ہم جمہوری نظام کو غیراسلامی اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی سیاسی ادارتی صف بندی گردانتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس بات کے قائل ہیں کہ پاکستان میں تمام تحفظ اور غلبہ دین کی تحریکا ت کو متحد ہو کر جمہوری  انتخابات  میں حصہ لینا چاہیے۔ بظاہر ان دو رویوں میں تضاد نظر آتا ہے۔

اس مضمون کا مقصد اس ظاہری تضاد کو رفع کرنا ہے۔ ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ کیوں انتخابات میں شرکت سرمایہ داری اور جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی ایک جائز حکمت عملی ہے جس کو اپنانا پاکستان کے موجودہ حالات میں ناگزیر ہے۔ تحفظ دین کی تحریکوں کے لیے بھی اور غلبہ دین کی تحریکوں کے لیے بھی۔

مضمون کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصہ میںہم ان وجوہات کا اعادہ کریں گے جن کی بنیاد پر ہم جمہوریت کو سرمایہ دارانہ طرز اور نظم زندگی(Capitalist Systems and life world) کا جزو سمجھتے ہیں۔ دوسرے حصے میں ہم سرمایہ داری میں جمہوری عمل کی نوعیت اورحیثیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ آخری حصے میں ہم یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ انتخابی عمل کو سرمایہ دارانہ اقتداری نظام کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کا جزو

مولانا زاہد مغل اور مولانا محمد احمد حافظ نے ہماری کتاب ”اسلام یا جمہوریت” میں تفصیل سے سرمایہ داری اور جمہوریت کے ارتباط پر روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جمہوریت خلافت کی ضد ہے اور اسلامی جمہوریت ایک گمراہ کن تصور ہے۔ مضمون کے اس حصے میں ان علما کے دلائل کی مختصر تلخیص پر اکتفا کروں گا۔ ان حضرات کے دلائل حسب ذیل ہیں۔

  •   جمہوریت میں جس جدوجہد کی گنجایش ہے وہ حقوق کی جدوجہد ہے اور یہ سرمایہ دارانہ حقوق(Human rights) ہیں۔ جمہوری نظام میں خیر کی جدوجہد ممکن نہیں۔
  •   جمہوریت کا مفروضہ یہ ہے کہ خیر صرف بڑھوتری سرمایہ ہے۔ جمہوریت اسلام کو خیر مطلق کے پہچاننے کی گنجایش نہیں رکھتی۔
  •   اسلامی ریاست میں نہ حاکمیت عوام کا تصور جائز ہے نہ سٹیزن شپ کا نہ نمایندگی کا۔ لہٰذا جو ریاست جتنی جمہوری ہو گی اتنی ہی غیراسلامی ہو گی۔
  •    جمہوریت کو قبول کر کے اسلامی جماعتیں سرمایہ دارانہ حقوق کے حصول کی جدوجہد پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
  •    اسلام عوامی رائے کی بنیاد پر حکم لگانے کو جائز نہیں گردانتا۔
  •    جمہوری نظام میں غلبہ دین کے لیے ایثار اور قربانی دینے پر راضی نہیں کیا جا سکتا۔
  •    اسلامی سیاسی جدوجہد علم فقہ سے ماخوذ ہے اور علم فقہ تزکیہ نفس کا ذریعہ نہیں لہٰذا سیاسی جمہوری جدوجہد سے اسلامی انفرادیت سازی ممکن نہیں۔ اس کے حصول کے لیے علم لدنی ہی کارگر ہو سکتا ہے۔
  •    جمہوریت کو تقویت دینے والے ادارے ـبیوروکریسی، عدلیہ، میڈیا وغیرہـغیراقداری نہیں، ان کے ذریعے سرمایہ دارانہ معاشرت، انفرادیت اور نظم اقتدار ہی فروغ پا سکتا ہے۔
  •   جمہوری عمل کی بنیاد پر اسلامی علمیات کو فیصلہسازی کا ماخذ نہیں بنایا جا سکتا۔ (Sharia Constrained) (یعنی مفروضہ اسلامی جمہوریت) اتباع شرع صرف چند مخصوص محرمات تک محدود ہو جاتا ہے۔
  •    جمہوریت ایسا ریاستی ڈھانچہ فراہم نہیں کرتی جہاں مقاصد شریعہ کا حصول ممکن ہو۔
  •    جمہوری نظام کی اپنی علمیات، کونیات اور مابعد الطبیعات ہیں جو سراسر کفر پر مبنی ہیں۔
  •    جمہوریت کبھی کسی مذہبی معاشرے سے وابستہ نہیں رہی بلکہ وہ منکر الہ اور رسول معاشروں کی ایک ریاستی صف بندی ہے۔
  •    انتخابات میں ووٹروں کی روحانی اور اخلاقی حیثیت کو نظرانداز کر کے سب کو مساوی تصور کیا جاتا ہے۔
  •    دستور کتاب اللہ کا بدل بن جاتا ہے۔
  •    جمہوریت سرمایہ دارانہ جبر کو فروغ دیتی ہے۔
  •   حاکمیت عوام کا کوئی تصور اسلام میں موجود نہیں۔
  •    مسلمان مقنن نہیں ہو سکتا۔
  •    جمہوری مشاورت اسلامی اصول ہائے مشاورت کے منافی ہے۔
  •    ووٹ نہ بیعت ہے نہ شہادت۔

ہم ان تمام آراء سے اتفاق کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں جمہوری عمل کی حیثیت

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دلائل کے باوجود اکابر علما اور صوفیہ نے پچھلے سو سال سے انتخابات میں شمولیت کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ انتخابی عمل میںشرکت کو تحفظ دین کا ایک جائز (گو کہ خلاف اولیٰ) ذریعہ سمجھا۔ بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ جمہور علما کو سرمایہ دارانہ طرز اورنظم زندگی (Capitalist Systems and life world) سے کماحقہ واقفیت حاصل نہ تھی۔ ہمارے اکابر نے سرمایہ دارانہ علمیت، انفرادیت، معاشرت اور نظم اقتدار کا ابھی تک عمیق تجزیہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ کم از کم برصغیر میں ہماری جدوجہد بالعموم ردعمل  (reactionary)رہی ہے۔ لیکن اس مدافعتی حکمت عملی کو اپنانے کے نتیجہ میں ہمیں جو فوائد حاصل ہوئے ہیں وہ نہایت وقیع اور دیرپا ہیں اور انہی فوائد کے حصول کے نتیجہ میں ہم آج اس پوزیشن میں ہیں کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرنے کی حکمت عملی مرتب کریں۔

انتخابی نظام سے غیرمتعلق نہ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس رویے کو اختیار کر کے ہم نے برطانوی استعمار اور پاکستانی اور ہندوستانی ریاست کو اس کا موقع نہیں دیا کہ وہ ہمارے علمی اور روحانی نظم معاشرت ویسے ہی کلیةً منہدم کر دے جیسے چینی کمیونسٹوں نے (Hinayana Buddhism)اور (Loa Treism) کو منہدم کیا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں سید بادشاہ، علمائے صادق پور اور حضرت شیخ الہند تحریکات جہاد پسپا ہو گئی تھیں اور ان میں سے کسی بھی تحریک کو مسلم عوام کی تائید اور پشت پناہی حاصل نہ ہو سکی۔ شکست خوردگی کے اس دور میں علمائے بریلی اور دیوبندی انتخابی عمل کو استعمال کر کے پورے ملک میں مساجد، خانقاہوں اور مزارات کا ایسا جال بچھا دیا جس سے آج تک اسلامی انفرادیت، علمیت اور روحانیت فروغ پاتی رہی ہے اور یہ انتخابی عمل میں شمولیت ہی تھی جس نے استعمار کو مجبور کیا کہ وہ اس اسلامی نظم معاشرت کو برداشت کرے۔ حصول آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان میں سیکولر قوم پرست جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ ان دونوں جماعتوں نے اور بعد میں پیپلز پارٹی اور بی جے پی نے اسلامی معاشرت کو کچلنے کا عزم کیا لیکن آج تک وہ اس عزم کو بروئے کار لانے میں بڑی حد تک ناکام ہیں اور اس کی وجہ اسلامی جماعتوں کی انتخابی اور جمہوری عمل میں شرکت ہے۔

انتخابی عمل میں شرکت کا دوسرا بڑا فائدہ اسلامی جذباتیت کو فروغ دینا رہا ہے۔ مطالباتی تحریکیں جمہوری ہی ہوتی ہیں۔ مجرد مطالباتی تحاریک سے سرمایہ دارانہ نظم اقتدار منہدم نہیں ہوتا (جیسا کہ ڈاکٹر اسرار سمجھتے تھے) صرف وقتی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے۔ لیکن اگر مزاحمتی تحریک کو اسلامی اقتداری صف بندی میں سمو لیا جائے تو اس وقتی کمزوری کو دائمی انتشار نظام سرمایہ داری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) ، تحریک تحفظ ناموس رسالت میں ہم نے خالص دینی مطالبات کی بنیاد پر عوام کو متحرک کیا اور سرمایہ دارانہ ریاست کو ان مطالبات کو کسی نہ کسی شکل میں منظور کرنے پر مجبور بھی کیا لیکن ان وقتی کمزوریوں کو دائمی انتشارِ سرمایہ درانہ ریاستی اقتدار کے لیے استعمال نہ کر سکے۔

اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علماکرام اور صوفیہ عظام اور دینی جماعتیں سرمایہ دارانہ طرز اور نظم زندگی(Capitalist Systems and life world)  کی ماہیت سے واقف نہیں۔ ہم اپنی کتاب ”سرمایہ دارانہ عقائد و نظریات” میں سرمانہ دارانہ نظام اقتدار کی ایک مختصر تشریح بیان کر چکے ہیں۔ یہاں صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ اقتدار مندرجہ ذیل اداروں کی کارفرمائی پر قائم ہوتا ہے:

  • کارپوریشن(Corporations)
  • سود اور سٹہ کے مارکیٹ(Financial and Stock Market)میڈیا(Media)
  • انتظامیہ (بیوروکریسی) (Bureaucracy)
  • فوج اور پولیس(Armed Force and police)
  • عدلیہ اور مقننہ(Judiciary and Parliament)

ان سب اداروں کے دائرہ کار جدا ہیں لیکن ان کا مقصد وجود ایک ہی ہے یعنی سرمایہ دارانہ انفرادیت کی تعمیر و فروغ۔ ایک ایسی انفرادیت جو انسان پرستی پر ایمان رکھتی ہے اور جس کی زندگی کا مقصد نفسانی خواہشات کی زیادہ سے زیادہ تکمیل ہوتا ہے (بذریعہ بڑھوتری سرمایہ)

ان اداروں میں مقننہ واحد منتخب ادارہ ہوتا ہے۔ مقننہ کا مقصد وجود دیگر تمام اقتداری اداروں کی سرمایہ دارانہ کارفرمائی کو جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔ انتخابی عمل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ:

ہر سٹیزن(citizen) کی یہ خواہش ہے کہ تمام پالیسی سازی کا مقصد سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔

سٹیزن(citizen) کی اکثریت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کون سی پالیسی اس کی رائے میں سرمایہ دارانہ بڑھوتری کو تیز سے تیز کرنے کے لیے سب سے پسندیدہ اور مقبول ہے۔

سرمایہ دارانہ معاشرت کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ ہر انسان کو سٹیزن نہیں بنا پاتا۔ عموماً ٤٠ سے ٥٠ فی صد رائے دہندگان ووٹ نہیں دیتے۔ یہ نان سٹیزن سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کے جبر کو برداشت کرنے پر تو مجبور ہوتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ ادارتی کارفرمائی کے جواز کو قبول نہیں کرتے۔ مسلم ممالک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو غیرسرمایہ دارانہ مقاصد کے حصول کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔ ١٩٩٠ء  میں الجزائرکے انتخابات میں یہ تعداد رائے دہندگان کی تقریباً ٦٥ فی صد تھی۔ ٢٠١٣ء کے انتخابات میں اسلامی جماعتوں کو ٣٣ لاکھ ووٹ ملے تھے اور اگر اسلامی اتحاد قائم ہو تو دشمن تک کا اندازہ ہے کہ ہماری جماعتوں کو ١٠١٨ء کے انتخابات میں ایک کروڑ کے لگ بھگ ووٹ ملیں گے۔

لہٰذا اس ضمن میں اسلامی جماعتوں کے پاس چار آپشن ہیں۔

         ١۔وہ انتخابی عمل کو نظرانداز کریں جیسے تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی اور بیش تر مدارس

         ٢۔وہ انتخابات کے بائیکاٹ کی عوامی مہم چلائیں۔

         ٣۔وہ سرمایہ دارانہ ایجنڈہ کی اسلام کاری کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیں جیسے ٢٠١٣ء میں کیا تھا۔

         ٤۔وہ انقلابی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لیں یعنی انتخابی عمل کو سرمایہ دارانہ اقتدار کے انہدام کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں۔

انتخابی عمل کا انقلابی استعمال

پہلا آپشن ہماری غیرسیاسی اسلامی جماعتیں اختیار کرتی ہیں اس رویہ کو اختیار کرکے ہم عملاً قوت کے حصول کی جدوجہد سے دست بردار ہو جاتے ہیں اور ہمارے کارکنوں کو معاشرتی سطح پر اقتدار حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ریاستی اقتداری نظام میں مفعول کی حیثیت اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن جب یہ نمازی مسجد سے نکلتے ہیں تو سرمایہ دارانہ اقتدار کی ماتحتی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دائرہ اثر مسجد تک محدود ہو جاتا ہے اور مسجد کے دائرہ کار میں توسیع ناممکن ہو جاتی ہے۔ انتخابی عمل سے لاتعلقی عملاً سرمایہ دارانہ اقتدار کے سامنے سرنگوں ہونے کے مترادف ہے۔ یہ رویہ سرمایہ دارانہ اقتدار کو ناقابل تسخیر تصور کرنے کا ہے۔ ہماری غیرسیاسی دینی جماعتیں دعوہ کرتی ہیں کہ اسلامی علمیت اور انفرادیت کے پھیلائو کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ اقتدار معجزاتی طور پر مسخر ہو جائے گا۔ حصولِ اقتدار کی جدوجہد سے لاتعلقی ہماری بہت اہم کمزوری ہے کیوں کہ ہماری سب سے بڑی اور سب سے زیادہ دینی بنیادوں پر منظم جماعتیں تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی اور سلسلہ ہائے تصوف ہی ہیں۔ اقتدار کی جدوجہد سے کنارہ کشی کر کے ہماری سیاسی جماعتوں کو تنہا چھوڑ دیتی ہیں اور اسلامی سیاسی جدوجہد اپنی بنیادی (constituency) جس کو غیرسیاسی اسلامی جماعتیں منظم کر رہی ہیں ، کی حمایت و تعاون سے محروم ہو جاتی ہے اور اسلامی سیاسی جماعتوں کی یہ محرومی سرمایہ دارانہ اقتدار کو مستحکم کرنے میں ایک نہایت موثر کردار ادا کرتی ہے۔

دوسرا آپشن انتخابات کے بائیکاٹ کا ہے۔ اس کا تجربہ ہم نے ٢٠١٣ء اور ٢٠٠٨ء کی انتخابی مہمات کے دوران کیا اور یہ دونوں تجربات ناکام ثابت ہوئے۔ ہم عوام کو بڑے پیمانہ پر بائیکاٹ کرنے آمادہ نہ کریں گے کیوں کہ جس اقتداری نظام سے ہم انہیں نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اس کا متبادل نظام اقتدار ہم قائم نہ کر سکے۔ سرمایہ دارانہ اقتدار کے خلاف ہماری عسکری جدوجہد بھی اسی وجہ سے کامیاب نہیں ہوتی کہ ہم عوامی سطح پر اقتداری ادارتی صف بندی نہ کر سکے۔ عسکری اسلامی تحریکات جو کامیابی حاصل کرتی ہیں وہ عموماً عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی غیرمحفوظ سرحدوں تک محدود رہتی ہیں۔ یہ تحریکات سرمایہ دارانہ اقتدار کی اساس کو چیلنج نہیں کرتیں اور ایک ایسا سرمایہ دارانہ متبادل نظام اقتدار قائم نہیں کر پاتیں جو وسعت پذیر ہو اور سرمایہ دارانہ اقتدار کے مراکز بالخصوص فنانشل مارکیٹ کو منتشر کر سکے۔ پاکستانی معاشرتی اور ریاستی تناظر میں اس نوعیت کی اسلامی تحریکات کی کامیابی کے امکانات صفر ہیں۔

تیسرا رویہ وہ ہے جو ہماری اسلامی سیاسی جماعتوں نے ١٩٥١ء سے اب تک اختیار کیا ہوا ہے یعنی انتخابات میں شرکت کر کے سرمایہ دارانہ اقتدار کا حصول۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اس رویہ کو اپنا کر ہم نے اسلامی علمیت اور اسلامی مذہبی ادارتی صف بندی کو حفاظت فراہم کی اور اس کو ریاستی اور استعماری دست برد سے بچائے رکھا لیکن اس رویہ کو اپنا کر ہم اسلامی اقتدار کو وسعت نہ دے سکے۔ بلکہ اس کے برعکس ہماری اسلامی سیاسی جماعتیں بتدریج سیکولر قوم پرست اور لبرل ہوتی جارہی رہیں۔ ان کے منشور لبرل قوم پرست اور سوشل ڈیموکریٹ آدرشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو سرمایہ دارانہ نظام کے مخلص ترین کارکنوں کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ ان میں اوردہریہ (secular) سیاسی جماعتوں میں اشتراک عمل فروغ پا رہا ہے۔ جب یہ اسلامی سیاسی جماعتیں حکومتیں بناتی ہیں تو یہ حکومتیں عالمی سرمایہ دارانہ اداروں (IMF, ADB, WB) اور دیگر ممالک سے بھیک بھی مانگتی ہیں۔ سود لیتی اور دیتی رہتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی اقتداری گرفت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ یہ تمام باتیں MMAکی ٢٠١٣ء تا ٢٠٠٨ء کی سرحد کی حکومتی کارفرمائی اور حالیہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کی مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومت میں شمولیت سے ثابت ہے۔

اس روایتی انتخابی حکمت عملی کو اپنا کر ہم غلبہ دین ممکن نہیں بنا سکتے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کا اسلامی جواز مرتب کر رہے ہیں اور جیسے جیسے ہم سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کا حصہ بنتے چلے جائیں گے ویسے ویسے تحفظ دین کے جو فوائد اس رویہ کو اختیار کر کے حاصل کیے گئے ہیں ان کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک پسپائی (retract) اور ردعمل (reactionary)حکمت عملی ہے اور ہم اس حکمت عملی سے چمٹے رہنے پر مجبور نہیں۔ تحفظ دین کی جدوجہد کو غلبہ دین کی جدوجہد سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔

تحفظ دین کی تحاریک کو غلبہ دین کی تحاریک سے مربوط کرنے کا ایک ذریعہ انتخابات کا انقلابی استعمال ہے۔ ہم انتخابات کے ضمن میں اس رویہ کو اپنانے کو ممکن بھی سمجھتے ہیں اور مفید بھی۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

جمہور علما ووٹ دینے اور انتخابات میں حصہ لینے کو جائز تسلیم کرتے ہیں (گو کہ یہ خلاف اولیٰ اور شاید مکروہ عمل گردانا جائے)۔

سرمایہ دارانہ نظام کی سرحدوں پر غیر سرمایہ دارانہ قیام اقتدار سرمایہ کے مرکزی اقتدار کو منتشر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کو منتشر کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی سے وسائل فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ سرمایہ دارانہ اقتدار ہم سب پر مسلط ہے اور ہم اسی کے وسائل کو استعمال کرکے اس کی تسخیر کرسکتے ہیں۔ ان وسائل میں انتخابات، ٹریڈ یونین تنظیمات اور ٹیکنالوجی (آئی ٹی، مواصلاتی اور عسکری بیداری) سب شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی غیراقداری (value neutral)نہیں لیکن ہم ان کے استعمال پر آجمجبور ہیں اور انقلابی عمل ان سرمایہ دارانہ ذرائع کو عمداً (devalurise) کرنے کا عمل ہے۔ اس عمل کو سیاسی فلسفہ کی زبان میں (negation of negation) منکر کو منکر کے ذریعے مٹانے کا عمل کہتے ہیں۔ یہ عمل جائز ہے بشرطیکہ جس منکر کو استعمال کیا جا رہا ہے وہ حلال (خواہ مکروہ) ہو۔ تفصیل اس اجمال کی ہماری کتاب ”جماعت اسلامی : زوال کے اسباب اور احیا کے تقاضے” میں دیکھیے۔

اب ہم انتخابات کے انقلابی استعمال کے عمل کی مختصر تفسیر بیان کریں گے۔

اس عمل کی بنیاد تمام تحفظ دین اور غلبہ دین کی جماعتوں کا ادارتی اتحاد ہے۔ تحفظ دین کی تحریکات غلبہ دین کی جماعتوں کی پشتیبان اور پشت پناہ بن جائیں اور انتخابات میں حصہ لینے کے نتیجہ میں جو روحانی اور اخلاقی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کو رفع کرنے کی ذمہ داری قبول کریں۔

متحدہ اسلامی جماعتوں کا انتخابی منشور خالصتاً دینی ہو، قوم پرست، لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ آدرشوں سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ انتخابی مہم کا واحد مقصد عوام میں اسلامی عصبیت کا ابھارنا ہو سرمایہ دارانہ عدل فراہم کرنا نہ ہو۔

اسلامی اتحاد کی بنیاد بین المسالک مساجد وفاقوں کا محلہ کی سطح پر قیام ہو۔ ہر محلہ کا وفاق المساجد انتظامی، عدالتی، معاشی اور معاشرتی اقتدار کا ایک مقامی فریم ورک مرتب کرے جس کا مقصد ائمہ مساجد کو واحد جائز عوامی قائد کے طور پر متعارف کرانا اور پہچانوانہ ہو۔ (اس کی تفصیل ہماری کتاب ”اسلامی بینک کاری کا متبادل” میں ملاحظہ فرمائیے۔)

انتخابات میں شمولیت کا مقصد ان ہی بین المسالک مساجد کے ملک گیر وفاقی نظام کا تحفظ اور استعمار مخالفت ہو۔ حکومت میں شمولیت اور سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں شمولیت سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

انقلابی انتخابی جدوجہد کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو بتدریج تحلیل کرنا اور اقتدار سرمایہ دارانہ اداروں سے مساجد کی طرف منتقل کرنا ہے۔ اس عمل میں ہم جتنا کامیاب ہوں گے اتنا ہی عوامی زندگی پر اسلامی اقتداری گرفت مضبوط ہو گی اور ہمارے کارکن معاشرہ میں واحد جائز رہنما کے طور پر پہچانے جائیں گے۔ یوں ہم سرمایہ دارانہ معاشرتی اور ریاستی اقتدار کو منتشر کرنے کی طرف پہلا قدم اٹھانے کے قابل ہوں گے۔

اختتامیہ

ہماری گزارش ہے کہ علمائے کرام، صوفیائے عظام اور دینی جماعتوں کے قائدین ٢٠١٨ء کے انتخابات سے قبل جلد از جلد ایک انتخابی اتحاد تشکیل دیں جو دینی، سیاسی او رغیرسیاسی جماعتوں پر مشتمل ہو۔ اس اتحاد کا اسلامی تشخص بالکل واضح ہو اور یہ کسی دہریہ (سیکولر) جماعت سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرے۔ اتحاد کی بنیاد مقامی مساجد اور برادریاں فراہم کریں۔ اتحاد کا مقصد حکومت میں شریک ہو کر سرمایہ دارانہ عدل فراہم کرنا نہ ہو بلکہ مقامی سطح پر اسلامی اقتداری نظام کا مرتب کرنا اور اس کو تحفظ فراہم کرنا ہو۔ ہم نے ابھی بنیادی ادارتی صف بندی نہیں کی ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کو بلاواسطہ منتشر کر سکیں۔ ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی سے اس نظام کی بیخ کنی کے لیے حکمت عملی ترتیب کریں۔ ہم انتخابات کو جمہوری نظام اقتدار کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک طویل المدت عمل ہے اور اس میں غیرسیاسی اسلامی جماعتوں کا کردار فیصلہ کن ہے اگر وہ سیاسی اسلامی جماعتوں کی پشت پناہی اور رہ نمائی نہ کریں تو سیاسی اسلامی جماعتیں دفاعی حکمت عملی سے کبھی آگے نہ بڑھ سکیں گی اور ان کا معاشرتی دینی تصور کمزوور سے کمزور ہوتا چلا جائے گا۔

یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ حال ہی میں تبلیغی جماعت کے ایک اہم مدبر ڈاکٹر اسد زمان نے حال ہی میں مساجد کے معاشرتی دائرہ کار کی توسیع کے لیے ایک جامع منصوبہ تجویز فرمایا ہے۔ ان کا یہ مضمون ہماری ویب سائٹ Rejecting Freedom and Progress پر ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر عطا کریں۔ ہمارا تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے دست بستہالتماس ہے کہ اپنے اس بلیغ رہنما کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی طرف توجہ دیں۔

اس کا امکان کہ جو حکمت عملی یہاں بیان کی گئی اسلامی سیاسی جماعتیں اور ان کا متوقع اتحاد ٢٠١٨ء کی انتخابی مہم میں اختیار کریں ، بہت کم ہے۔ لیکن اس اتحاد کو غیرسیاسی اسلامی حلقوں کا جتنا تعاون اور اشتراک عمل حاصل ہو گا اتنا زیادہ اس کا امکان ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ایک خالص اسلامی ایجنڈا اختیار کریں اور انتخابات کو غلبہ دین کے لیے استعمال کریں۔ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کے لیے نہیں۔ اگر اسلامی سیاسی جماعتیں ایک اسلامی ایجنڈہ اختیار نہیں کرتیں اور روایتی مدافعانہ (reactionary) انداز میں الیکشن لڑتی ہیں تو بھی اسلامی حلقوں کے تعاون کی حق دار ہیں کیوں کہ ان کے اس عمل سے تحفظ دین کا فریضہ کسی نہ کسی حد تک ادا ہوتا ہے۔ یہ بات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس کی ریاستی جدوجہد وہ سیاسی ڈھال ہے کہ ہمارے مدارس اور مساجد کو سرمایہ دارانہ استعماری دست برد سے محفوظ کیے ہوئے ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سے اشتراک عمل ہر باشعور اسلامی کارکن پر واجب ہے ۔

ہمیں اس بات کا پورا احساس ہے کہ ہم جاہل لوگ ہیں۔ علوم دینیہ سے قطعاً ناواقف اور مغربی علوم کا نہایت سطحی اور سرسری مطالعہ کیے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے زیادہ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے لیکن ہمیں کسی جماعت کا تعاون حاصل نہیں۔ لیکن ہم ہر راسخ العقیدہ سیاسی اور غیرسیاسی جماعت کے حمایتی خیرخواہ خادم ہیں۔

نسبت بہت اچھی ہے اگرچہ حال برا ہے

ہم نے یہ معروضات آپ کی خدمت میں اس لیے پیش کیے ہیں کہ آپ ان پر غور فرما کر اور ان کی تصحیح کر کے تحفظ دین اور غلبہ دین کی جدوجہد کو مربوط کرنے کی ایک ایسی ہی حکمت عملی مرتب فرمائیں گے جس سے امت کی مظلومی اور لاچاری میں تخفیف ہو اور ہم اقتدارِ اسلامی کو پہلے مقامی سطح پر منظم کر سکیں تاکہ اسلامی انفرادیت اور معاشرت فروغ پائے اور اسلام سرمایہ دارانہ نظام کا آلہ کار نہ بنے۔

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جس دین سے خائف تھے کبھی قیصر و کسریٰ

                                                                        اب اس کی مجالس میں بتی نہ دیا ہے     


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16