ایک عرصہ دراز کے بعد پاکستان کی غلبہ دین کی جدوجہد کو تحریک لبیک یارسول اللہ کی ہمت، جرات اور ایثار کے نتیجے میں ایک عظیم الشان فتح سے نوازا۔ ہم اللہ رب العزت کا اس عظیم انقلابی کامیابی پر جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ ایک درویش ، خدا مست نے ہمیں عدیم المثال کامیابی دلائی۔ اللہ نے حضرت مولانا علامہ خادم حسین رضوی کی صورت میں جہاد 1857ء کے رہ نماؤں مولانا مدراسی اور مولانا فضل الحق خیرآبادی کا جانشین عطا فرمایا ہے۔

لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بہ کف

ہماری اس عظیم الشان کامیابی کی وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ ہمارے دائمی دشمنوں کے ردِعمل سےلگایا جا سکتا ہے۔ میڈیا میں تحریک غلبہ دین کا سب سے قدیم اور سب سے موثر دشمن ڈان اخبار اور اس کا مدیر ظفر عباسی ہے ۔ وہ اپنے 28 نومبر کے اداریے میں لکھتا ہے:

“The agreement between the state and protesters is a surrender so abject that the mind is numb and the heart sinks; a devastating blow to the legitimacy and moral standing of the government and all state institutions… something profound changed in the country yesterday”

“ریاست اور مظاہرین کے درمیان یہ معاہدہ ریاست کی اتنی ذلت آمیز شکست ہے کہ ہمارا دماغ ماؤف ہو گیا ہے اور ہمارا دل بیٹھ گیا ہے۔ یہ ریاست کے وجہ جواز اور اقتداری بالادستی کو لگنے والا ناقابل برداشت جھٹکا  ہے۔ کل ملک کا نظام اقتدار ہمیشہ کے لیے متزلزل کر دیا گیا”

الحمدللہ بیس دن کی جدوجہد کے نتیجے میں تحریک لبیک یارسول اللہ اور سنی تحریک کے تقریباً تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئےاور یوں شہیدانِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانوںکی قربانیاں رنگ لائیں۔ حکومت اور سول انتظامیہ عاشقانِ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے  سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی ۔

لیکن اس کامیابی کو غلبہ دین کی مکمل فتح کا پیش خیمہ ہونا چاہیے۔ ہم ملک میں صرف چند شعائر اسلام کے تحفظ پر اکتفا کر لیں تو قیام نظام اسلامی کا مقدس مقصد حاصل نہ ہو سکے گا بلکہ اسلامی جدوجہد سرمایہ دارانہ نظم اقتدار میں لازماً ضم ہو جائے گی۔ اس عظیم جدوجہد نے واضح کر دیا ہے کہ اسلامی اقتدار کے قیام میں کون سی ریاستی قوتیں ہماری مزاحم ہیں۔

ہماری سب سے زیادہ اصولی مخالفت عدلیہ نے کی اور کیوں نہ ہو کیوں کہ ہم نفاذِ شریعت کے علم بردار ہیں اور شریعت کا نفاذ دہریہ (سیکولر) نظام قانون کو معطل کر کے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس صدیقی نے فوج پر دستور  کی اور ملک کے اساسی قانون کی مخالفت کا الزام لگایا۔ سپریم کورٹ نے سول انتظامیہ اور فوج سے دریافت کیا کہ کیوں وہ فدایانِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم  پر حملہ آور نہ ہوئےاور حکومت کیوں شہدائے ناموسِ رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر متاثرین کو جانی اور مالی نقصانات کا بدلہ دینے پر آمادہ ہے۔ عدلیہ کے اس رویے سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ پاکستان کا حالیہ دستور نفاذِ شریعت کی اجازت نہیں دیتا اور غلبہ دین کی تحریک عدلیہ سے کسی مثبت رویہ اور اقدام کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

ہمارا دوسرا سب سے اہم حریف ملک کی دہریہ (سیکولر) جماعتیں ہیں۔ مسلم لیگ نون پر قادیانی غلبہ تو اب اظہر من الشمس ہے۔ پیپلز پارٹی  تو  زمانہ قدیم سے اپنی اسلام دشمنی کے لیے مشہور ہے  ،خورشید شاہ نے اسلام کو اقتدار کی کش مکش سے علیحدہ رکھنے کی سفارش احتجاج کے دوران کی۔ تحریک انصاف نے اپنا روایتی موقع پرستانہ( opportunist)  رویہ احتجاج کے دوران قائم رکھا اور قادیانیوں کے بڑھتے ہوئے ریاستی اور معاشی غلبہ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

ہمارا ایک اور اہم مخالف ملک کے نشریاتی ادارے (میڈیا) ہیں خواہ نجی خواہ سرکاری۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے غازی ممتاز قادری رحمہ اللہ کے عدیم المثال جنازے کے جلوس کا مکمل بائیکاٹ کیا اور جس میں قادیانی امریکی ایجنٹ یہودیوں کے پروردہ نوکر چاکر اور اشتراکی اور قوم پرست دہریہ چھائے ہوئے ہیں۔ اس سے خیر کی توقع ممکن نہیں۔

تحریکیں کمزوریوں سے مبرا نہیں ہوتیں ، اور خاص کر  نووارد  و نوآموذ تحریکیں تو  اپنی اندرونی  کمزوریوں کے ساتھ ساتھ “بیرونی دراندازی” کے خطرات سے ہمہ وقت  دوچار رہتی ہیں اور ان  اندرونی کمزوریوں و  بیرونی دراندازیوں سے ان تحریکات کو بچایا  نا  جائے تو یہ جلد ہی تحلیل (Fizzle out)  یا  غیر موثر (marginalized)  ہو سکتی ہیں اور یہ بات نظاماتی کشمکش کا  شعور رکھنے والی ہماری جماعت  اسلامی کے لیے کیسے قابل برداشت ہو سکتی ہے کہ کوئی اسلامی بنیادوں پر اٹھنے والی جاندار عوامی تحریک یوں ضائع ہو-    ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ،  ہم   آئندہ کے مضامین میں کچھ گزارشات  جماعت اسلامی کے غور و فکر کے لیے  رکھیں گے اور کچھ تحریک لبیک کے رہنماوں کی خدمت اقدس میں   پیش کریں گے، امید ہے متعلقین ان مخلصانہ گزارشات کو توجہ کے قابل سمجھیں گے-


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16