فرائیڈے اسپیشل مورخہ 27اکتوبر تا 2نومبر17ء کی اشاعت میں ان دو اجلاسوں پررپوٹنگ کی گئی ہے جو اس ذلت آمیز شکست سے  پھیلنے والی عام مایوسی کو کم کرنے کے لئے کئے گئے ، فرائیڈے اسپیشل کے مطابق،

 ✓ اس ذلت آمیز شکست کے اسباب وجوہ جاننے کے لئے پورے پاکستان میں مشاورتی اجلاس منعقد کئے گئے ۔

 ✓ ان اجلاسوں میں کھلی بحث اور جواب وسوال ہوئے۔

 ✓ ارکان اور قائدین نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا محاسبہ کیااور غلطیوں  کا  اعتراف کیا ۔

 ✓ اصلاح کے نئےاقدامات پر غور کیا ۔

 ✓ کامیاب عزم نو کنونشن پر کارکنوں کو مبارکباد دی گئی ۔

 ✓ مارچ میں یوتھ کونشن  کا اعلان کیا گیا جس میں کم از کم ایک لاکھ یوتھ کی شرکت کا ہدف رکھا گیا ۔

 ✓ سراج الحق صاحب نے اعلان کیا 2018ء میں اسلامی انقلاب اور جماعت اسلامی کی فتح کا سال ہوگا اور غریبوں ،مزدوروں

اور مجبوریوں کی داد رسی    کا سال ہوگا۔

 

کاش ہم بجائے اس اشک شوئی کے یہ سوال کر سکتے کہ ،

 ✓ ملک بھر میں کہاں کہاں اور کب کب این اے 120 کی ذلت آمیز شکست کے اسباب پر روشنی ڈالنے کے مشاورتی اجلاس ہوئے؟

 ✓ ان اجلاس میں کہاں کھلی بحث ہوئی کون سے سوال اٹھائے گئے؟

 ✓ جماعت کے کن افراد  کا    اور اس کی انتخابی حکمت کا کہاں اور کیسا محاسبہ کیا گیا ۔

 ✓ اصلاح کے کون سے اقدامات پر غور کیا گیا کون سی تجاویز منظور   کی گئ اور کون سی رد کی گئی اور کیوں۔

 ✓ عزم نو کنونشن میں کتنے ارکان نے شرکت کی ان کا تعلق کن حلقوں سے تھا کیا عزم نو کنونشن میں بھی کھلی بحث کی گئی ؟کون سی تجاویز سامنے آئیں ۔کن مجوزہ اصلاحات کو قبول کیا کن کو رد کیا گیا اور کیوں؟

 ✓ مارچ 2018 کے یوتھ کنونشن کے انعقاد کا کیا مقصد ہے کیا یہ ذرائع اور وسائل کا ضیاع نہیں؟

 ✓ این اے 120اور این اے 4 کی ذلت آمیز شکستوں کو سامنے رکھتے ہوئے سراج الحق کیسے 2018 کو جماعت اسلامی کی فتح کی پیشنگوئی کرتے ہیں؟

 ✓ جماعت کا تصور اسلامی انقلاب کیا ہے ،کیا یہ محض ایک نعرہ ہے ۔

 ✓ کیا یہ حقیقت نہیں کہ غریبوں ،مزدوروں اور مجبوریوں کی عظیم ترین اکثریت پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ،اے این پی اور تحریک انصاف  کے ساتھ ہے اور پچھلے چار سال سے ہم نے غریبوں کے حقوق کے حصول اور سرمایہ دارانہ کرپشن کے خاتمہ کے لئے جو ملک گیر تحریک چلا رکھی ہے وہ قطعاً ناکام ثابت ہوئی ہے این اے 120،این اے 4،میں ہمیں کتنے غریبوں اور مزدوروں نے ووٹ دیئے ؟

ہونا تو یہ چاھیے کہ ان سوالات پر ملک گیر کھلی بحث کا اہتمام ہو اور پھر ایک تفصیلی رپورٹ جماعت اسلامی کی قیادت تمام ارکان کو ارسال کرے ،اگر ایسا نہ ہوا (اور اس کا کوئی امکان نہیں) تو عزم نو اور یوتھ کنونشن جیسے نمائشی اقدام سے کارکنوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی ہرگز کم نہ ہوگی ۔یہ نمائشی اجلاس چند گنے چنے افراد کو اپنے دل کو بھڑاس نکلالنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔جماعت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچہ میں کارکنوں میں مستقل بنیاد پر کھلی بحث جاری رکھنے کا کوئی ذریعہ  یا فورم  سرے سے موجود ہی نہیں ،تمام  کارکنان کی رائے سن لی جاتی لیکن اس بنیادی پر پالیسی  تنفیظ کا کوئی اہتمام نہیں،ہمارے ہاں  پالیسی سازی ​​صرف قیادت کا فریضہ بن کر رہ گیا ہے اور اپنی پالیسیوں کی  ​پیہم ناکامیوں کے لئے وہ کسی کو جواب دہ نہیں ،  عام کارکن محض cheer leader بن کے رہ گئے ہیں اپنی بڑھتی ہوئی مایوسی کا اظہار وہ اپنی (apathy  )غیر فعالیت   سے کرتے ہیں عام کارکن میں اور قیادت میں ذہنی اور جذباتی فاصلے بڑھتے جارہے ہیں قیادت ایک نوکر شاہی (bureaucracy   ) بنتی جارہی ہے یہ تمام centralist democratic پارٹیوں کا مشترکہ المیہ ہے-

ہم کتنے بڑے جلسے کریں اس کا کوئی اثر 2018 ءکے انتخابی نتائج پر نہیں ہوگا ہماری سیاسی قوت نہ جلسوں سے بڑھ سکتی ہے نہ ​برادر تنظیم سازی سے ، JI یوتھ کی چھ لاکھ کی نفری 2018 ءکے انتخابات میں بالکل بے اثر ثابت ہوگی این اے 120 اور این اے 4 میں ہمیں کتنے یوتھ نے ووٹ دیے؟ جبکہ این اے 04 کو یوتھ کو کافی طاقتور سمجھا جاتا تھا ۔

حقیقت یہ ہے کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ جماعت اسلامی کا دستوری اور تنظیمی ڈھانچہ ( Infrastructure)پاکستان میں ریاستی اقتدار کے حصول کے لئے بالکل ​ناموزوں ہے لیکن ہم اپنی تاریخ کے قیدی بنے ہوئے ہیں اور ہماری قیادت اور ہمارے ارکان اس دستور اور تنظیمی ہئیت  کو مقدس تصور کرتے ہیں وہ اس میں ذرہ برابر تبدیلی کو گناہ عظیم تصور کرتے ہیں اگر ہماری روش یہ ہی رہی تو 2018ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی عبرتناک شکست نوشتہ دیوار ہے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16