١٩٦٢ء سے میری زندگی کا ایک اہم مقصد مولانا مودودی رحمہ اللہ کی فکر کو عصر حاضر میں relevant رکھنا ہے۔ اسی کام کو اپنا توشہ آخرت تصور کرتا ہوں اور ان شاء اللہ تادم آخر یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

پچپنواں سال ہے مودودی کی مداحی میں

مولانا مودودی بیسویں صدی کے ایک اہم اور گہرے اثرات چھوڑنے والے متکلم اسلام تھے۔ متکلمین اپنے دور کے رائج شدہ آدرشوں اور مباحث کے تناظر میں اسلامی عقا یٔد اور نظریات کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد جیسے جیسے حالات اور فکری رجحانات تبدیل ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان متکلمین کی فکر irrelevant ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ متکلمین کی کامیابی ہوتی ہے۔ مثلاً امام غزالی نے معتزلہ اور دیگر Aristotelian اور Noe-Platonic فکر کو شکست فاش دی اور ایک مدت دراز کے لیے یونانی فکر کے فروغ کا دروازہ اسلامی تہذیب میں بند کر دیا۔ لہٰذا کئی صدیوں تک آپ کی فکری کاوشوں کی ضرورت نہ رہی اور ہمارے دروس (curricula) عموماً امام غزالی کی تعلیمات سے محروم رہے جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا:

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

جب انیسویں صدی میں تنویری (Enlightenment) اور رومانوی (Romantic) فکر نے اسلامی تہذیب پر یلغار کی تو فکر غزالی کے احیا کی ضرورت سامنے آئی۔ امام غزالی کی تعریف کرنے والے تو بہت تھے۔ آج بھی بریلوی علما میں ”غزالی دوراں” کا خطاب عام ہے لیکن مغربی فکر کا اسلامی محاکمہ کرنے والا کوئی عالم موجود نہیں۔

لہٰذا ہر متکلم کی فکر کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اجتہادات کی بدلتے ہوئے حالات میں تطبیق اور تصحیح کا عمل جاری رہے۔

متکلم نبی نہیں ہوتا۔ عصر حاضر کے تناظر کو فراموش کر کے کسی متکلم کی غیرمشروط اتباع اس متکلم کی فکر کو جامد اور غیرمتعلق  (static and irrelevant)بنا دیتی ہے۔ افسوس کہ آج ہمارے مفکرین نے مولانا مودودی کی فکر کے بارے میں یہی رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔

یاد رکھیے ہماری تاریخ معتبر (authentic) ہے۔ وہ کبھی معطل نہیں ہوئی۔ ہمارے علما، صوفیہ، مشائخ اور سلاطین، دین کی جو تشریح اور تفصیل ہم تک پہنچا گئے وہ وہی ہے جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی۔ ہماری تاریخ میں کوئی خلا (Gap) موجود نہیں۔ ہر متکلم اور مجتہد کا وہی کام زندہ رہتا ہے جو اپنے پیش رو راسخ العقیدہ شیوخ کے کام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس تاریخی تسلسل کی ضمانت خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔

مولانا مودودی کی فکر کو زندہ رکھنا ہے تو لازم ہے کہ آپ کے کام کو دیگر راسخ العقیدہ علما اور صوفیہ کے کام سے مربوط کیا جائے۔ ہمیں ثابت کرنا ہے کہ مولانا مودودی اسلامی تاریخ کے ہر دور کے راسخ العقیدہ علما ء کی اساسی فکر کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ موتیوں کی اس لڑی میں جسے آفاقی فکر اسلامی کہا جاتا ہے، ایک موتی کا اضافہ کرنے والے خاندان ولی اللّٰہی کے ایک پیرو اور حضرت شیخ المشائخ مہاجر مکی اور حضرت شیخ الہند محمود الحسن رحمہ اللہ کے مخلص جانشین ہیں۔

اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس سے مولانا مودودی کی فکر کی انفرادیت مجروح نہیں ہوتی۔ آپ کا دور بھی مخصوص ہے اور آپ کے اجتہادات بھی مخصوص ہیں اور آپ نے اپنے دور کے سیاسی اور تہذیبی مسائل پر مجتہدانہ نظر ڈالی ہے۔ آپ کے بنیادی اجتہادات دو ہیں۔

۔اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔

۔مغرب جاہلیت خالصہ ہے۔

پہلا اجتہادتو شاہ ولی اللہ کے تصور نظام کی تشریح ہے لیکن دوسرا اجتہاد قطعاً انفرادی ہے۔ ولی اللّٰہی اجتہاد ـاسلام ایک مکمل نظام ہےـ سے انیسویں اور بیسویں صدی کے برصغیر کے جمہور علما آنکھیں بند کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے تحریکات جہاد سے لاتعلقی کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ وہ سیکولر جماعتوں کانگریس اور مسلم لیگ کے پشت پناہ بن کر استعماری نظام سے سمجھوتا کر بیٹھے تھے۔ اور مغربی تہذیب سے تصادم کا کوئی تصور یا ارادہ ان کے پاس نہ تھا۔ آج بھی جمہور علما ان دونوں اجتہادات کی معنویت کا ادراک نہیں رکھتے۔

اس کی اہم وجہ مولانا مودودی کی فکر کی معروضیت (abstraction) اور غیرتاریخیت (a historicism) بھی ہے۔ وہ جب اسلام کو مکمل نظام حیات کہتے ہیں تو اس نظام کی تفصیل بیان کرنے میں ان کی گفتگو خالصتاً اصولی ہوتی ہے۔ وہ نصوصِ صحیحہ سے اسلامی نظام کی خصوصیات اخذ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور اس نظام کی تاریخی کارفرمائی سے بالکل سہو نظر فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی (system) اور اسلامی طرز زندگی (life world) کے عملی ارتباط کا کوئی خاکہ پیش نہیں کرتے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ اسلامی انفرادیت کی تعمیر، اسلامی نظام تحکیم کے قیام کا منطقی اور لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ ان کے ہاں علوم لدنی سے استفادہ کا شائبہ تک نہیں ملتا ۔ وہ صوفیہ کی فکر سے مطلقاً کچھ نہیں لیتے۔

پھر اسلامی نظام کے قیام کا جو طریقہ آپ بیان فرماتے ہیں تاریخی عمل سے ثابت ہو گیا ہے کہ اسلامی ریاست ایسے کبھی قائم نہیں ہوتی۔ جمہوریت سے آپ کی توقعات غیر حقیقی ہیں۔

 مغرب کو جاہلیت خالصہ قرار دینے کے باوجود آپ کی فکر لاک (Locke) اور جیفرسن  (Jefferson)اور مونٹسکیو (Montesquieu) سے ماخوذ ہے۔ ہمارے ائمہ سیاست  امام ماوردی، امام ابن خلدون، امام ابویعلیٰ، شاہ ولی اللہ سے مولانا مودودی کی سیاسی فکر کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ انقلاب کا تذکرہ تو بہت کرتے ہیں لیکن مولانا مودودی کوئی انقلابی نہیں۔ ان کا سیاسی عمل اور رویہ پوری زندگی مصلحانہ  (reformation)رہا۔ وہ جمہوری عمل کو سرمایہ دارانہ نظام کی تسخیر کے طورپر استعمال کرنے اور جمہوری طریقہ سے سرمایہ دارانہ ریاست میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں۔

مغرب کو جاہلیت خالصہ کہنے کے باوجود مغربی علمیاتی منہاج سائنس اور سوشل سائنس کو انسانیت کی اجتماعی میراث گردانتے ہیں اور ہیومن رائٹس  (Human rights)فلسفہ کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی تردید کے باوجود اس نظام کے بنیادی مفروضات اور آدرشوں کو فطری سمجھتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی کا کوئی مربوط خاکہ اور اس کی تسخیر کا کوئی جامع منصوبہ مولانا مودودی کی فکر میں نہیں ملتا،ان تمام کمزوریوں کے باوجود مولانا مودودی کے دو بنیادی اجتہادات

            ١ ۔اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے،

            ٢۔مغرب جاہلیت خالصہ ہے

آج کے دور میں تحفظ اور غلبہ دین کی تحریکات کے لیے ناگزیر مشعل راہ ہیں۔ انہی اجتہادات کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کی عالمی تسخیر اور غلبہ دین کی ہمہ جہت جدوجہد کی حکمت عملی مرتب کی جا سکتی ہے۔ مولانا مودودی کی فکر کی تشریح ، جزوی اصلاح اور ترتیب نو اشد ضروری ہے۔ مولانا مودودی کی فکر امت کا وہ بیش قیمت خزانہ ہے جسے محفوظ رکھنا اور فروغ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بحیثیت مولانا مودودی کے apologistہم یہ کام جاری رکھیں گے ان شاء اللہ۔

مولانا مودودی کی فکر کا احیا صرف اس فکر کا نقد مرتب کر کے کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تعریف اور ہمہ پہلو تقلید اور ان کے تاریخ اسلامی میں مقام کے بارے میں غلو اختیار کرکے جماعت کے مدبرین محض ان کی hagiography مرتب کر رہے ہیں۔ اس طریقہ سے فکر مودودی کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔

(ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری)


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16