1۔مقاصد منشور:

غلبہ دین کے لیے انتخابات ایک ذریعہ ہو سکتے ہیںِ ایم ایم کے اس منشور کا مقصد غلبہ دین کی جدوجہد کو آگے بڑھانا  اورممکن بنانا ہے-اس وقت مخلصین دین اقتدار سے بلکل محروم ہیں، ان کے لیے حکم لگانے اور تنفیذ کا دائرہ کار بہت محدود ہے،  تمام تر اقتدار دین بیزار اور دہریوں کے ہاتھ میں ہے-

مجوزہ اقدام:

2-اسلامی اداروں کے دائرہ اقتدار میں توسیع

2:1 ایم ایم اے  کے اقدامات:

  • ایم ایم اے وعدہ کرتی  ہے کہ ،
  • مقامی وصوبائی اور وفاقی سطح پر بین المسالک مساجد ومدارس کی تنظیم کے قیام کو ممکن بنائے گی ۔
  • انتخابات دفاتر سے نہیں بلکہ مساجد و مدارس سے لڑئے جائیں گے-
  • فتوے کا اجرا اور ان کے نفاذ کی ذمہ داری محلے کی سطح پر مساجد و مدارس کے ذریعے کرنے کا انتظام کیا جائے گا-
  • محلہ اور بازار کی سطح پر تنازعات کے فیصلہ اور ان کے نفاذ کا مساجد کی سطح پر انتظام کیا جائے گا-
  • اسلامی کاروبار کا اجرا اور تنظیم سازی محلہ اور بازار کی سطح پر کی جائیگی
  • محلہ کی ہر مسجد کی انتظامیہ کے ذریعے وہاں کی مقیم موثر برادریوں، جرگوں اور پنچایتوں کے بزرگوں کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی-
  • محلہ کی ہر مسجد میں عوام کے لیے قضا اور افتا کا انتظام اور ضلعی اور شہری سطح پر ایک شرعی نظام قضا اور افتا کی بتدریج تدوین کیا جائے گا۔
  • شہری اور ضلعی سطح پر مساجد اور مدارس کے دفاع اور ان کے خلاف کی جانے والی ریاستی کارروائی کی قانونی چارہ جوئی کی تنظیمی صف بندی کی جائے گی
  • محلہ کی سطح پر اسلامی تنظیموں کے تحت جو رفاہی اور فلاحی کام ہو رہا ہے اس کی نگرانی اور اس کو دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین اور اسلامی اقتداری صف بندی سے مربوط کرنے کی ذمہ داری لی گئی ہے
  • مقامی حکومتوں(local government) کے تحت ہر ضلع میں قائم پنچائت کا نظام بتدریج بین المسالک مساجد کی تنظیموں کو منتقل کردیا جائے گا-

2.2 ۔حکومتی سطح پر اسلامی ادارتی استحکام  کے لئے مجوزہ اقدامات

ایم ایم اے  وعدہ کرتی ہے کہ

  • اس کے پارلیمانی نمائندئے اقتدار  مساجد و مدارس کے قیام اور فروغ کئے لئے قانونی اور دستوری جدوجہد کریں گے اور ایم ایم اے  اپنے نمائندوں کا احتساب بھی  اس بنیاد پر کرے گی کہ اس کے پارلیمانی نمائندئے مساجد و مدارس کو کس حد تک بااختیار بنانے  میں کامیاب ہوئے-

3۔ ثقافت

3.1۔رد فواحش

ایم ایم اے رد فواحش کے ضمن میں  مندرجہ ذیل مربوط قانون سازی اور اس کے نفاذ کا مطالبہ کرئے گی

  • خواتین کے عریاں مغربی لباس پر پابندی کا مطالبہ کریں گے۔
  • محلہ کی سطح پر امتناع فواحش اور منکر کی کوششوں کی تنظیم سازی
  • حیا سوز شعائر اسلام کے منافی سینما پوسٹر، بل بورڈ، سڑک پر پول سائن، دکانوں و شاپنگ مالز پر مہیا کی گئی تفریحات، عوامی مقامات پر پروگرامز پر پابندی لگوانے کی جدوجہد کرئے گی
  • رد فواحش کے لیے ایم ایم اے حکومت سے مطالبات اور قانونی کاوش کے علاوہ ممبر و محراب سے اور عملی طور پر عوامی مقامات پر مہمات بھی چلائے گی-

3.2۔ جدیدیت پر قد غن

  • انگریزی زبان کی عدالتی، انتظامی، کاروباری اور تعلیمی نظام سے فی الفور معطلی کے لئے ریاستی سطح پر جدوجہد

3.3۔  میڈیا  پالیسی 

  • انگریزی پریس اور میڈیا پر مکمل پابندی کی جدوجہد
  • تمام پریس ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے اسلام مخالف رویوں کی بیخ کنی اور اسلامی ثقافت کی ترویج پر مبنی پالیسی کا اجرءکرنے کی جدوجہد
  • انٹرنیٹ سروس پر کڑی سنسرشپ کا مطالبہ کریں گے۔
  • اسی طرح موبائل فون سروس کی ایسی ازسر نو  ترتیب کرنے کی جدوجہد   جس سے موبائل فون کا استعمال محض ایک  کاروباری اوزار (business tool) کے طور پر محدود کیا جاسکے۔

  4۔ تعلیم

4.1۔  مخلوط تعلیم: 

  • یم ایم اے وعدہ کرتی ہے کہ ہم مخلوط تعلیمی نظام کی معطلی کی قانونی جدو جہد کریں گے
  • ایم ایم اے وعدہ کرتی ہے کہ وہ قانونی جد و جہد کے علاوہ  مخلوط تعلیم کے خلاف ممبر و محراب سے مہم  چلانے کے علاوہ تشہیری مہم بھی چلائے گی-

4.2۔ نصاب

  • ایم ایم اے تعلیمی نصاب سے انگریزی ذریعہ تعلیم کی جگہ قومی زبان کو فروغ کی جدوجہد کرے گی ۔
  • اسکولوں کے نصاب میں مشرف کے دور میں کی گئی تمام تبدیلیوں کو فی الفور منسوخ کردیں گے- اور Human Rights کی تشہیر پر مکمل پابندی لگانے کی جدوجہد کرئے گی ۔
  • ایم ایم اے کے منتخب نمایندئے ، استعماری تعلیمی اسنادی نظام (او لیول، اے لیول وغیرہ) کی فی الفور منسوخی کے لئے اسمبلیوں میں قانون سازی کرئے گی اور عوامی سطح پر ان استعماری نظام تعلیم کے خلاف  ممبر و محراب سے مہم چلائے گی-
  • ایم ایم اے ، اسکولوں اور کالجوں کے نصاب سے اسلام مخالف مواد کے فی الفور اخراج  کو یقینی بنائے گی، اور نصاب میں کسی بھی اسلام مخالف استعماری ردوبدل کی  روک تھام کے لئے قانونی جد و جہد کرئے گی-

4.3۔اسلامی علمیت کا احیاء و ترویج

  • روایتی اسلامی علوم کا احیاء ، مثلا حکماء اور اطباء کی تربیت اور معاشرے میں اس قدیمی موثر طریقہ علاج کے چلن کی کوششیں-
  • ایم ایم اے اس بارے میں ہر سطح پر جدوجہد کرے گی کہ حکومت نے مدارس مساجد کے رجسٹریشن کے سلسلے میں اب تک جو بھی مداخلت کی ہے وہ تمام اقدامات منسوخ معطل کئے جائیں-
  • ایم ایم اے کوشش کرئے گی کہ مدارس میں بین المسالک و بین الفقہی ایک متفقہ نصاب تعلیم وضع کر سکیں-
  • اسلامی علمیت کا ایک وظیفہ یہ بھی ہو گا کہ ہم دور حاضر کے تیکنیکی مسائل کو اسلامی علمیت کے تناظر میں سمو دیں تاکہ اسلامی علمیت(  علم کلام ،تفسیر  تعدیل ، تصوف ، علم حدیث، علم القرآن ) محض وحی سے متعلق  علوم (مزہبیت)  تک محدود نہ رہے بلکہ وہ  آج کل کے تیکنیکی مسائل سے ہمارے اسلامی علمی تناظر میں بحث کر سکیں-
  • ہم اپنے اسلامی تعلیمی اداروں میں جدید سرمایہ دارانہ علوم پر محاکمہ کے ماہر پیدا کریں گے تاکہ وہ ممبر و محراب سے سرمایہ دارانہ تصادات و نقصانات کے بارئے میں عوام کو آگاہ کر سکیں-

4.4 اعلی تعلیم کے قومی ادارے ایچ ای سی کا خاتمہ اور تمام بیرونی الحاق یافتہ تعلیمی پروگرامز پر پابندی

  • ہم ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی برطرفی کا مطالبہ کریں گے کیوں کہ اس ادارے نے ہمارے اعلیٰ تعلیمی نظام کو استعماری اہداف کے حصول کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
  • جن تعلیمی اداروں میں امریکہ /مغرب کے لیے خام مال (افرادی قوت) تیار کی جاتی ہے، مثلا آغا خان یونیورسٹی ، غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ وغیرہ، ان  کے نصاب کو قومی ضرورت کو مد نظر رکھ کر از سر نو ترتیب دینا کا کام شروع  کریں گے-
  • ایم ایم اے تمام اعلی تعلمی ادارروں  بشمول سماجی کاروباری  تعلیم و انجینئرنگ  یونیورسٹیوں   Social) sciences, Business schools, Engineering Technology ) کے  نصاب کو ملکی ضروریات اور مقاصد شریعت  سے ہم آہنگ کرنےکے لئے مربوط  تحقیق  اور قانون سازی   کرئے گی-
  • ایم ایم اے حکومت سے یہ مطالبہ کرئے گی اور اس تحقیق کو فروغ دے گی جس کے تحت    اسلامی طرز معاشرت  کو فروغ دیا جاسکے، اسلامی زندگی کی ضروریات کے ماہرین پیدا ہوں،  جو  اسلامی طرز  رہائش و  بود باش ،  آمد و رفت اور شہروں کا چھوٹا ہونا وغیرہ جیسے اسلامی مسائل کے  حل تجویز کر سکیں-
  • تیکنیکی تعلیم کو مقاصد شریعیہ کے تابع کریں گے –
  • ایم ایم اے خود اپنے مدارس میں کوشش کرے گی کہ ایسے تیکنیکی ماہرین پیدا کریں جو کمپیوٹر سافٹ وئیر کے ذریعے رد فواحش،  جیسے بہت سے اسلامی مقاصد پر تحقیق کر کے اس کام میں خود کفالت حاصل کر سکیں-

5۔ اسلامی معاشرت کا دفاع و  ترویج:

5.1۔ خاندا نی، برادری اور قبائلی نظام کا فروغ

  • ایم ایم اے پورے ملک میں بسنے والی تمام برادریوں قبیلوں خاندانوں کو معاشرتی اور ریاستی ذمہ داریاں سونپنے کی جدوجہد کرے گی ۔
  • ایم ایم اے برادریوں قبائل و خاندانوں کے بزرگوں پر مشتمل کمیٹیاں قایم کرئے گی جن میں قیادت بزرگوں کے ہاتھ میں ہو گی
  • ایم ایم اے حکومت سے مطالبہ کرئے گی کہ وہ قبائلی و بردریوں کی مقامی زندگی، رسم و رواج اور فیصلہ سازی کی کسی روایت و فورمز پر اثر انداز نہ ہو ، ان قبائل و برادریوں کے جو بھی ادارے اور فورمز ہیں ان کو قانونی تخفظ فراہم کیا جائے – اور اب تک اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے کی گئی تمام مداخلت کالعدم  قرار دی جائیں  –

5.2۔ شادی بیاہ کے بوجھ کوغریب آدمی پر سے کم کرنے اور شادی بیاہ میں ہونے والی معاشرتی برائیوں  کے سددباب کے لیے مندرجہ ذیک اقدامات

  • نکاح کو ہر مرد و زن کے لیے آسان بنانے کے لیے ایسے اقدامات  جن میں مساجد کی سظح پر support fund  کا قیام
  • کم عمر میں نکاح کی تبلیغ اور ۱۸سال سے کم پر لگائی گئی پابندی کی فی الفور منسوخی
  • ایم ایم اے عائلی قوانین کاخاتمہ کی جدوجہد کرئے گی
  • ایم ایم اے حکومت کی طرف سے شادی بیاہ کی عمر کے تعین سے متعلق کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرئے گی اور اب تک اس سلسلے میں کی گئی تمام قانون سازی کی معطلی کے لئے جد ع جہد کرئے گی-
  • ایم ایم اے حقوق نسواں بل کی منسوخی کے لئے جد و جہد کرئے گی-

5.3۔تمام این جی اوز کی بیرونی امداد کو فوری  طور پر غیر قانونی قرار دیا جائے گا-

  • ایم ایم اے اسلامی این جی اوز کا فروغ اور اسلامی دعوتی کام کو اسلامی رفاعی کام سے منسلک کرئے گی

5.4۔ماحولیاتی خرابیوں کا تدارک

  • ایم ایم اے ماحولیاتی تنزل سے پیدا ہونے والے خطرات – غذائی قلت، پانی کی کمی، قحط سالی اور طوفان – سے نبردآزما ہونے کے لیے کمیونٹی کی سطح پر مندرجہ ذیل اقتصادی اقدامات(Projects) کا بیڑہ اٹھائے گی اور ان اقدامات کے لئے درکار وسائل کے حصول کے لئے حکومت سے بھی مطالبات کرے گی-  (ان  اقدامات کو  لاطینی امریکہ میں سرکاری سرپرستی کے بغیر استعمار مخالف تحرک پر کامیابی سے کمیونٹی کی سطح پر شروع کرنے سے متعلق کی مثالوں سے استفادہ کیا جائے گا)
  • Deep damsاپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے ڈیمز کی تعمیر اور ان سے مقامی آبادیوں کو سستی بجلی کی ترسیل
  • کوئلے اور تیل کی صنعت کی کارفرمائی اور پھیلاؤ کی روک تھام کے اقدامات
  • نجی مواصلاتی نظام کی کارفرمائی بالخصوص فضائی مواصلات پر مزاحمت اور پبلک مواصلات کی حوصلہ افزائی
  • جنگلات کی کٹائی کی مخالفت
  • ایسے متبادل توانائی بالخصوص شمسی توانائی کی تنصیبات کی تعمیر جو عوام خود چلا سکیں۔
  • آبی اور توانائی کے وسائل کی نج کاری کی مخالفت اور ان وسائل کو کمیونٹی کی سطح پر کنٹرول کرنے کی منصوبہ سازی

5.5۔ صحت عامہ

  • ایسے اداروں کی سرکاری و غیر سرکاری سرپرستی جو جدید ادویات کے متوازی ہر مرض کا ہربل HERBAL علاج تجویز کریں-
  • مشرقی طب، و ایوویدرک اور حکماء کی تربیت کے منظم اداروں کا قیام اور ان علوم میں تحقیق کو فروغ
  • غذا سے علاج کی ترویج

6۔معاشی اصلاحات :

6.1۔ حلال کاروبار کی حوصلہ افزائی تاکہ معاشرے میں خود انحصاری کی روش پروان چڑھے-

  • کاروبار کے لئے محلے کی سظح پر بلا سود قرضوں کا اجرء، جس کا انتظام بین المسالک مساجد ومدارس کی ذمہ داری ہو گی-
  • ان مراکز میں کاروبارکی تربیت دی جائے گی اور کاروباری ماڈلز بنائے جایئں گے-
  • ان مراکز سے ہنر مندی کی تعلیم بھی دی جائے گی –

6.2۔اسلامی اوقاف کی ترویج

  • ایم ایم اے محلہ اور بازار کی سطح پر تمویلی مشارکت کا نظام قائم کرے گی جس میں چھوٹے کاروبار کے لئے کاروبار میں بڑھوتری کے مواقع فراہم ہوں گے-

6.3۔ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ

  • ایم ایم اے اس سلسلے میں قانون سازی کے لئے جد و جہد کرئے گی اور عوامی سطح پر  دباو بڑھائے گی کہ” انگریز کے دور سے اب تک تمام حربی قبضہ شدہ (بخشش کی گئی اور ضبطی ) زمینیں ان کے کاشتکار وں میں تقسیم کر دی جایئں”-

6.4۔ سرمایہ داری اور استعماریت سے نجات کے لئے ایم ایم اے مندرجہ ذیل اقدامات کا وعدہ کرتی ہے ،

  • تمام بینکوں اور (non-banking financial institutions) کو فی الفور قومی تحویل میں لیا جائے
  • سود کے بازار (Money market) کی فی الفور منسوخی
  • (market based monetary policy) کی منسوخی اور کریڈٹ پلاننگ کے نظام کااجرا
  • ان تمام حکومتی اندرونی قرضوں کی منسوخی جو بینکوں بہ شمول اسٹیٹ بینک سے لیے گئے ہیں۔
  • دیگر تمام سرکاری اندرونی قرضوں کی مضاربت اور مشارکت معاہدوں کی بنیاد پر ترتیب نو جہاں پہ ممکن نہ ہووہاں جی ڈی پی کی رفتار نمو کے حساب سے منافع کی ادائیگی کی جائے گی او راصل رقم جلد از جلد واپس کی جائے گی۔
  • نئے بیرونی قرضے نہیں لیے جائیں گے اور اندرونی سرکاری قرضہ صرف مشارکت اور مضاربت کی بنیاد پر لیے جائیں گے۔
  • ان تمام صنعتی اور تجارتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے گا جو ١٩٧٧ء کے بعد پرائیویٹائز کیے گئے۔
  • بین الاقوامی تجارت اور بین الاقوامی ترسیلات زر پر کیپٹل کنٹرول کا اجرا اور فکسڈ ایکسچینج ریٹ نظام کا نفاذ
  • بڑی بڑی ہاہپر اسٹار اور سپر مارکٹوں کے حجم کو کم سے کم رکھنے کے لیے قانون سازی تاکہ گلی محلے کے چھؤٹے دکاندار کو تحفظ دیا جا سکے-

6.5۔ محلہ اور قومی سظح پر قیمتوں کاتعین  اور  استحکام :

  • منڈی سے بازار تک سستی اور آسان رسائی کے ذرائع وضع کرنا جن سے منافع غیر پیداواری ہاتھوں (آڑہتیوں، بروکروں) کے بجائے پیداواری یونٹ اور کسان یا صارف تک پہنچے-
  • محلہ کی سطح پر بحیثیت محتسب بازار میں قیمتوں کا تعین، مکانات کے کرایہ اور اسکول کی فیسوں کے نظام کی نگرانی
  • تمام سرکاری اور نجی اداروں میں تنخواہ ١٥٠٠٠ روپے سے ١٠٠٠٠٠ روپے تک متعین (بشمول غیرمالی مراعات perks) کیا جائے گا لیکن اس نظام کو قیمتوں (CPI) کے انڈیکس سے منسلک کیا جائے گا۔
  • پیاز ، تیل ۔ مکانات کے کرائے اور آلو کی قیمتوں کا حکومت کے ذریعہ سے تعین کیا جائے گا-

6.6۔ غیر ملکی قرضوں کی منسوخی یا بر    اءت

  • تمام حکومتی بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں کی منسوخی اور ان قرضوں کی (repudiation)

6.7 ۔بیرون ملک سرمایہ کاری پر پابندی

6.8 ۔اصراف اور  تعیش  کی روک تھام   کے لیے معاشی اصلاحات:

6.9۔ مزدور سے متعلق پالیسی :

  • ہر تجارتی، صنعتی، زرعی اور انتظامی ادارہ کی مینجمنٹ مزدور نمایندوں کی شرکت اور سرمایہ دارانہ ملکیت کی بتدریج تحلیل

7۔عدلیہ (Judiciary)

7.1۔ شریعہ  حدود کا  نفاذ اور تعزیرات کا اجراء

  • شریعت کی وضع کردہ حدود کے فی الفور نفاذ کی جدو جہد کی جائے گی-
  • اس ضمن میں سب سے اہم او رسہل الحصول اقدام موجودہ دستور کی اسلامی دفعات اور رائج اسلامی قوانین مثلاً حدود آرڈی نینس، (Blasphemy Laws) ، دفعات ٦٢، ٦٣ وغیرہ کا تحفظ ہے۔ ہم ان دستوری دفعات اور قوانین کے عملی نفاذ مثلاً حدود کے اجرا، شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سزائے موت وغیرہ کا مطالبہ کریں گے۔

7.2اسلامی نظریاتی کونسل (جو کہ متفقہ طور پر جید علماء پر مشتمل ہو گی)         کی اب تک کی کی گئی اور آئندہ کی جانے والی  سفارشات کا عملی نفاذ کے لیے جدوجہد-

  • ہر طرح کی قانون سازی (چاہے وہ سینٹ سے منظور شدہ ہو یا قومی اسمبلی سے یا صدارتی حکم نامہ ہو) کو اسلامی نظریاتی کونسل سے منظور ہونا   (endorsement)   لازمی ہو گا-

7.3 وفاقی شرعی عدالت کو پاکستان کی تمام عدالتوں پر فوقیت ہو گی اور ہائی کورٹ ، سپریم کورٹ ، وغیرہ اس کی ماتحتی میں کام کریں گی-

 

  • سپریم کورٹ و ماتحت عدالتوں کے کسی بھی فیصلے کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا- جبکہ شرعی عدالت کے کسی فیصلے کو ماتحت عدالتوں میں   تبدیل   نہیں کر سکیں  گی-   
  • مقامی ، ضلعی ، اور صوبائی شرعی عدالتوں کا قیام

7.4جرگوں اور برادریوں کے عدلاتی نظام کی اسلامی بنیادوں پر ترویج –

7.5۔تعزیراتی اور شخصی    (person ) قوانین کو اسلامی شرعی بنیادوں پر استوار کرنا-

7.6 اسلامی نظریاتی کونسل ،بین المسالک وفاق المدارس مقرر کرے گی

 7.7 فاٹا  میں فی الفور شریعت کا نفاذ

8۔انتظامی اہداف:

8.1۔ایم ایم اے سرکاری اجارہ داری کے مقابلے پر انقلابی رضاکاروں کی صف بندی کرئے گی  اور سرکاری کام کی نگرانی  کرئے گی-ہر محکمہ میں اسلامی نگراں مقرر کئے جائیں گے جو علماء ہوں گے ۔

8.2۔سرکار کی انتظامی پیچیدگیوں میں کمی کی جائے گی

  • تمام سرکاری محکموں کے ملازمین کی جانچ پڑتال اور جو ملازمین بیرونی حکومتوں کے آلہ کار پائے جائیں ان کی فی الفور نکاسی

9۔عسکری تنظیم :

9.1۔ایم ایم اے ہر پاکستانی کے لئے لازمی فوجی تربیت  کا قانون بنوائے گی –

  • پاک فوج کے ماتحت ،عوامی فوج کی تشکیل، جس میں ہر 18 سال سے بڑی عمر کے پاکستانی مرد کو لازمی فوجی تربیت دے کر باقاعدہ فوج کا حصہ بنایا جائے گا-یہ ہماری فوج کا بیک اپ یونٹ ہو گا- کسی بھی جارح کو ہمارئے ملک کو مکمل فتح کرنے کیلئے اس عوامی فوج سے گلی کوچوں میں لڑنا ہو گا-    

10۔خارجہ پالیسی :

10.1۔کشمیر  میں اسلامی  جدوجہد کی  عملی حمایت

10.2۔ایران اور ترکی سے تعلقات کو مزید استوار کیا جائے گا اور دفاعی اتحاد تشکیل دیا جائے گا- ان ممالک کے ساتھ تجارتی اتحاد قائم کر کے ایک تجارتی اکائی تشکیل دی جائی گی-

  • ایم ایم اے ملک کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لئے ترکی اور ایران سے کنفڈریشن پر کام کرئے گی تاکہ کسی بھی جارح کی بیرونی یلغار کے خلاف ملک کی    Strategic depth بڑھائی جا سکے-     

10.4۔ چائنا  سے تعلقات

  • چائنا سے تعلقات کا اسلامی تناظر میں از سر نو جائزہ –
  • اس جائزہ میں اولیت ملک کے اسلامی تشخص  ، ملکی سلامتی اور ملکی پیداواری صنعت کے تحفظ کو دی جائے گی،  تاکہ موجودہ روش کا ازالہ ہو، جس روش نے ملک کی سلامتی کو داو پر لگا دیا ہے- اس روش سے نہ ہمارااسلامی تشخص محفوظ رہے گا اور نہ ہی ہماری خود مختاری و خود انحصاری- 
  • چین سے تعلقات کو چین میں بسنے والی مسلمان آبادی کے تحفظ سے منسلک کیا جائے گا-  
  • CPEC کے تمام منصوبوں کی عوامی تشہیر اور عوامی جانچ پڑتال کے بعد CPECمعاہدوں کی ترتیب نو

10.6۔بیرون ملک ہجرت  سے متعلق قوانین کا ازسر نو جائزہ اور ایسی پالیسی کا اجراء جس سے ملک کی قیمتی تربیت یافتہ  افرادی قوت کے اخراج کو روکا جا سکے-

  • تمام استعماری اداروں USAID, DFID, CIDA, DAIVIDA وغیرہ کا فی الفور اخراج

دیکھو میرے یارو دیکھو تم پر یہ الزام نہ آئے

ایم ایم اے کا ساتھ نہ دیکر اپنے  نبی ﷺ          کے کام نہ آئے


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16