جماعت اسلامی کے اندرونی حلقہ جات میں اور نجی گفتگو میں یہ بات اب تسلسل سے کی جارہی ہے کہ اگر جماعت اسلامی کو ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیوپسمنٹ پارٹی والی کامیابی چاہئے تو اسے اپنی بہت سی اسلامی  روایتی حدود و قیود سے باہر نکلنا ہوگا ۔

اس بات کی جتنی مذمت کی جائے اور اس سوچ کے کھوکھلے پن پر جتنا لکھاجائے وہ کم ہے ۔

ہماری مثال وہ ہوگئی ہے کہ ہمیں ہرصورت میں کامیابی چاہئے چاہے اس کے لئے اپنی اساسی فکر کا سودا کرنا پڑے یا اپنی ہیئت کو ہی مکمل تبدیل کرنا پڑے جیسا کہ ہم جماعت اسلامی یوتھ بنا کررہے ہیں -ہم دنیا کی کامیابی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ ہی ہماری اساسی فکر سے انحراف ہے ۔

کامیابی کی تلاش میں ہم نت نئے تجربے کررہے ہیں اور ہر نئے تجربے سے دنیا وآخرت دونوں کی منزل کھوٹی کررہے ہیں۔تجربات کرنا بذات خود کوئی بری بات نہیں لیکن یہ تمام تجربات اس فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ہوں جو ہماری بنیادی اساسی فکر سے متصادم نہ ہوں تو قابل قبول ہیں ورنہ قابل مذمت۔

ہم نے پاسبان بنائی ،جس کی اٹھان ہی سیکولر فکرپر رکھی گئی تھی پھر ہم نے اب جماعت اسلامی یوتھ کا کھڑاگ بھی بالکل اسی سیکولر فکر پر سجایا ہے ۔

آگے چل کے جماعت اسلامی یوتھ ہی  جماعت اسلامی پاکستان کا ترکی ماڈل ہوگا۔

ترکی  تاریخ کے ایک ایسے جبر سے گزرا ہے جس نےنہ صرف اس کے حکمرانوں کی فکر اور طرز حکومت کو مکمل مغربی اور سیکولر کر دیا ، بلکہ اس کے عوام بھی سیکولر خیالات کو اپنا نظریہ مانتے ہیں – وہاں لوگ جناب طیب اردگان کو بھی ووٹ یہ سوچ کر دیتے ہیں کہ وہ سیکیولر آئین کے محافظ ہیں –  طیب اردگان خود بھی اس کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ “حقیقت یہ ہے کہ ریاست کو تمام مذہبی عقائد سے برابر فاصلہ رکھنا چاھئے” (بدھ 27 اپریل 2016) ، انہیں یہ وضاحت اس وقت دینی پڑی جب ترک پارلیمان کے اسپیکر نے کہہ دیا کہ “ہم مسلمان ہیں تو ہمارا آئین بھی اسلامی ہونا چاھئے”، یہ طیب اردگان کی کامیاب حکمت عملی کہی جا سکتی ہے جبکہ ہمیں ایسی کون سی قانونی و معاشرتی مجبوری ہے کہ ہم بھی اس حکمت عملی کو پاکستان میں بھی اپنایں؟

ایک بات نمایاں ہے کہ ترکی مقتدرہ نے اگرطیب اردگان کو 14 سال تک موقع دیا اور برداشت کیا تو  اس کے اسباب یم دو باتیں اہم ہیں ایک تو ان کے دور اقتدار میں معیشت کی بے مثال ترقی اور دوسرے انہوں نے کبھی اپنے اوپر  secularism سے روگردانی کا الزام نہیں لگنے دیا اور ہر موقع پر اپنے آپ کو ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا ہے جو ذاتی زندگی میں اسلام پر کاربند ہے لیکن ریاستی سطح پر مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا قائل ہیں – 

ترکی تو عہد جبر سے اپنے تابناک اسلامی ماضی کی طرف محتاط مراجعت کر رہا ہے جب کہ پاکستان میں حالات اس سے یکسر مختلف ہیں 

✔️پاکستان میں دینی قوتیں توانا ہیں ، عوام میں دین کا رجحان ہے ،

✔️پاکستانی معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے جہاں ممبر و محراب آزاد ہیں ، 

✔️آپ کا آئین اسلامی نظام کیلیے کھلم کھلا جد وجہد کرنے پر کوئی قد فن نہیں لگاتا ، معاشرے میں دین اور نظام کا تصور موجود ہے 

ایسے میں ہمیں دینی اتحاد کے ذریعے عظیم انقلاب برپا کرنے کی فکر اپنانی چاھئے ناکہ ترکی کے جبری ماحول کا چربہ یہاں بھی اپنانے کی فکر- 

ہم ترکی کی تاریخ کے جبر سے واقف ہونے کے باوجود وہاں انکی مجبوراً  “کم از کم “دین پر راضی رہنے کی حکمت عملی کو یہ سمجھ کر اپنانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ہمارا ووٹر ہمیں ان نظریات پر ایسے ہی ووٹ دے گا جیسا ترکی کی عوام نے جسٹس پارٹی کو ووٹ دیا، جبکہ پاکستان میں الحمداللہ اسلامی معاشرت واسلامی آئین وقانون ہم پر کوئی ایسی قدغن نہیں لگاتے جس کی بناء پر ہم ترکی کی طرح سیکولر بننے پر مجبور ہوں ،ترکی کی تو یہ مجبوری ہے کہ انکا آئین اور انکی معاشرت حالات جبرکے تحت مکمل سیکولر آئین اور سیکولر معاشرت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

ہمارا ترکی بننے کا خواب ہم سے اپنی اساسی فکر بھی چھین لے گا اور ہمیں کسی دنیاوی کامیابی کی منزل تک بھی کبھی نہیں پہنچنے دے گا-  ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے ایک ایسے پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں روایتی اسلامی معاشرت قائم ودائم ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم یہاں موجود تمام دینی اکائیوں (غیر سیاسی اسلامی گروہوں مثلاً تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی)   ،اسلامی جماعتوں( JUP, JUI ،سپاہ صحابہ ،ملی مسلم لیگ, لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )  ومصلحین و خانقاہی سلاسل کے درمیان ارتباط پیدا کرنے کی سعی کریں تو پاکستان میں کوئی  وجہ نہیں کہ ہم اسلامی نظام کیلئے ایک قابل قدر تناسب میں  ووٹ نہ حاصل کر سکیں – 


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16