تمہید:

1) اس مقالے میں اسلامی اصلاحی گروہوں اور اسلامی انقلابی گروہوں کے کام کی نوعیت اور ان کے اہداف میں فرق ، پر کچھ روشنی ڈالی  جائیگی تاکہ ایک  دیرپا   اسلامی انقلاب کے لئے امت کے ان دونوں قسم کے گروہوں کے کام کو مربوط متصل اور ہم آہنگ کیا جاسکے ۔

2) دوسرے درجے میں ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ غلبہ دین کے مختلف مراحل میں ان گروہوں کا کیا کردار ہوتا ہے۔

3) انقلابات علم کی موجودہ تاریخ میں کہاں کہاں ان انقلابات کو سرمایہ دارانہ نظام سے چیلنج درپیش ہوئے اور وہ چیلنج کیا تھے  جن سے آئندہ انقلابیوں کو بچنے کی ضرورت ہے ۔

4) سرمایہ دارانہ نظام کے وہ کون کون سے تفادات وکمزوریاں ہیں جن سے اسلامیان کو فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔

اصلاح انقلاب میں فرق اور ان کی اسلامی تاریخ:

اسلامی تاریخ میں شروع کے 100سال کے دوران ہی امام حسین  وعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی جدوجہد کے سبب یہ طے پاگیا تھا کہ ہماری سیاست وحکومت شرع مطہرہ کے مطابق ہونی چاہئے اقتدار کسی نوعیت کا ہو اسی لئے اس وقت سے لیکر ایک ہزار سال تک تمام حکومتوں میں اسلامی علمیت غالب رہی ،حد تو یہ کہ تاتاری غلبہ کے دوازہ بھی حکومت اسلامی علمیت کے مطابق چلتی رہی ۔

چنانچہ ہماری تاریخ میں خروج کا ذکر تو ملتا ہے لیکن کسی انقلاب کی ضرورت اسی لئے نہیں آئی کہ غلبہ شریعت مطہرہ ہی کا رہا اور غالب علمیت اسلامی ہی رہی ۔اس کے برعکس اصلاحی کام ہمیشہ جاری وساری رہا اس لئے کہ اصلاح کی ضرورت تو  ہر دور میں فرد معاشرہ اور ریاست کے جزوی معا ملات میں موجود رہتی ہے اور کوئی نہ کوئی کام اصلاح طلب تو رہتا ہے ۔

انقلاب یا غلبہ دین بندگی ایک نئے اصطلاح ہے اور اس کا ذکر بیسوی صدی سے پہلے ہمارے یہاں نہیں ملتا۔

انقلاب کا تصور مغر ب کے فلاسفہ جان لاک اور ژاک روسو نے متعارف کروایا ۔انقلابی عمل اس صورت میں جاری رہ سکتا ہے جب معاشرہ کی سطح پر یہ احساس موجود ہو کہ ریاستی تنظیم اقتدار میں بنیادی تغیر کی ضرورت ہے گویہ انقلابی عمل  شاذ ہی انقلابی   واقع میں تبدیل ہوتا ہے۔

یہ دور جس میں ہم رہ رہے ہیں سرمایہ دارانہ غلبے کا دور ہے اس میں حاکمیت  ہرسطح پر سرمایہ دارانہ عقائد ونظریات کی ہے، اور

ہر دوسرا عقیدہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنی علمیت کو سرمایہ دارانہ میں ضم کرچکا ہے یا کررہاہے ۔کوئی معاشرت یا انفرادیت اس نظام کے اثر سے باہر نہیں رہ گئی ہے دنیا میں کوئی کوئی معاشرہ اور کوئی مذہب ایسا نہیں بچا جس کی علمیت آج بھی سرمایہ دارانہ علمیت پر فوقیت رکھتی ہو اور کوئی معاشرہ سرمایہ دارانہ تسلط سے باہر قائم ودائم ہو اور مامون بھی ہو۔

اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو کسی حیلے  بہانے   سے آپ کے غلبے کو سرمایہ دارانہ نظام  کے watch dog تہس نہس کردیں گے جیسا افغانستان،الجزائر،غزہ،سوڈان،یمن اور مصر میں کرچکے ۔

ایسے میں بہت بڑا چیلنج تمام اصلاحی گروہوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے غلبے کی جدوجہد کی اہمیت کو سمجھیں اور اس میں اپنے کردار کو جانیں ۔

دوسرا چیلنج اسلامی انقلابی گروہ کو بھی سمجھانا ہے کہ انقلابی عمل وانقلابی واقعہ کے دوران اصلاحی گروہوں کے فعال شمولیت کے بغیر ہم انفرادی معاشرتی وسیاسی سطح پر کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام دینے کی پوزشن میں نہیں ہیں –

اصلاحی گروہوں کا ہدف اور کام کاطریقہ کار کل کے بجائے جز سے متعلق ہوتا ہے اسی لئے ریاستی نظام ان کا مخاطب نہیں ہوتا اسی لئے کوئی بھی اجتماعی نظریہ یا علمیت ان کے لئے چیلنج نہیں ہیں بلکہ وہ  فرد ہو اور معاشرہ کے انفرادی عمل کی ہی اصلاح کی فکر کرتے ہیں کُل کی نہیں

ظاہر ہے جب آپ کٗل سے صرف نظر کریں گے کہ تو جُز کی اصلاح کے باوجود یہ کوشش موجودہ غالب نظام میں گم ہوتی رہیں گی۔

جس کی مثال اسلامی بینکاری ہماری رائنج تعلیمی نظام اور تمدن ہے جس  میں اسلامی علمیت آہستہ آہستہ غالب سرمایہ دارانہ عقلیت میں گم ہوتے چلے جارہے ہیں ۔

مصلحین غلبہ دین کو فرد کی اصلاح سے جوڑتے ہیں کہ جب معاشرہ کی اکثریت صالح افراد پر مشتمل ہوگی تو اسلامی انقلاب خود بخود ظہور پذیر ہوجائے گا۔

جبکہ انقلابی، “انقلابی عمل”  پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی نگاہیں اس انقلابی عمل کے بار آور ہونے یعنی انقلابی واقعہ پر جمی ہوتی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ اسلامی انقلابی اور اسلامی اصلاحی دونوں کا اصل ہدف  رضا الہی کا حصول ہے انقلابی اسے انقلابی عمل مین دھونڈتے ہیں اور اصلاحی انفرادیت کی اصلاح میں- 


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16