مخلصین دین پر اللہ کا خاص احسان اور کرم ہے کہ ایم ایم اے کے احیاء کا مبارک مرحلہ بخیر وخوبی عبورکرلیا گیا ۔

ایم ایم اے کے احیاء  میں جماعت اسلامی کی قیادت نے جو فعال اور مثبت کردار ادا کیا ہے وہ قابل صدتحسین ہے اور جماعت کے ہرکارکن اور ہمدردکوا س فیصلہ کو کھلے دل سے قبول کرکے ایم ایم اے کی مقبولیت کو فروغ دینے کے لئے بھرپور جدوجہدکرنی چاہئے۔

  • اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کے دلوں میں جمعیت علمائے اسلام اور مولانا فضل الرحمٰن  کے لیےجو بھی کدورتیں ہیں ان کو شیطان کا وسوسہ سمجھ کررد کرنا چاہئے اور یہ باور کرنا چاہئے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ایک دوسرے کی فطری حلیف ہیں، کیونکہ جمعیت علماء اسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی فکر  اتحاد بین المسلین اور دیوبندی مکتبہ فکر کی نمائندہ جماعت ہے اور جمعیت علماء اسلام جو بھی پالیسیاں اختیار کرتی ہے ان کا مقصد مساجد اور مدارس اور اسلامی نظام تعلیم کا تحفظ اور دفاع ہی ہوتا ہے ۔
  • اپنے دسمبر کے اجلاس میں ایم ایم اے نے دونہایت اہم اور بالکل درست فیصلے کئے ،ایک یہ کہ ایم ایم اے ایک مشترکہ نشان اور مشترکہ منشور پر الیکشن لڑے گی ۔ہماری قیادت نے ترازو کے نشان پر اسرار نہ کرکے اپنے ایثار ،کشادہ  دلی اور بلند حوصلگی کا جو عملی ثبوت دیا وہ قابل صد تحسین ہے
  • جماعت اور جمعیت نےصوبائی اور مرکزی حکومتوں سے الگ ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بھی قابل صد تحسین ہےاس سےبھی تحریکات تحفظ وغلبہ دین کا انشاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔
  • ایم ایم اے کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم 2018 کے انتخابات اس ہی جذباتی تناظر میں لڑیں جیسے ہم نےجہاد افغانستان کی برکت کا سہارا لیکر  2002ء کے انتخابات لڑے   تھے۔
  • خوش قسمتی سے اللہ سبحانہ نے اسلامی جذباتیت کو عوامی سطح پر فروغ دینے کے امکانات پیدا فرمادیئے ہیں یہ امکانات تحریک لبیک یارسول اللہﷺ کے عدیم المثال کامیاب احتجاج سے پیدا ہوئے ہیں اور ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ جو جذباتیت نومبر میں ابھرکرآئی ہے اس کو کس طرح دوام دیا جائے اور 2018 کے انتخابات ایسے ہی جذباتی تناظر میں لڑئے جائیں۔یہ ہدف حاصل کرنا ہےتو  دوا قدام ناگزیر ہیں۔
  1. ایک یہ کہ ایم ایم اے کا سیاسی تشخص خالصتاً اسلامی ہواور انتخابی مہم کا محور تمام دہریہ جماعتوں ،مسلم لیگ،تحریک انصاف،پیپلزپارٹی ،اے این پی وغیرہ کے اسلام دشمن اقدامات کو اجاگر کرنے پر مرکوز ہوں ۔ہماری انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ”اسلام خطرہ میں ہے” ناموس رسالت پر جان بھی قربان ہے “ہو اور ایم ایم اے کا منشور عام آدمی کے لئے قابل فہم ہو مختصر ہو اس میں اصحاب دانش (intellectuals) سے  بالکل تخاطب نہ کیاجائے اور ہمارے منشور او ردہریہ جماعتوں کے منشوروں میں کوئی ادانٰی سے ادانٰی مماثلت  بھی نہ ہو،سوشل ڈیموکریٹ اور مسلم قوم پرستانہ وعدوں سے مطلقا” پرہیز کیا جائے -سرمایہ دار حقوق کی فراہمی کے دعوے ایم ایم اے کی اسلامی شناخت کو بری طرح مجروح کر دیں گے ۔
  2. دوسری ضرورت ایم ایم اے میں تحریک لبیک یارسول اللہﷺ کی شرکت اور کم از کم پنجاب میں اس کی قیادت کو استحکام اور فروغ دینا لازم ہے ۔ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ جی عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے بعد ایک بار پھر علامہ خادم حسین رضوی دامت برکاتہ کی صورت میں ایک مقبول عام عوامی قائد عطاء فرمایا ہے آپ کسی دنیاوی غرض کی بنیاد پر سیاسی میدان میں نہیں اترے ہیں، آپ ایک جید عالم اور بلند پایا صوفی ہونے کے باوجود ایک خالص عوامی آدمی ہیں، آپ عوام کی زبان بولتے ہیں اور آپ کی شخصی  مقناطیسیت  کے نتیجہ میں خدا مست فقیروں کا ایک ایسے مجمع وجود میں آیا ہے جو مسلمانوں کے دلوں پر دستک دے رہاہے

ان فقیروں سے دوستی کرلو

گرسیکھا دینگے بادشاہی کے

  • بریلوی اور دیوبندی جماعتوں کو قریب لانا جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے 2018ء کی انتخابی مہم ایک نادر موقع فراہم کرتی ہے جس میں جماعت اسلامی تحریک تحفظ اور غلبہ دین کی رابطہ کی جماعت بن کر ابھرے ہمارے محبوب مرشد مولانا مودودیؒ کے دوبنیادی اجتہادات ،
  • اسلام ایک مکمل نظام دین ہے
  • اور مغرب جاہلیت خالصہ ہے

وہ نظریاتی محور فراہم کرسکتے ہیں جن کے اردگرد تمام اسلامی مکاتب فکر ،بریلوی ،دیوبندی ،شیعہ ،اہل حدیث اپنے تمام تر فقہی اختلافات کے باوجود ایک سیاسی اور انتظامی تزویرانی حکمت عملی تشکیل دے سکتے ہیں -ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اسلامی اپنی بین النظریاتی حیثیت کو اجاگر کرے اور مولانا مودودی ؒ کے ان دواساسی اجتہادات کی بنیاد پر تمام مکاتب فکر میں اشتراک عمل کے لئے راہ ہموار کرے اور اس مشکل کام کو اپنی تزویرانی حکمت عملی(strategic planning) میں اولین اہمیت دے  تاکہ اس انتخابی مہم کے ذریعہ تمام  مکاتیب فکر مولانا مودودیؒ کے ان دوبنیادی اجتہادات  اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور مغرب جاہلیت خالصہ ہے کو اپنے نظریاتی موقف کے طور پر قبول کرلیں اور اس بات کو پہچاننے لگیں کہ جماعت اسلامی وہ رابطہ کی کڑی   ہے جو تمام تحریکات تحفظ اور غلبہ دین کو ایک لڑی میں پڑونے کے لئے جدوجہد کررہی ہے ۔

  • دہریہ سیاسی قوتوں کی شدید خواہش ہے کہ ایم ایم اے کے خلاف دیگر اسلامی جماعتوں کے ایک سے ایک سے زیادہ محاذ کھل جائیں، اس لیے انہوں نے  پرانے سیاستدانوں اور جاگیر داروں کے ذریعہ تحریک لبیک کے اندر اور بریلوی صفوں میں بلعموم انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے ہمیں جمعیت علماء اسلام پاکستان سے التماس کرنا چاہئے کہ بریلوی انتشار کو دور  کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادے اور سرحد میں مولانا سمیع الحق سے ہمیں خود کےتحریک انصاف سے انتخابی الحاق کے ضررکو واضح کرنا چاہئے اور ایم ایم اے کے دروازہ تمام راسخ العقیدہ اسلامی جماعتوں کے لئے کھلے رہنا چاہیئں۔
  • یہ بھی ضروری ہے کہ ایم ایم اے کا اتحاد محض بالائی سطح پر نہ ہو بلکہ اس اتحاد کو ایک معاشرتی اور مذہبی شکل دی جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابی مہم مساجد اور مدارس کے ذریعہ منظم کی جائے ۔
  • ایم ایم اے کے الیکشن آفس محلوں کی مساجد میں قائم کئے جائیں آئمہ مساجد کو سیاسی رہنماؤں کے طورپر سامنے لایا جائے اور بین المسالک مساجد کے  وفاق کو قائم کیا جائے اور فعال بنایا جائے انتخابات میں انشاء اللہ کامیابی کے بعد ہم انہیں بین المسالک مساجد کے وفاقوں کی طرف اہم ریاستی اقتدار منتقل کرنے کی جدوجہد کرینگے تاکہ اسلامی ریاستی نظام کی بنیادیں تعمیر کی جاسکیں۔
  • اگر ایم ایم اے مساجد اور مدارس کی سطح پر انتخابی مہم کو منظم ،مرتکز اور فعال بنانے میں کامیاب ہوگئی تو غیر سیاسی اسلامی جماعتوں ،بلخصوص تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا انتخابی مہم سے لاتعلق رہنا مشکل ہوجائے گا اور یہ بچکانہ دلیل کے انتخابی عمل کے ذریعہ تحفظ دین اور غلبہ دین کا فریضہ انجا م نہیں دیا جاسکتا بلکل بے اثر اور لایعنی ثابت ہوجائیگا- غیر سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم میں ایم ایم اے کی پشتی بانی پر آمادہ کرنے کے لئے، ایم ایم اے میں شامل تمام جماعتیں انشاء اللہ جماعت اسلامی کے اس لٹریچرسے ضرور فائدہ  اٹھائیں گی، جس میں سیاسی جدوجہد کو دینی جدوجہد کے جزو کے طورپر فروغ دینے کے حوالے سے مواد موجود ہے-
  • جماعت اسلامی علماء کی خادم اور تحریکات تحفظ دین ور غلبہ دین کی فطری رابطہ کی جماعت ہے ایم ایم اے کی توسیع اور کامیابی کی ذمہ داری اس ہی پر آتی ہے- اتحاد امت کو فروغ دینا جماعت اسلامی کا اہم ترین مقصد ہے اور ہم اس کے لئے پچھلے 77سال سے مستقل جدوجہد کررہے ہیں، ہم ایم ایم اے کو کامیاب بنانے کے لئے بھر پور اور انتھک محنت کریں گے اور اس راہ میں ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہیں گے انشاء اللہ

Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16