کیا انتخابات پاکستان میں تحفظ اور غلبۂ دین کا ذریعہ ہیں؟

ہم ڈاکٹر محمد امین صاحب کے بے حد مشکور ہیں کہ انہوں نے ٢٠١٨ء کے انتخابات کے ضمن میں اسلامی جماعتوں کو دی گئی تجاویز پر تبصرہ فرمایا۔ اس مضمون کا مقصد ان چند غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے جو مکالمہ کے نتیجہ میں واضح ہو گئی ہیں۔

نظری غلط فہمیاں

آج جو نظام (System) اور طرزِ زندگی (life world) عالمی طور پر غالب ہے وہ سرمایہ داری ہے۔ کھینچ تان کر اس نظاماتی اور طرزی غلبہ کو paradigmatic کہا جا سکتا ہے کیوں کہ سرمایہ دارانہ عقائد کا بھی غلبہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریات کا بھی غلبہ ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت کا بھی غلبہ ہے اور سرمایہ دارانہ نظم اقتدار بھی عالمی سطح پر غالب ہے۔ اور یہ نظاماتی اور طرزی غلبہ اتنا عمیق ہے کہ اس کے نظاماتی جبر کو  effectively چیلنج کرنے کا کوئی مقام  (space)موجود نہیں رہا۔ یہ بات ان عسکری تحریکوں کی وقتی پسپائی سے واضح ہوتی ہے جو سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کی سرحدوں پر اس سے نبرد آزما ہیں۔

لیکن سرمایہ دارانہ paradigm غیرتضادی نہیں۔ ہر سطح پر ـ اعتقاداتی، نظریاتی، معاشرتی، ریاستی ـشدید سے شدید تضادات کا شکار ہے۔ پوسٹ ماڈرنسٹ آدرشوں نے اس کے کلیدی اہداف ـآزادی، مساوات، حقوقِ انسانی، ترقیـ کو لغو، مہمل اور عملاً ناقابل حصول ثابت کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ علمیت اور نظم اقتدار ماحولیاتی تنزل (environmental degradation) سے نبرد آزما ہونے کی کوئی مربوط حکمت عملی مرتب کرنے سے قاصر ہے۔ عالمی سود اورسٹہ کے بازار ہر چند سال بعد ایسے بحرانوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظاماتی موت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں اور جن سے نبرد آزما ہونے کی کوئی مربوط حکمت عملی سرمایہ دارانہ علمیت ترتیب دینے سے قاصر ہے۔ عالم گیری سطح پر سرمایہ کی حکم رانی کی ادارتی صف بندی عملاً ناممکن نظر آتی ہے اور غالب سرمایہ دارانہ قومی ریاستوں (امریکا، یورپ، چین، روس) میں مزاحمت اور کش مکش دنیا کو تیسری جنگ عظیم کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہے۔

ان تضادات کو فروغ دے کر ہی entirely  سرمایہ دارانہ نظم اور طرز زندگی کی تسخیر ممکن ہے۔ انتخابات کے ضمن میں ہم نے جو حکمت عملی مرتب کی ہے اس کا مقصد سرمایہ دارانہ نظم اور طرزِ زندگی سے مصالحت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظم اقتدار میں دراڑ ڈالنا ہے۔ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی جزو نہیں۔ وہ قدیم یونان اور روم میں موجود تھی اور فارابی تک نے جمہوریت کا ایک مبہم تصور پیش کیا ۔ یہ درست ہے کہ لبرل اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظم اقتدار نے جمہوری عمل سے استفادہ کیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے لازم ہے وہ ریپبلک ہے، جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوری عمل بالخصوص انتخابات کا استعمال ـ سرمایہ دارانہ نظم اقتدر کو متزلزل کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے (مثلاً الجزائر ١٩٩٠ء ایران ١٩٨٩ء اور ١٩٩٧ء اور مصر ٢٠١٤ء )۔ یہ بات صرف انتخابات کے لیے نہیں۔ بلکہ کئی سرمایہ دارانہ اداروں (اسکولوں، ٹریڈ یونینوں، لوکل حکومتوں اور بالخصوص عسکری ٹیکنالوجی) کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ ان تمام ادارتی صف بندیوں کا استعمال خلاف اولیٰ لیکن حلال ہے بشرطیکہ اس استعمال کا مقصد سرمایہ دارانہ طرز اور نظام کا استحکام نہیں اس کی تسخیر ہو۔

انتخابات میں حصہ لینے کو جائز اہل سنت، اہل تشیع اور جمہور اکابرین نے دیا ہے (مثلاً محمود الحسن، مولانا مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا دائود غزنوی، مولانا مودودی، امام خمینی، امیر ملت پیر جماعت علی شاہ، امام حسن البنا، حضرت حسن نصراللہ، مفتی محمد شفیع ، مفتی محمود وغیرہ)۔ ان فتاویٰ کو ردّ کرنے کی کوئی نقلی دلیل ڈاکٹر امین صاحب پیش نہیں فرماتے۔

وہ علماکرام اور صوفیہ عظام جو انتخابی عمل کی تصدیق فرما کر اس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں بالکل راسخ العقیدہ اور مخلص فی الدین ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی الوہیت انسانی یا دیگر سرمایہ دارانہ عقائد پر ایمان نہیں لایا۔ سب سرمایہ دارانہ معاشرت کو ذلت اور گمراہی کہتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

اس سے ثابت ہوا کہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان انتخابات میں حصہ لے کر لازماً سرمایہ دارانہ فاسد عقائد قبول کرنے اور طرز زندگی اختیار کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتا وہ انتخابی عمل کو سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کو منتشر کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کو اس کا شعور ہو۔ ٢٠١٣ء کے انتخابات میں تقریباً ٤ اعشاریہ٣کروڑ ووٹ پڑے اور یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس میں ٤ کروڑ ایسے افراد تھے جنہوں نے سرمایہ دارانہ اقدار کا کبھی نام بھی نہیں سنا اور جن کے سرمایہ دارانہ عقائد پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سب راسخ العقیدہ مسلمان اور راسخ العقیدہ علما اور مشائخ کے پیرو ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی اقلیت شعائر اسلامی کے دفاع اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر کٹ مرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے جیسا کہ جناب خالد جامعی نے البرہان کے جولائی ٢٠١٧ء کے شمارہ میں ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظاماتی اور طرزی غلبہ کے باوجود ہماری (اور بیش تر اسلامی ممالک کی) عوامی انفرادیت اور معاشرت اسلامی ہی ہیں۔

بیسویں صدی میں ہمارے اکابر علما اور صوفیہ نے جو جمہوری نظام اقتدار کے ساتھ مصالحت کی اسی نے اس عوامی اسلامی انفرادیت اور معاشرت کو محفوظ رکھا ہے اور یہ کہنا تاریخی حقائق سے منہ موڑنا ہے کہ جمہوری عمل خواہ انتخابات اور اسمبلیوں کی صورت میں خواہ ہو یا پرامن شہری احتجاجوں کی شکل میں ریاستی اقتدار کو متزلزل کر کے،  تحفظ دین کی راہ ہموار نہیں کرتا۔ آج یہ اسلامی سیاسی جماعتوں (بالخصوص جمعیت علمائے اسلام) کی جدوجہد ہی ہے جو مدارس و مساجد کو اقتداری دست برد سے محفوظ کیے ہوئے ہے اور جس کی بنیاد پر عوامی قوت کو متحرک کر کے ہم شعائر اسلامی کا دفاع کر رہے ہیں۔

آج ضرورت اس کی نہیں کہ جو دفاعی سیاسی حکمت عملی علما اور صوفیہ نے وضع فرمائی اس کو ردّ کر دیا جائے۔ یہ ہوا تو ہم قوت اور اقتدار کی ریاستی کش مکش سے بالکل  بے دخل کر دیے جائیں گے۔ وہ تمام فوائد جو ابھی تک اس حکمت عملی کو اختیار کر کے حاصل کیے گئے ہیں ضائع ہو جائیں گے اور سرمایہ دارانہ اقتداری غلبہ مستحکم سے مستحکم تر ہوتا چلا جائے گا۔ اقتداری کش مکش سے دست بردار ہو کر ہم سرمایہ دارانہ تحکم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ علما ء و صوفیہ نے جو دفاعی سیاسی حکمت عملی وضع فرمائی تھی اسی کی بنیاد پر ہم ایک اقدامی حکمت عملی وضع کریں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جمہوریت یا انتخابات کوئی دین نہیں، دین تو سرمایہ داری ہے اور اس نے یقینا جمہوریت اور انتخابات کے اداروں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ جمہور علما کی رائے میں ان اداروں کو سرمایہ دارانہ نظام و طرزِ زندگی سے منقطع کیا جا سکتا ہے۔ اس رائے کے سب سے بلند بانگ مدعی مولانا مودودی اور مولانا شبیر احمد عثمانی ہیں۔ وہ جمہوری اور انتخابی جدوجہد کو غلبہ دین کا موثر ترین ذریعہ تصور کرتے ہیں۔

ہماری رائے میں جمہوری اور انتخابی عمل میں شمولیت سے یقینا یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی انفرادیت اور معاشرت سرمایہ دارانہ انفرادیت اور معاشرت میں ضم ہو جائے، لیکن یہ لازم نہیں۔ ہم جمہوری اور انتخابی عمل کو جائز اور حلال مانتے ہیں اور نصوصِ صحیحہ میں پائی گئی کسی ایسی نقلی دلیل سے واقف نہیں جو جمہوری یا انتخابی عمل کی شرکت کو حرام قرار دے۔ جمہوری اور انتخابی عمل ان لاتعداد مکروہات کے مثلاً مقننہ میں وضع قوانین کی پابندی، سیکولر ریاست کو ٹیکس کی ادائیگی، عسکری اور مواصلاتی سرمایہ دارانہ ٹیکنالوجی کا استعمال، ٹریڈ یونینوں میں شمولیت، جو سرمایہ دارانہ اقتداری تسلط کے نتیجہ میں ہم پر مسلط ہیں، ان جائز مکروہات سے اجتناب کے مواقع سرمایہ دارانہ نظاماتی اور طرزی غلبہ کے نتیجہ میں محدود سے محدود تر اورغیر موثر سے غیر موثر تر ہوتے جارہے ہیں۔ لہٰذا اصل مسئلہ سرمایہ دارانہ اقتدار کو منتشر کرنے کا ہے، جب تک سرمایہ دارانہ اقتدار کمزور اور روبہ زوال نہ بنایا جائے گا  تبلیغ، تعلیم، تربیت، تزکیہ نفس او راصلاح کی تمام کوششیں سب سرمایہ دارانہ نظم اور طرز زندگی میں ضم ہوتی چلی جائیں گی۔ تبلیغ، تعلیم، تزکیہ نفس اور اصلاح کی تمام مروجہ کوششیں سرمایہ دارانہ نظم اقتدار سے مصلحت خواہی کے طریقے ہیں۔ یہ بات صرف انتخابات میں مروجہ طریقہ شرکت کے بارے میں نہیں بلکہ تحفظ دین کے تمام مروجہ طریقوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تربیت اور تزکیہ نفس کا کام کیا وہ تین سال کے بعد ہی کفری اقتدار کے لیے ایک خطرہ کے طور پر عموماً پہچانا گیا۔ آپ نے مکہ میں قدیم زمانہ سے قائم ندوہ مقننہ کے اقتدار کو چیلنج کیا۔ اس میں آپ نے یا کسی او رمسلمان نے شرکت اختیار کبھی بھی نہ کی اور نہ ہی ندوئے کے احکامات کی تابع داری قبول کی۔ آپ شروع سے مسلمانانِ مکہ کے حکمران، شارع اور منتظم تھے۔ جیسا کہ ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنے ”خطباتِ بہاول پور” میں تحریر فرمایا کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں state within a state قائم کی اور اسی state within a state کے بڑھتے ہوئے اقتدار نے کفار کو مسلمانوں کو تعذیب کا نشانہ بنانے پر مجبور کیا اور انہوں نے دس سال تک مسلسل مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ ہم بھی سلطنت مغلیہ کے سقوط کے بعد سے مسلسل تبلیغ، تزکیہ نفس، تربیت، تعلیم اور اصلاح کا کام کر رہے ہیں لیکن کبھی بھی کسی حاکم نے یہ محسوس نہیں کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار کے لیے کوئی خطرہ ہے۔ اس کو برطانوی استعمار نے بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا اور ہندوستان اور پاکستان کی سیکولر ریاستوں نے بھی کیوں کہ یہ غلبہ دین کا کام ہے ہی نہیں۔ اس میں ریاستی قوت کے حصول کی جدوجہد کا سرے سے کوئی محرک موجود ہی نہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل بعید میں یہ خود بہ خود ( spontaneously) مزاحمتی صلاحیت پیدا کر دے وہ idealist خود فریبی کا شکارہیں۔

اور تم سوائے شور کے کچھ بھی نہ کر سکو

 کیا خوب لڑ رہے ہو کہ مارو نہ مر سکو

 بلاشبہ تربیت، تعلیم اور تزکیہ نفس کا جو کام ہو رہا ہے وہ نہایت اہم اور مفید ہے ۔ اور اسی کی بدولت برصغیر میں اسلامی انفرادیت اور معاشرت بڑی حد تک محفوظ ہے لیکن یہ غلبہ دین کا کام نہیں اس سے سرمایہ دارانہ اقتدار کی تسخیر قطعاً ناممکن ہے۔ہماری اور ہماری جماعت (جماعت اسلامی پاکستان) کی رائے میں تحفظ دین اور غلبہ دین کے کام میں ارتباط کی ضرورت ہے۔ تحفظ دین کی تحریکات تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی، مدارس دینیہ اور خانقاہی سلسلوں کو غلبہ دین کے لیے جدوجہد کرنے والی اسلامی سیاسی جماعتوں کے مرشد، پشت پناہ اور خیرخواہ کا رول اختیار کرنا چاہیے۔ ان کو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ انتخابی عمل سے پہلو تہی کوئی حقیقت پسندانہ آپشن نہیں اور ان کا جمہوری عمل سے اجتناب ہی وہ بنیادی وجہ ہے جو غلبہ دین کی کوششوں کو کمزور اور اسلامی حلقوں کی مایوسی(apathy) اور کفری اقتدار کا استحکام مستقل بڑھ رہا ہے۔

اے بھائی اگر تم ساتھ نہ دو تو ہم سے اکیلے کیا ہو گا

 تحفظ اور غلبہ دین کے معاشرتی اور ریاستی اتحاد کو بروئے کار لانے کے ضمن میں ہم نے کئی مضامین لکھے ہیں جو ہماری ویب سائٹس www.fikremaududi.com اور www.rejectingfreedomanddprogress.comپر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان گزارشات کی مختصر تلخیص یہ ہے: اسلامی جماعتوں نے ابھی تک انتخابات کا انقلابی استعمال نہیں کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابی عمل سرمایہ دارانہ اقتدار میں شمولیت کے لیے نہیں سرمایہ دارانہ اقتدار کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔اس اتحاد کو عوامی سطح پر بین المسالک مساجد کے وفاقوں کی صورت میں منظم کیا جائے۔اتحاد کا مقصد اور اس کے کام کے محور انہی بین المسالک مساجد کے اوقافوں کے محلہ کی سطح اور بازار کی سطح پر دائرہ اختیار میں توسیع ہو۔ افتا، قضا اور محتسب کے اداروں میں جان ڈالی جائے اور فتاویٰ کے فیصلوں کی تنفیذی صلاحیت بڑھانے کی جدوجہد کے ذریعے امام مسجد واحد علاقائی قائد اور رہنما کے طور پر پہچان وا یاجائے۔انتخابات میں شرکت کا مقصد ایسی ملک گیر بین المسالک مساجد کے اوقافی نظام کا تحفظ اور اس کے دائرہ کار میں توسیع ہو۔اسلامی پارلیمانی ارکان اپنی پوری توجہ اسی مقصد کے حصول کو دیں۔ نظاماتی تحکیمی ذمہ داریاں قبول کرنے سے اجتناب کریں اور تمام دیگر ارکانِ مقننہ سے اشتراک عمل صرف اسی بنیاد پر ہو کہ اس اشتراک کے نتیجہ میں بین المسالک مساجد کے اوقافوں کے نظم اقتدار کا تحفظ اور فروغ ممکن ہو۔

ہم انتخابات میں حکومت میں شمولیت کے لیے اختیار کرنے کے خواہاں نہیں۔ ہم انتخابات کو سرمایہ دارانہ نظم اقتدار کو کمزور کرنے اور ایک معاشرتی متبادل اسلامی نظام اقتدار کو مستحکمم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے مخصوص قومی حالات کے تناظر میں اسی حکمت عملی کو کسی نہ کسی حکمت عملی کے تحت ایران اورترکی کی اسلامی جماعتوں نے اور حزب اللہ نے لبنان میں اختیارکیا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان ممالک میں اسلامی اقتدار کچھ نہ کچھ مستحکم اور منظم ہوا ہے۔

عملی پہلو:

محترم پروفیسر طارق رقم طراز ہیں کہ ”٢٠١٨ء کے انتخابات کے ضمن میں جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے وہ کاغذی طور پر صحیح لیکن wishful thinking پر مبنی ہے”۔ یہ رائے پروفیسر بٹ صاحب نے بہتانوں کی ایک فہرست کی بنیاد پر قائم کی ہے جو حسب ذیل ہے:

            ۔جماعت اسلامی بھی عوام کی نظر میں ایک فرقہ ہے۔

            ۔جماعت اسلامی کی قیادت میں اخلاص، بصیرت اور علم موجود نہیں۔

            ۔تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا تصور دین ناقص اور نامکمل ہے۔

            ۔مسلکی جماعتیں فرقہ واریت کو فروغ دیتی ہیں اور ان کا کوئی مستقبل نہیں۔

            ۔مولانا فضل الرحمان اپنی چند نشستوں کی قیمت وصول کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔

            ۔ ان کو جماعت اسلامی پر شدید غصہ ہے۔     

            ۔وہ جماعت کے بارے ناکامیاں گنواتے رہیں گے جماعت کی کامیاب ہونے میں مدد نہیں کریں گے۔          

            ۔ وہ جماعت اسلامی کو دبائے رکھیں گے اور جہاں چاہیں گے اور جس قیمت پر چاہیں گے اس کو پہنچا دیں گے۔          

            ۔ مولانا فضل الرحمان ملی یکجہتی کونسل کے ڈکٹیٹر بنے پر مصر ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہیں بتائو یہ اندازِ گفت گو کیا ہے

ہم تو ابھی تک پروفیسر طارق بیگ کو اسلامی جدوجہد کا حامی اور بہی خواہ سمجھتے تھے ۔ اگر ایسا ہے تو

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

ظاہر ہے کہ یہ بہتان سراسر غلط ہیں۔ جماعت اسلامی کوئی فرقہ نہیں۔ واحد غیرمسلکی دینی جماعت ہے جس میں دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث سب عناصر پائے جاتے ہیں۔ جماعت کی قیادت نہایت مخلص، جفاکش اور زیرک ہے اور طویل المدت منصوبہ بندی ہمیشہ سے اس کا شعار رہا ہے۔ ہم سب (بشمول ڈاکٹر محمد امین) جماعت اسلامی کے لوگ ہیں اور ہمیں نے سطور بالا میں مستقبل کا یہ نقشہ پیش کیا ہے۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کا تصور دین ہرگز نامکمل نہیں۔ کس کو نہیں معلوم کہ مولانا الیاس رحمة اللہ نے حضرت شیخ الہند کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ جہاد ١٨٥٧ء کی قیادت بریلوی علما (مولانا مدراسی وغیرہم نے فرمائی) اور مولانا نورانی اور مولانا محمد الیاس دعوت اسلامی کے بانی ہمیشہ بریلوی زعما کے اس کے کردار پر فخر کرتے تھے۔ مسلکی جماعتیں کبھی اسلامی اتحاد میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ وہ تمام دینی سیاسی اتحادوں کا حصہ رہیں۔ ان کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ یہی جماعتیں ہماری فقہی، دینی اور تمدنی ورثہ کی امین ہیں اور ان کا معاشرتی اثر و نفوذ نہایت مستحکم اور مربوط ہے۔

سب سے زیادہ افسوس ان الزامات کو پڑھ کر ہوا جو مولانا فضل الرحمان پر لگائے گئے ہیں۔ مولانا کو ایک غلیظ، سازشی، مطلب پرست، مغلوب غضب اور شاطر بتایا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان سیاست دیوبند کے جانشین اور مولانا حسین احمد مدنی کے مخلص پیروکار ہیں۔ آپ مفتی محمود کے بطل جلیل اور ایک جید عالم دین ہیں۔ آپ پاکستان کی سب سے کامیاب اسلامی سیاسی جماعت کے رہنما ہیں اور آپ کی سیاسی جدوجہد کا اولین ہدف مساجد اور مدارس کے تنظیمی اور تعلیمی نظام کو سرمایہ دارانہ استعماری دست برد سے محفوظ رکھنا ہے اور آپ اور آپ کی جماعت کی مساعی جلیلہ کے نتیجے میں اسلام کے یہ قلعے مامون و محفوظ ہیں۔ آپ کبھی قیادت کے حریص نہیں رہے اور تاریخ شاہد ہے کہ آپ مولانا نورانی کی ایم ایم اے اور ملی یکجہتی کونسل کی سربراہی کے سب سے بڑے وکیل تھے۔ آپ نہایت وسیع القلب اور وسیع المشرب ہیں۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش اور صلاحیت رکھتے ہیں اورکوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں دی جا سکتی کہ آپ نے دانستہً کسی بھی اسلامی جماعت کو دھوکا دیا ہو یا نقصان پہنچایا ہو۔

چوں کہ مولانا فضل الرحمان پاکستان میں اسلامی گروہوں کے سب سے کامیاب اور بااثر قائد ہیں، اور آپ ہی کی زیرقیادت اسلامی اتحاد منظم ہو سکتا ہے لہٰذا سرمایہ دارانہ استعماری قوتیں آپ کی کردار کشی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ البرہان جیسے جریدہ میں مولانا فضل الرحمان پر وہی الزامات اور بہتان دہرائے جا رہے ہیں جو استعمار کے ایجنٹوں عمران خان اور اسفند یار ولی کی زبانوں پر ہر روز رواں رہتے ہیں۔

ہم جماعت اسلامی کے کارکن ہیں اور بحیثیت جماعت کے کارکن ہر راسخ العقیدہ اسلامی جماعت کے خادم، بہی خواہ اور حمایتی ہیں ۔ ہمارے بزرگ مولانا معین الدین خٹک نے فرمایا تھا:

کہو ہر کارکن سے سب جتھوں کو اپنا گھر سمجھے

ہر ایک بھائی کو وہ اپنا حلیف و ہم سفر سمجھے

ہم اتحاد اسلامی کے نقیب ہیں اور اس کے قیام کو غلبہ دین کے لیے لازمی تصور کرتے ہیں۔ ہمارے عظیم مرشد مولانا مودودی نے فرمایا تھا مغرب جاہلیت خالصہ ہے اور اس اجتہاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم سرمایہ دارانہ اقتداری نظم کو تہس نہس کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ دفاعی اور اقدامی اسلامی جماعتوں کا معاشرتی انتخابی اتحاد اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16