نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان راشد نسیم نے کہاہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سینیٹ کے ٹکٹ دے رہی ہیں جن پارٹیوں کی صوبوں میں ایک بھی نشست نہیں، انہوں نے بھی سینیٹ کے لیے امیدوار کھڑے کر دیے ہیں ۔ کرپشن کے حمام میں قریباً سبھی ننگے ہیں مگر3 بڑی پارٹیوں نے تو ثابت کردیاہے کہ ان میں کوئی فرق نہیں ۔ انتخابی میدان میں ان سب کا طریقہ واردات ایک ہی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ انتخابات کے موقع پر نو دولتیے اور کرپشن سے دولت اکٹھی کرنے والے اس طرح باہر نکلتے ہیں جیسے برسات کے موسم میں ہر طرف سے مینڈکوں کے ٹر ٹرانے کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ لوگ بھی الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جو پہلے کرپشن یا دیگر وجوہات پر نااہل ہوئے اور ایوانوں سے نکالے گئے تھے۔ (جسارت 12 فروری)

ہماارے محترم  رہنما کی یہ فکر انگیز باتیں ایسے گھمبیر مسئلہ کی نشاندہی کرتی ہیں جس کو سمجھے اور اس کا حل نکلاے بغیر رائج انتخابی سیاسی نظام میں ہم دور دور تک بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے-

مسئلہ کی تفصیل ، پس منظر اور سیاق و سباق-

  • دہریہ جماعتیں پاکستان میں انتخابات اس لئے نہیں جیتیں کہ وہ عوامی مقبولیت حاصل کرچکی ہیں اور ان کو عوامی جذباتی لگاؤحاصل ہے ، بلکہ دہریہ جماعتوں کی انتخابی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ برطانوی استعمار  کی وارث ہیں۔
  • برطانیہ نے برصغیر میں اپنے دوسوسالہ دور اقتدار میں جن معاشی اور سیاسی انتظامی ڈھانچوں کے ذریعہ عوام کو ریاستی مقتدرہ( state elite) سے وابستہ کیا ہے اس کو پاکستان کے حکمرانوں نے من وعن قائم رکھا بلکہ مکمل مضبوط کیا ہے ۔
  • اس اتنظامی ڈھانچہ کی کارکرفرمائی(  functionality) کے نتیجہ میں پورا معاشی اور سیاسی نظام  موکل(کلائینٹ,موالی ،حاشیہ نشین)-مربی روابطی تانوں بانوں (Client- patron relationship networks  ) میں ضم ہوگیا ہے ۔
  • عوام کے مختلف گروہ مختلف ریاستی مربیوں سے وابستہ ہیں ۔وہ ان مربیوں کی  اعانت اس لئے کرتے ہیں کہ مخصوص مربی (patron ) گروہ مخصوص عوامی گروہوں (clients   ) کے معاشی اورسیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں یہ اقتداری نظام عوام کو مادہ پرست بنانے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
  • یہ حاشیہ بردار، موالی ۔مربی روابطی نظام ( client-patron networks- ) پورے ملک اور معاشرہ کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے ۔ہر سیاسی جماعت کو انتخاب کے وقت (   electable) کی تلاش ہوتی ہے (electable ) وہ مربی (patrons)  ہیں جن کو کسی بڑے عوامی حاشیہ بردار (-موالی، client  ) گروہ کی حمایت حاصل ہو ،

اس مسئلہ کا ممکنہ حل

  • یہ درست ہے کہ (modernization)  کے ذریعہ یہ حاشیہ بردار  ،موالی ۔مربی روابطی ڈھانچہ ( client-patron networks   ) کمزور کئے جاسکتے ہیں لیکن (    modernization) کو فروغ دیکر معاشرہ پر سرمایہ دارانہ تعقل (  capitalist rationality  ) کا تسلط مستحکم ہوتا ہے اور عوام کی مادہ پرستی کم نہیں ہوتی ۔
  • اس کی تازہ ترین مثال بھارت ہے جہاں یہ حاشیہ بردار،موالی ۔مربی روابطی ڈھانچہ کمزور پڑرہاہے لیکن ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہندوقوم پرستی تیزی سے عوامی مقبولیت حاصل کررہاہے ۔
  • اس تناظر میں پاکستانی اسلامی جماعتوں کے سامنے دوچیلنج ہیں۔
  • رائیج شدہ   حاشیہ بردار، موالی -مربی روابطی نظام کو مسمار کرنا کیوں کہ اس کے بغیر غلبہ دین ناممکن ہے۔
  • عوام (اور خواص ) میں Modernistرحجانات (مادہ پرستی) کا خاتمہ  کیوں کہ اس کے بغیر اسلامی انفرادیت او رمعاشرت فروغ نہیں ۔

الحمداللہ پاکستانی عوام میں سرمایہ دارانہ تعقل کی گرفت کمزور ہے اور عوام کے ایک بڑے گروہ کی اسلامی حمیت اور جذباتیت کو ابھار کر ان کو اپنے مادی مفادات کو  نظرانداز کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے ۔عوام کا یہ گروہ جو مخلصین دین پر مشتمل ہوگا مربی-مولی روابطی  نظام ( client-patron networks   )سے  اس طرح آزاد کیا جاسکتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ تعقل (   modernization) اور دہریت ( secularism  ) کا شکار نہ ہو۔

بحیثیت ایک اسلامی انقلابی جماعت یہ جماعت اسلامی کی ذمہ داری ہے   کہ پاکستان مین رائج شدہ موالی- مربی  روابطی  اقتداری  نظام ( client-patron networks  ) کو اس طرح بتدریج مسمار کرے  کہ  ریاستی اقتدار دہریوں کے ہاتھ سے نکل کر مخلصین دین کے عوامی اداروں میں مرتکز ہوجائے ۔

ہماری 2018ء کی انتخابی جدوجہد اس مقصد کے حصول کے لئے ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ۔

اس خیال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردینا چاہئے کہ جماعت کے مذہبی اور سیاسی کام کو الگ الگ منظم کیا جائے ۔یہ جماعت کو (   modernize) کرنے کی کوشش ہے اور مولانا مودودیؒ کی اس اجتہاد سے کہ “مغرب جاہلیت خالصہ ہے” کھلی بغاوت ہے ۔(  modernization) جماعت کی اسلامی انقلابی شناخت کو تباہ کردیگی ۔

یہ انتخابات خالصتاً اسلامی ایجنڈہ پر اور اسلامی جذباتیت کو فروغ دینے کی بنیاد پر مہماتی طور پر لڑے جائیں۔

اس کے لئے اسلامی اتحاد ناگزیر ہے الحمداللہ ہماری کوششوں سے ایم ایم اے قائم ہوگیا ہے،  اس کو مستحکم اور وسیع کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے -دوکام نہایت اہم ہیں۔

جمعیت علماء اسلام سے روابط اور محبت کو فروغ دینا

تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایم ایم اے میں شمولیت پر آمادہ کرنا ۔ہمیں ایسی  جذباتی فضا بنانی ہے کہ کسی بھی راسخ العقیدہ اسلامی جماعت کا ایم ایم اے سے باہر رہنا اس جماعت کے کارکنوں کے لے ناقابل قبول ہو۔

ایم ایم اے میں شامل تمام جماعتوں کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ انتخابی مہم مساجد ومدارس او رخانقاہوں کی بنیاد پر منظم کی جائے گی ۔اور اس مقصد کے لئے پورے ملک میں بین المسالک مساجد   یونٹ قائم کئے جایئں گے-

جماعت خود (   electables) کو اپنے پارلیمانی نمائندہ کے طور پر کھڑا کرنے سے گریز کرے اور ایسے علمائے دین کو ٹکٹ  دے جو اپنے حلقوں میں مخلصین دین کے لئے قابل اعتبار ہوں  خواہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہو یا نہ ہو-

بنیادی انتخابی نعرہ “اسلام خطرہ میں ہے” ہو  اور  عوام کے مادی سرمایہ دارانہ حقوق کے حصول کی کوئی ترغیب نہ دی جائے ، عوام میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام اور اپنے مادی مفادات کے تحفظ کے لئے نہیں  بلکہ جنت میں جانے کے لئے ایک جہادی عمل کے طورپر ووٹ کا استعمال کررہے ہیں۔

عوامی روابط کے لئے جو جتھے نکالیں وہ مستقل  باآواز  بلند ذکر جاری رکھیں ایم ایم  اے کی انتخابی ٹیموں  اور انتخابی  کیمپوں    میں مستقل تلاوت قرآن اور نعتوں کو اہتمام کیا جائے اور گاہے گاہے نعرہ تکبیر بلند کیا جاتا رہے اور اس ضمن میں پولیس اور مخالفین کی مداخلت کو بالکل برداشت نہ کیا جائے بلکہ عسکری مقابلہ سے بھی گریز نہ کیا جائے ۔

کسی بھی دہریہ جماعت (مسلم لیگیوں،پیپلزپارٹی،تحریک انصاف اے این پی وغیرہ) سے کسی نوعیت کا کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور بلخصوص (  seat adjustment) سے قطعی پرہیز کیا جائے ۔

اگر ہم نے انتخابات ان بنیادوں پر لڑے تو ہمیں انشاء اللہ وہ عظیم الشان کامیابی نصیب ہوگی کہ ملک کے دہریہ گروہ اور ان کے استعماری آقا    انگشت بہ دندان رہ جائیں گے اور اہم اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ انتخابی عمل کو ریاستی اقتدار سرمایہ دارانہ مقتدرین کے ہاتھوں سے مخلصین دین کے اداروں کی طرف بتدریج منتقل کرکے رائج  شدہ موالی- مربی اقتداری روابطی نظام کو بتدریج مفلوج اور منہدم کرسکیں ۔

فکر مودودیؒ


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16