اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے امیر جناب سراج الحق کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں ایم ایم کا احیاء ممکن ہوتا نظر آرہاہے یہ ایک فطری بات ہے کیونکہ واقعتاً جماعت اسلامی پاکستان کی اسلامی تحریکات کی مرکزی جماعت ہے یہ جماعت اسلامی ہی کی ذمہ داری ہے اور یہ کسی اور جماعت کی بنیادی ذمہ داری ہونہیں سکتی کہ ملک میں جاری تمام تحفظ دین اور غلبہ دین کی تحاریک کو ایک مربوط اور ہمہ جہت اتحاد  میں سمونے کے لئے ایک کامیاب تزویراتی حکمت عملی مرتب کرے

بلبل کو دیا نالہ تو پروانے کو جلنا

غم ہم کو دیا سب سے جو مشکل نظر آیا

  • ہماری ذمہ داری ہے کہ ایم ایم اے کو کامیاب بنائیں ایم ایم اے کو کامیاب اس وقت قراردیا جاسکتا ہے جب اس کی جدوجہد کے نتیجہ میں” ملک کے تمام مخلصین دین(جن کی تعداد کروڑوں میں ہے ) آئمہ مساجد کی قیادت میں متحد اور بااقتدار بنتے چلے جائیں”۔2017 کے انتخابات اس جدوجہد کے آغاز کا ایک اہم مرحلہ ثابت ہوسکتا ہے ان گزارشات میں جو حکمت عملی مرتب کی گئی ہے وہ اس ہی مقصد کو سامنے رکھ کر وضح کی گئی ہے اس حکمت عملی کے اجزا حسب ذیل ہیں ۔
  • ایم ایم اے ایک دیرپا مستقل قائم رہنے والا اتحاد ہو -محض انتخابی اتحاد نہ ہو ماضی میں ایم ایم اے کی بنیادی کمزوری یہی تھی کہ وہ محض ایک سیاسی اتحاد تھا اور اس کی تمام تر توجہ حکومتی کارفرمائی تھی ،اوپری سطح کے اس نوعیت کے نظریاتی اتحاد بہت جلد سرمایہ دارانہ نظم تحکیم میں سمو جاتے ہیں اور ان کی نظریاتی عوامی جڑیں کٹتی چلی جاتی ہیں-  لہذا جماعت اسلامی کو اس بات کی بھرپور جدوجہد کرنی چاہئے کہ اب ایم ایم اے کا اتحاد مساجد کی سطح پر منظم (organize)   ہو اور ایم ایم اے کی قیادت اور کارکن بین المسالک اتحاد کو فروغ دینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیں
  • ایک مذہبی عوامی اتحاد کی بنیاد  اسلامی جذباتیت کے علاوہ اور کوئی چیز فراہم نہیں کرسکتی،  2002ء میں ایم ایم اے کی کامیابی کی جذباتی بنیاد افغان جہاد سے وابستگی تھی آج کل تحریک لبیک یارسول اللہﷺ کی حیرت انگیز کامیابی اس کے عشق رسول ﷺ کو فروغ دینے ہی سے ملی ہے-  لہذا  ایم ایم اے کو اپنی انتخابی مہم کے ذریعہ اسلامی جذباتیت کو ایک طوفان کی طرح ملک میں برپا کرنا ہوگا ایم ایم اے کی انتخابی تحریک  کا مزاجی نعرہ “اسلام خطرہ میں ہے “ہوگا اور ہم لوگوں کو دین کے تحفظ اور اس کی سربلندی کے لئے جانی اور مالی قربانی دینے کی طرف بلائیں گے ،ایم ایم اے کی انتخابی مہم مخلصین دین کے ایک عظیم الشان سیل رواں کی شکل اختیار کرتی جائے-  یہ کام میاں طفیل ؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں  ہم تحریک نظام مصطفیٰﷺ کے زمانہ میں کرچکے ہیں۔
  • لیکن محض جذباتیت کو ہوا دینا کافی نہیں ، تحریک مخلصین دین کو مقامی سطح پر منظم نہ کیا گیا تو انتخابی مہم میں پیدا   کردہ momentum  جلد معدوم       (Dissipate)   ہو جائے گا- مسجد کی سطح پر عوامی  اقتداری            ادارہ سازی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے لیکن مسجد کو مقامی اقتدار کا مرکز اور محور بنانا ایک طویل المدت عمل ہے
  • جماعت اسلامی جو انتخابی منشور مرتب کرے اس کی تمام تجاویز اور وعدہ مسجد کی سطح پر معاشی ،انتظامی ،قانونی ،مشاورتی ،ترسیلاتی ( communicative)    اور ثقافتی اختیارات بڑھانے پر مشتمل ہو -جماعت اسلامی کوشش  کرے کہ اس نوعیت کی ذیادہ  سے زیادہ تجاویز ایم ایم انے کے مشترکہ انتخابی منشور کا حصہ بنیں-
  • ایم ایم اے کے جو نمائندگان اسمبلیوں میں پہنچیں ان کو بنیادی ہدف مسجد کی سطح پر ریاستی اقتدار کا ارتکاز  ہو، وہ سرمایہ دارانہ ریاستی مقامی اقتدار کومسجد کی طرف  منتقل کرنے کی جدوجہد کا تحفظ بھی  کریں اور اس کو فروغ بھی دیں-  ایم ایم اے کے ہر انتخابی امیدوار کو اس بات کا وعدہ کرنا چاہئے کہ مسجد کے انتظامی ،معاشی اور سماجی اختیارات میں توسیع اور    حفاظت کے لئے پارلیمنٹ میں جدوجہد کرے گا اور اگر کسی صوبہ میں ایم ایم اے کی حکومت بنتی  ہے تو یہ حکومت مساجد کے مقامی اقتدار کی توسیع اور حفاظت کو اپنا اصل فریضہ سمجھ کر مستقل انجام دیتی رہے گی
  • جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کے منشور سوشل ڈیموکریٹ (social democratic)اور مسلم قوم پرستانہ  آدرشوں اور اقدامات سے بالکل خالی ہوناچاہئیں اور ان منشوروں میں ان امور پر بالکل گفتگو نہیں ہونی چاہئے جو مخلصین دین کے سواد اعظم کے لئے قابل فہم نہیں یہی چیز ایم ایم اے کے انتخابی منشور کود ہریہ (secular) جماعتوں کے مجوزہ پروگراموںسے ممیز و ممتاز کریگی اور اسلامی انتخابات کی انفردی شناخت کو عوام کی نظر میں برقرار رکھے گی
  • انتخابی مہم سے قبل جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے نکل جانا چاہئے اس حکومت میں شمولیت نے جماعت اسلامی کے نظریاتی تشخص کو بری طرح مجروح کیا ہے ،ہمیں جمعیت علماء اسلام (ف) پر بھی زور ڈالنا چاہئے کہ وہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت سے فی الفور نکل جائے۔
  • انتخابی مہم کے دوران ہمیں تمام دہریہ (secular) )جماعتوں کی اسلام دشمنی کو مستقل مشتہر کردینا چاہئے کسی دہریہ  جماعت سے کسی نوعیت کا کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہئے اور   seat adjustment  کو سم قاتل سمجھ کر رد کردینا چاہئے کیونکہ ایم ایم اے کی انتخابی مہم کا بنیادی مقصد تشخص اسلامی کو فروغ دینا ہے اور اس اجتماعی نظریاتی تشخص کے احیاء کے لئے سیٹوں کی قربانی دینے کے آمادہ رہنا چاہے ،مخلصین دین کی سیاسی انفرادیت کوبروئے کار لانا ہے تو لازماً ان کو دہریہ  (secular) اہداف مثلاقومی ترقی،  عوامی خوشحالی( کی بنیاد پر دہریہ (secular)  جماعتوں سے اشتراک عمل سے دور رکھنا ہوگا۔
  • سیٹوں کی قربانی دینے کے ضمن میں جماعت اسلامی کو ایم ایم اے کی تمام جماعتوں سے ذیادہ فراخ دل و وسیع القلب ہونا چاہئے پنجاب میں جماعت کو کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا پورا  زور تحریک لبیک یارسول اللہﷺ کے امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے صرف کردینا چاہئے،  تحریک لبیک یارسول اللہﷺ مدت بعد مسلم لیگ  کو پنجاب میں   اسلامی جذباتیت کی بنیاد پر موثر طور پر چیلنج کررہی ہے اور انشاء اللہ بریلوی عوام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلم لیگ سے جدا کردیگی اس کے بہت دور رس نتائج قومی سیاست پر مرتب ہونگے جماعت اسلامی کو تحریک لبیک یارسول اللہﷺ کو ایم ایم اے کے دھارے میں سمونے کی بھرپور جدوجہد کرنی چاہئے اور ایم ایم اے میں شامل دوسری جماعتوں کو بھی اس بات پر راضی کرنے کی جدوجہد کرنی چاہئے کہ وہ پنجاب میں تحریک یارسول اللہ ﷺ کی مہمات کی بھر پور حمایت کریں اور  دہریہ دشمن کی یہ خواہش کہ ایم ایم اے تحریک لبیک کی مخالفت کرے ،ناکام بنا دیں – تحریک لبیک کو    mainstream سیاسی دھارے  میں سمونا اس لئے بھی اشد ضروری ہے کہ تحریک کا سیاسی وژن  (vision) محدود ہے اور وہ اس بات کی استطاعت نہیں رکھتی کہ اپنے جذباتی مطالبات کی بنیاد پر نظاماتی تبدیلی کو فروغ دے سکے اگر تحریک لبیک  اسلامی دھارے میں نہ سمو ئی گئی تو وہ جلد دہریہ قوتوں سے علامتی مطالبات منوا کر سمجھوتے کرنے پر مجبور ہوجائیگی
  • بلوچستان اور فاٹا میں بھی  جماعت اسلامی کو کوئی امیدار نہیں کھڑا کرنا چاہئے بلکہ ان دونوں صوبوں میں جمعیت علماء اسلام کی بھرپور اعانت کرناچاہئے ۔
  • اگر متحدہ مجلس عمل محض ایک انتخابی اتحاد نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت سماجی اتحاد بننا چاہتا ہے تو غیر سیاسی اسلامی جماعتیں (بلخصوص تبلیغی جماعت اور دعوۃ اسلامی) کا تعاون ناگزیر ہے مخلصین دین کی بہت بڑی تعداد غیر سیاسی اسلامی اجتماعیوں کے ساتھ منسلک ہے اور غیر سیاسی اسلامی جماعتیں ہی اصلی اسلامی عوامی قوت ہیں ایم ایم اے کو فی الفور غیر سیاسی اسلامی جماعتوں سے روابط قائم کرنا چاہئے اور ان کو سمجھانا چاہئے کہ انتخابی مہمات کا اصلی مقصد دین کی حفاظت اشعار اسلامی کا فروغ اور اقتدار اسلامی یعنی غلبہ دین کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔اگر ایم ایم اے نے اپنے غیر سیاسی اسلامی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیا ب ہوگئی تو اس کی عوامی قوت بہت بڑھ جائیگی ۔
  • جماعت اسلامی تمام اسلامی  تحریکات کے   تحفظ اور غلبہ دین کی مرکزی جماعت ہے اس کو 2018ء کے انتخابی مہم میں ایسے حصہ لینا چاہئے کہ تمام اسلامی جماعتیں اور مخلصین دین بالعموم   یہ بات قبول کرلیں کہ جماعت اسلامی صرف اپنے کارکنوں کی جماعت نہیں وہ سب مخلصین دین کی جماعت ہے اور اس کی جدوجہد کا مقصد تمام تحریکات  کے تحفظ اور غلبہ دین کو متحد ،منظم اور بااقتدار بنانا ہے وہ ایک بین النظریاتی ،بین المسالک جماعت ہے اور اس کو اس بات کو موقع دینا  کہ تمام اسلامی قوتوں کو مجتمع کرے ، ہم سب کا فرض ہے ۔

اب فتح یاب سارے لشکر ہوں

اور دریش کی دعا کیا ہے

یہ چند تجاویز پیش خدمت ہیں آئندہ ماہ میں بھی  ہم ان ایشو پر لکھتے رہیں گے، اور امید رکھتے ہیں کہ ان آراء سے استفادہ کیا جائے گا- ان شاءاللہ


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16