خواتین کا سیاست میں آنا خلاف اولیٰ ہے, اسی لئے علمائے امت خواتین کی سیاست میں شرکت کے عموماً مخالف رہے ہیں۔

خواتین کی پبلک دائرہ  (public life)میں شمولیت لازماً خاندانی نظام کو مجروح کرتی ہے۔

خواتین کو گھروں سے نکلنے پر آمادہ کرنا مغربی تہذیب کا وہ ہتھیار ہے جس سے مذہبی معاشرت کی بیخ کنی کی جاتی ہے او رسیکولرازم کو فروغ دیا جاتا ہے۔

خواتین کو بڑے پیمانے پر سیاسی طور پر متحرک کر کے جماعت اسلامی روایتی اسلامی تحریکوں او رعلمائے کرام کی نظر میں مزید مشکوک ہو جائے گی۔

یہ درست ہے کہ خواتین کو سیاسی طو رپر متحرک کرنا حرام نہیں، مکروہ ہے۔ اور کئی اسلامی تحریکات نے ایران، ترکی، مصر وغیرہ میں یہ کیا ہے۔

لیکن ایران میں بالخصوص اس کے نہایت مضر نتائج مستقل آ رہے ہیں اور آقائے احمد نجاد اور آیت اللہ خوفی کے تلامذہ نے عورتوں کی سیاسی فعالیت کو معاشرہ میں آوارگی اور بے راہ روی پھیلانے کا اہم ذریعہ گردانا ہے اور ا س کی بھرپور مخالفت کی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاسی غلبہ کے باوجود علمائے ایران کے ہاتھ سے معاشرتی قوت مستقل نکلتی جا رہی ہے اور معاشرہ سیکولر ہوتا جا رہا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایران اور ترکی کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ خواتین کو سیاسی طور پر متحرک کرنے سے ان میں اسلامی شعور بیدار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے مادی اور قانونی حقوق کی جدوجہد میں ملوث ہو کر de-feminize ہو جاتی ہے۔ ان کی نسوانیت بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔ گھر سے نکل کر وہ عملاً مرد بن جاتی ہیں۔ مشہور سابق feminist مفکر Germain Greer  نے اس بات کی تشریح کی ہے۔

ہوا اب گھر میں مشکل ہے ٹھہرنا ان کا

اکھاڑوں میں میلوں میںہے زمانہ ان کا

اور اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام گھر ہے سیاسی اکھاڑہ نہیں۔

پھر یہ دس لاکھ خواتین جن کو جماعت اسلامی recruit کر رہی ہے ، کون ہیں؟ ان کو اپنے ساتھ لانے کا کیا معیار ہے۔ ان کی روحانی اور مذہبی تربیت کا کیا بندوبست کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے پاس فی الحال وہ روحانی، انتظامی اور ادارتی صلاحیت ہی نہیں جو دس لاکھ خواتین اور دس لاکھ نوجوانوں کی روحانی اور مذہبی تربیت کر سکے۔

عوامی رطب و یابس کی اس قسم کی بھیڑ جمع کرنا مولانا مودودی کی فکر سے صریح انحراف ہے اور جماعت اسلامی اس صریح انحراف کا کوئی جواز بیان نہیں کر رہی۔

جماعت کے ارکان اس بات سے لاعلم ہیں کہ وہ کون سان دستوری اور ادارتی عمل ہے جس کے ذریعے یہ بھیڑ مجتمع کی جا رہی ہے اور اس کو قا بو میں رکھنے کا کیا انتظام کیا جا رہا ہے؟

اور ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ اس قسم کی بھیڑ جمع کرنے سے ٢٠١٨ء کے انتخابات میں جماعت کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ ہم یہ تجربہ ١٩٩٣ء کے انتخابات PIF اور پاسبان کے ذریعے کر چکے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی ڈھانچہ میں اس نوعیت کی عوامی موبلائزیشن ہرگز موثر ثابت نہیں ہو سکتی کیوں کہ وہ اس client-patronage نظام کو چیلنج نہیں کرتی جس پر پاکستانی سیاسی ڈھانچہ قائم ہے۔ اس قسم کے اقدام محض جماعت اسلامی کی پاکستانی سیاسی نظاماتی حقائق سے ناواقفیت اور جماعت کی سیاسی حکمت عملی کی idealism کو ظاہر کرتی ہے۔

پاکستانی سیاسی ڈھانچہ client patronage network کو عوامی موبلائزیشن کے ذریعے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظام حقوق اور مادی فوائد کی طلب کے سہارے کارفرما ہے۔ جب تک لوگ حقوق کے مطالب اور مادی فوائد کے حصول کے خواہش مند ہوں گے نظام مستحکم اور کارفرما رہے گا۔ اس نظام کو ردّ کرنا ہے تو حقوق کی سیاست کو ردّ کر کے ادائیگی فرائض کی سیاست کو فروغ دینا ہو گا۔ ادائیگی فرض کی سیاست لازماً مذہبی سیاست ہوتی ہے۔ ہمیں عوام کو مذہبی شناخت اجاگر کرنے کر کے موبلائز کرنا ہو گا۔

سیاسی جدوجہد کو ادائیگی فرائض کے محور کی بنیاد پر قائم کرنا ہو گا ۔ اس کے لیے ہمارے بنیادی مخاطبین مخلصین دین ہیں اور ائمہ مساجد کی مقامی سیاسی قیادت کو قائم کرنا ہمارا وہ بنیادی عمل ہے جس کے ذریعے ہم سرمایہ دارانہ سیاسی قیادت کو منتشر او رillegitimate کریں گے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16