ہمیں اپنے بلاگ کے حوالے سے کچھ بھائیوں کی طرف سے اعتراض ملا ہے کہ گو کہ اس گروپ کا جماعت اسلامی سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں لیکن اس نے اپنا نام” ْْفکرمودودی” رکھا ہے جو غلط فہمیاں پیدا کرنے کا  باعث ہے بلخصوص اس وجہ سے کہ اس فکر مودودیؒ website  پر دیئے گئے مضامین جماعت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں

لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنی(Position)  واضح کریں۔

ان حضرات کی یہ بات بالکل درست ہے کہ فکر مودودیؒ گروپ کی جماعت اسلامی پاکستان سے کوئی دستوری وابستگی نہیں۔لیکن اس گروپ کے لکھنے والے جماعت اسلامی کے مخلص حمایتی ہیں۔ان کی رائے میں اس وقت جماعت نے جو پالیسیاں اختیار کی ہوئی ہیں وہ اس کے انحطاط  کا باعث ہو بن رہی ہیں بالکل  ایسے جیسے احرار کے ساتھ 1940ء کی دہائی میں ہوا۔

جماعت کی پالیسی سازی میں بنیادی خرابی اس میں جدیدیت (Modernization)کا رحجان ہے اس (Modernization)کا سب سے واضح اظہار جماعت کی سیاست ہے  آج جماعت کا سیاسی ایجنڈہ اسلامی سیاست کی ایک (Social democratic) اور قوم پرستانہ تعبیر پیش کرتا ہے ۔اس کا سب سے واضح اظہار 2013ء کے انتخابی منشور میں کیا گیا اور پچھلے چار سالوں میں ہم نے انتخابات اسی  (Social democratic)  اور قوم پرستانہ ایجنڈہ پر لڑے ہیں – 

پالیسی سازی کی (Modernization )کے اس عمل کے دونہایت مضر نتائج سامنے آرہے ہیں،ایک تو یہ کہ جماعت سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہوتی جارہی ہے- ہم چار سال سے صوبہ پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت میں شریک ہیں اور اس حکومت کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے جناب سراج الحق صاحب  اور  جناب مظفر سید (جماعت کے نمائندہ وزیر خزانہ کے پی کے) دونوں نے حکومتی سودی کاروبار کیا دونوں استعماری امدادی اداروں سے امداد مانگتے رہے ۔آج ہم کس منہ سے سودی معیشت اور استعماری قرضہ جات کی مخالفت کرتے ہیں؟  (Modernization) کی دوسری خرابی یہ ہے کہ جماعت کا اسلامی تشخص شدید خطرہ میں ہے ۔ظاہر ہے کہ کوئی جماعت  (Social democratic)  اور قوم پرست ایجنڈہ اپنائے گی  تو وہ اہل دین کی نظر میں مشکوک سے مشکوک ترہوتی چلی گی اور اس جماعت کا اندرونی کلچر بھی (Secular) ہوتا چلا جا رہا ہے ، آج ہم نے پھر سے نوجوانوں کی ایک آزادتنظیم بنائی ہے جسے (JI Youth) کہتے ہیں جو خالصتاً سیکولر اور سیاسی ہے جیسے پاسبان تھی ،  ہمارا پریس بلخصوص ‘فرائیڈے اسپیشل’ معروف دہریوں ، جیسے ڈاکٹر منظور احمد اور شہید ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم،   ممتاز قادری کے عدالتی قتل نامہ کی منظوری دینے والے صدر ممنون حسین کے توصیفی خاکے چھاپ رہاہے ۔ہماری تقریبات میں شعائر ِاسلامی کو مجروح کیا جارہا ہے- 

1957ء کے ماچھی گوٹھ کے سانحہ سے جماعت بتدریج ایک (Centralist Democratic Party ) سینٹرل ڈیموکریٹک پارٹی میں تبدیل ہو رہی ہے،  اس کی دستوری  جکڑ بندیوں نے اظہار رائے کے عمل کو ایسا مجروح کیا ہے کہ جماعت کے اندر نظریاتی اور  تزویراتی  (strategic) بحثیں بالکل معدوم ہوکر رہ گئی ہیں جماعت کی پارٹی لائن (  Party line) اس کی (Politburo) شوری  مرتب کرتی ہے اور مرکزی پالیس سازی کے اس عمل سےایک عام کارکن ادارتی طور پر بہت دور ہے-ایک عام کارکن کی رائے اتنے ادارتی مدراج سے گزرتی  ہوئے اوپر تک پہنچتی ہے کہ وہ عملاً مرکزی پالیسی سازی کے عمل میں بالکل بے اثر ثابت ہوتی ہے – اجتماع عام اور اجتماع کارکنان کی کوئی تحکیمی  (enforcing) حیثیت نہیں یہ بالکل نمائشی حیثیت اختیار کرگئے ہیں وہاں شوری کی مرتب کردہ پالیسیوں پر با ضابطہ بحث اور رائے شماری کا کوئی نظام موجود نہیں ہوتا شوری کے مباحث تک عام کارکن اور حمایتی کی کوئی رسائی نہیں ہے-

شوری کے مبا حث میں جو اختلافی اراء پیش کی جاتی ہیں وہ اجتماعات کارکنان اور اجتماعات عام میں پیش نہیں کی جاتی ہیں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ شوری کی ہر پالیسی پر مکمل اتفاق رائے(Consensus) پایا جاتا ہے۔

 اجتماع ارکان میں پیش کردہ آراء منظم طور پر (Intra party dialogue )  کا ذریعہ نہیں بنتی – 

ہمارا پریس ( Pravda  )اور ( (People’s daily کا چربہ بن کے رہ گیا ہے ، یہ محض قیادت کا (   Apologetic )ترجمان ہے ہم نے سالہا سال کوشش کی کہ اس پریس کے ذریعہ جماعت کی سیاسی ناکامیوں،  نظریاتی اور تنظیمی انجماد اور معاشرتی اجنبیت (Isolation) پر گفتگو کا آغاز کریں لیکن اس پریس نے ہماری تحریروں کو یا تو بالکل نظر انداز کیا یا ایسا توڑمروڑ کر (   Yellow journalism )کی شکل میں اس طرح سے پیش کیا کہ اس کا مقصد ہی خبط ہوگیا ۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تنظیمی ڈھانچہ کے حوالے   جماعت اسلامی کی ہیت  ایک کیمونسٹ پارٹی  کی سی ہو گئی  ہے یہ تنظیمی ڈھانچہ پوری دنیا میں ناکام ثابت ہوا ہے اور روسی و مشرقی و مغربی یورپ میں بالکل تحلیل ہوا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ

 (   Leninist Stalinist democratic centralist parties) اپنے کارکنوں کو مفلوج کردیتی ہیں ایک عام کارکن کی تزویراتی (Strategic)  اور تجربہ و تجزیہ کرنے کی  صلاحتیوں کو سلب کرلیتی ہیں اور کارکنان کی جذباتی زندگی کو بری طرح مجروح کرتی ہیں- 

اس صورت حال کے  نتیجے  میں جماعت پر جو تنقید سامنے آتی ہے وہ ہمدردانہ نہیں مخاصمانہ ہوتی ہے کارکن یا تو سوچنا سمجھنا چھوڑ دیتا ہے اور (  Party line)کااندھا پیروکار بن جاتا ہے یا  دستور کا جبر اس کو خاموش کردیتا ہے اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے یا وہ دلبرداشتہ ہوکر جماعت کا مخالف بن جاتا ہے سرمایہ دارانہ استعمار کا آلہ کار بن کر جماعت پر حملہ آوار ہوجاتا ہے ۔

اس وقت جماعت اسلامی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے وہ تحریک احرار کی داستان بننے والی ہے- جماعت اسلامی کا سقوط پوری امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم سانحہ ثابت ہوگا چونکہ جماعت مولانا مودودیؒ کے ان دوکلیدی اجتہادات کی وارث اور امین ہے جن کی بنیاد پر تحفظ اور غلبہ دین کی تحاریک کو مجتمع کرکے   رمز گاہ ِحیات کے ہر مورچے پر سرمایہ دارانہ استعمار سے چومکھی لڑائی لڑی جاسکتی ہے- یہ دو اجتہادات ، 

۱- اسلام ایک مکمل نظام حیات اور تہذیب (Life world and system) ہے

۲- مغرب جاہلیت خالصہ ہے – 

دور حاضر میں ان دونوں اجتہادات کی تشریح کی اشد ضرورت ہے ان اجتہادات کی عملی تشریح کے بغیر اس بات کا شدید خطرہ موجود ہے کہ اسلام سرمایہ دارانہ طرز اور نظم زندگی میں تحلیل ہوجائے جیسے عیسایت ،یہودیت اور ہندومت تحلیل ہوگی یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی صرف اپنے کارکنوں اور ارکان کی جماعت نہیں ،  ہر وہ شخص اس سے وابستہ ہے جو دین کے تحفظ یا غلبہ کے لئے جدوجہد کررہاہے یہ سنیوں کی بھی جماعت ہے اور شیعیوں کی بھی ، اہل حدیث کی بھی ، دیوبندیوں اور بریلیوں کی بھی یہ مبلغین کی بھی جماعت ہے اور مصلحین کی بھی اور مزکییوں اور صوفیاء کی بھی – اور یہ ہی جہت (Multifacetedness) تحریکات اسلامی کا فطری نظاماتی مرکز اور محور ہے کیونکہ یہ تحفظ اور غلبہ دین کے کام کو مربوط اور منظم کرنے کا عزم رکھتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی منشتر اور مفقود ہو جائے – اپنے اس فطری نظاماتی محور اور مرکز کو محفوظ رکھنا ہر باشعور راسخ القعیدہ مسلمان کی ذمہ داری  ہے،جیسے صوبہ پخونخواہ کے امیر مولانا معین الدین خٹک فرمایاکرتے تھے “یہ جماعت کو چھوڑنے کا نہیں اس کو پکڑنے کا وقت ہے “

فکر مودودیؒ websiteکا مقصد مولانا مودودیؒ کے ان دور کلیدی اجتہادات کہ

   “اسلام ایک مکمل نظام حیات اور تہذیب ہے”، 

   “مغرب جاہلیت خالصہ ہے”، 

کی تشریح پیش کرنا ہے ان اجتہادات کی تشریح لازماً تنقیدی ہوگی کیونکہ اس تشریح کو مرتب کرنے کے  لئے لازماً ان خاموشیوں کو زیر بحث لانا ہوگی جو مولانا مودودیؒ کی فکر میں پائی جاتی ہیں اور جن کی وجہ  سے ہی جماعت اسلا می سرمایہ دارانہ جدیدیت (   Modernism)میں ضم ہوتی جارہی ہے اور اس میں دیگر راسخ العقیدہ دینی گروہوں میں علمی اور عملی فاصلہ  بڑھتے جارہے ہیں۔

جماعت اسلامی میں مولانا مودودیؒ کی (Hagiography) تو بہت ہیں لیکن اس کا ناقد ایک بھی نہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کی فکر ارتقاء پزیر نہیں وہ محض ایک تاریخی ورثہ بنتی جارہی ہے جو جماعت اسلامی میں مقید کررہ گئی ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں فکرمودودی رحمہ کے انطباق کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں – 

ہم مولانا مودودیؒ کے پیرو ہیں ان کے مقلد نہیں ہیں مولانا مودودیؒ متکلم اسلام تھے فقیہ نہیں تھے اور جیسا کہ امام غزالیؒ نے ثا بت کیا ہے کہ علم کلام میں تقلید کی کوئی گنجائش نہیں اس کے معیار حق ہونے کا کیا سوال ، مولانا مودودیؒ کی فکر کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ مطلقاٌ معروضی ( abstract)ہے اور یہ فکر خلفائے راشدین کے بعد کی ۱۳۰۰سالہ اسلامی تاریخ ، اس کی علمیت اور اس کی سیاست سے بالکل سروکار نہیں رکھتی  ، یہ ایک سیاسی فکر ہے جو بلخصوص معروضیت سے بہت متاثر ہے ، آپ خلفائے راشدین کے بعد کی ریاستوں  کو اسلامی طرز اور نظام حکومت نہیں گردانتے -آپ(Montesquieu , lock, اور Jefferson) کے تصورات کی بنیاد  پر (Theo democracy)  کا ایک ریاستی خاکہ مرتب کرتے ہیں جو لبرل  ڈیموکریسی کی  اسلام کاری کو کوشش ہے ، آپ لینن  کی تنظیماتی حکمت عملی کو اختیار کرکے جماعت اسلامی کا ایک ایسا دستوری اور تنظیماتی ڈھانچہ تعمیر کرتے ہیں جو اسلامی ادارتی صف بندی کی روایات کے  لئے بالکل اجبنی ہے اس ادارتی صف بندی کا صوفیاء کی جماعتوں سے کوئی تعلق ہے نہ مجاہدین کی جماعتوں سے ، اس ادارتی صف بندی کو مقدس گردانتے ہوئے ہم غلبہ دین کی جدوجہد کو اپنی ڈیڑھ ہزار سالہ پرانی روایات سے کیسے منسلک کرسکتے ہیں۔

ہم مولانا مودودیؒ کی بنیادی کمزروی کو واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ یہ فکر تاریخ اسلامی کے موثر ترین دھارے (  mainstream )میں سموجائے اور جمہور علماء اس حقیقت کو پہچانیں  کہ مولانا مودودیؒ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی اور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے ایک مخلص پیرواور جانشین ہیں اور آپ کے دوکلیدی اجتہادات

  • اسلام ایک مکمل ضابطہ  حیات اور نظام ہے 
  • مغرب جاہلیت خالصہ ہے

ہی میں ہماری تاریخی سیاسی روایات اور آدرشوں کا تسلسل ممکن ہے ان اجتہادات کی روشنی میں آج کے دور میں اسلامی علمیت اور سیاسی اور سماجی کشمکش کو مرتب کرنا سب کی ذمہ داری ہے ، علماء کی بھی صوفیاء کی بھی مبلغین کی بھی مصلحین کی بھی ،مجاہدین کی بھی ۔

ہم جماعت کے اندر اور اسلامی حلقوں میں عموماً جماعت کی ہمدردانہ تنقیدکی روایات کو زندہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم اس ہمدردانہ تنقیدی روایات کو زندہ کرکے جماعت کے کارکنان اور ارکان کو اس بات پر آمادہ کریں گے کہ ان دستوری جکڑ بندیوں کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں جنہوں نے جماعت کو کمزور  اور معاشرتی طورپر اکیلا کردیا ہے-  حقیقت یہ ہے کہ ان دستوری جکڑ بندیوں کو کوئی جواز نصوص صحیحہ سے نہیں دیاجاسکتا یہ تو

( Centralism Leninist democratic) کا ورثہ ہے ۔ان  دستوری جکڑ بندیوں کے بغیرہی   جماعت تاریخ ِاسلامی سے اپنا ناطہ مستحکم کرسکتی ہے اور تمام اہل دین کو اپنا حمایتی بنانے کی صلاحیت پیدا کرسکتی ہے  ۔

ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

اک طرز تغافل ہے سو وہ تم کو مبارک 

اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے 

سب دن تو نہیں ایک سے ہوتے میرے صیاد 

مانا کہ گرفتار ستم ہم نہ رہیں گے 


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16