ہم امت کا ہراول دستہ ہیں ، ہم اٗس فکر کے امین ہیں جو ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ فکر ہمارئے  بانی رحمہ اللہ کے ان دو اجتہادات سے ہمیں ملی کہ

  • اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے
  • مغرب جاہلیت خالصہ ہے

یہ دونوں اجتہادات ہمیں بقیہ دینی تنظیموں،  تحریکوں،  جماعتوں گروہوں ، مسلکوں اور فرقوں سے علیحدہ ایک بہت بڑی ذمہ داری کے مقام پر فائز کر دیتے ہیں ، ہمارئے علاوہ بقیہ سب نے شعوری طور پر 1920 اور اس کے بعد کے حالات کے جبر کے تحت اپنے لئے دفاع اسلام و تبلیغ دین و اصلاح  کا راستہ چٗنا، یہ اس وقت کی اہم ترین ضرورت تھی اور یہ کام ان گروہوں نے بخوبی انجام دیا جب ہی ہمارے ملک میں شعائر اسلامی محفوظ و مامون ہیں الحمدللہ ، ممبر و محراب توانا ہیں اور معاشرہ اسلامی رجحان کا حامل ہے –

لیکن ان سب کارہائے نمایاں کے باوجود ملک کی یہ تمام تنظیمیں، گروہ،  مسلکی و  سیاسی اسلامی جماعتیں،  خانقاہیں اور اصلاحی تحریکیں غلبہ دین کے عظیم کام کے عنوان سے شعوری طور پر دور ہیں اس لیے کہ ان کا وجہ وجود ہی دفاع اسلام ہے ناکہ غلبہ دین-

تحریک اسلامی سے وابستہ بہت سے دوستوں کو ان گروہوں سے اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ “یہ سب تو اسی نظام میں پھل پھول رہے ہیں انہیں اس نظام کی تبدیلی کی فکر ہی نہیں”، تو  عرض یہ ہے کہ یہ ان کا میدان ہی نہیں تھا یہ تو ہمارا میدان تھا، ہے اور رہے گا-

اس نظام کو اس کے بیخ و بٗن سے اکھاڑ پھینکنا ، اس سے ٹکرانا اور ہمہ وقت پنجہ آزمائی کرنا اس کے متبادل کی فکر میں لگے رہنا ، نگاہیں اس انقلاب کی سمت مرکوز رکھنا اور ہمہ وقت اس کی منصوبہ بندی کرنا کہ کیسے معاشرت ، معیشت ، ثقافت ، انفرادی و اجتماعی سطح پر اور سیاست ریاستی سطح پر اسلامی رنگ سے ہم آہنگ ہو جائےاور دین کٗل کا کٗل اللہ ہی کے لئے ہو جائے، یہ فکر ہمیں مولانا مودودی رحمہ اللہ کے ان دو اجتہادات کے نتیجے میں ملی ہے-

آج جس نظامِ اقتدار کو اقتداری اور معاشرتی غلبہ حاصل ہے وہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ یہ نظامِ اقتدار سرمایہ کی حاکمیت قائم کرتا ہے اور سرمایہ دارانہ ریاست شرعِ مٗطہِرہ اور اسلامی علمیت کی فوقیت کو صریحاً ردّ کرتی ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار کی تسخیر امت کے لیے فرض کفایہ ہے۔ دنیا بھر کی ہماری جیسی تمام اسلامی انقلابی تحریکات اسی فرض کفایہ کو ادا کر رہی ہیں –

اصلاحی اور انقلابی گروہوں کے دائمی مقصد میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا مقصد حصولِ رضائے الٰہی ہے اور مقصد کا یہی اشتراک ان دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کا فطری حلیف بنا دیتی ہے، لیکن دونوں کے اہداف(Goals)  میں واضح فرق ہے۔ مصلحین کا ہدف انفرادی اور معاشرتی زندگی ہے اور وہ انفرادی اور معاشرتی رویوں اور تعلقات کو اسلامی روحانیت اور علمیت سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

انقلابیوں کے اہداف دو ہیں,

(۱) انفرادی اور معاشرتی سطح پر اقتدار برتنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور معاشرتی سطح پر عوامی اقتداری صف بندی؛

(۲) ملکی سطح پر ریاستی اقتدار کا حصول بذریعہ پارلیمانی عمل  یا بذریعہ ایسی ہمہ گیر عوامی مزاحمت جو سرمایہ دارانہ ریاستی اقتدار کو منتشر اور مسخر کرے اور عوامی اقتداری صلاحیت کو بڑھائے-

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم (تحریکِ اسلامی) تمام دیگر اسلامی سیاسی و غیر سیاسی اصلاحی و دفاعی گروہوں کے درمیان موثر ،دیرپا ، مربوط اور مستقل بنیادوں پر رابطے و تطبیق کا کام استوار کریں، یہ کام ہمارئے (تحریک اسلامی کے علاوہ) کوئی اور گروہ کبھی نہیں کر سکے گا –

اسلامی گروہوں کے درمیان اتحاد و اتفاق و تطبیق کے بغیر ہمارے اس ملک ِ پاکستان میں کسی دیرپا grass root level انقلاب اسلامی کا ہم تصور نہیں کر سکتے-


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16