمیر کی بھرپور اعانت کریں گے۔

۔ اس منشور کی تفصیل ہمارے مضمون ” متحدہ اسلامی اتحاذ کا انتخابی منشو ر ” میں دیکھی جا سکتی ہے۔

۔ جب بھی ہم نے عصبیت اسلامی کو فروغ دینے کے لیے عوامی تحریک چلائی ہے وہ تحریک کامیاب رہی ہے لیکن یہ کامیابیاں صرف علامتی تھیں اور اس کا کچھ اثر نظاماتی سطح پر مرتب نہ ہوا ۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ایک مطالبات محدود تھے اور دوسرے یہ کہ تحریک کے نتیجہ میں موبلائز ہونے والے عوام کو ہم اسلامی ادارتی اقتداری اداروں میں منظم کر کے ایک مستقل سرچشمہ قوت بنانے کی ضرورت کا ادراک نہیں رکھتے تھے۔

۔ انقلاب ایک جاری عمل (work in progress)  ہے اور انقلاب اسلامی کے اس جاری عمل میں ٢٠١٨ء ایک اہم سال ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم

۔ تمام اسلامی حلقوں کو اسلام جس شدید خطرہ سے دوچار ہے اس کا احساس دلا کر متحد اور منظم کر سکیں۔

۔ ہمارا سیاسی ایجنڈہ خالصتاً اسلامی ہو قوم پرستانہ اور سوشل ڈیموکریٹ مطلقاًنہ ہو۔ ہم تمام سیکولر جماعتوں سے ہر قسم کے سیاسی اشتراک عمل سے علیحدگی اختیار کریں ۔

۔ ہم حقوق کی سیاست کو پورے شرح صدر سے مسترد کر کے فرائض کی سیاست کریں۔

۔ ہم اس انتخابی مہم کو مسجد کی سطح پر تمام مخلصین دین کی اقتداری تنظیم قائم کرنے کی طرف پہلا قدم اٹھائیں۔

۔ ہمارے منتخب پارلیمانی نمائندوں کا مقصد اسی مسجد کی بنیاد پر قائم کردہ عوامی اسلامی اقتداری نظام کا تحفظ اور فروغ ہو۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16