نحمد و نصلی علیٰ رسول الکریم 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

چند باتیں ہیں جو آپ کے گوش گزار کرنی ہیں :
پہلی بات:
گزشتہ تین سے چار صدیوں سے اہلِ مغرت کا عروج رہا ہے جبکہ مسلمان پستی کا شکار رہے ہیں ۔

اللہ رب العزت قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں : تِلکَ الَایّامِ نداوِلہُما بَینَ النّاس۔
ترجمہ: لہٰذ ا کبھی مسلمانوں کو عروج دے کر آزمایا گیا کبھی پست کر کے امتحان لیا گیا۔

 
البتہ اب اہلِ مغرب کا عروج بھی ختم ہو چکا ہے انکی تہذیب دم توڑ چکی ہے علامہ اقبال رحمۃاللہ تعالیٰ نے کہا تھا:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آ کے خود کشی کرے گی 
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا 
اس وقت کی صورتحال کے مطابق ایک پیش گوئی ہوئی جو پوری ہو چکی ۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام اپنے تخت پر تشریف فرما تھے ہاتھ میں عصا تھا ان کی روح قبض ہو چکی تھی البتہ دیکھنے والوں کو محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ جن اپنے کاموں میں مصروف تھے جب دیمک عصا چاٹ چکی تو قومِ جن پر یہ عقدہ کھلا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام تو وفات پا چکے تھے۔ اور ہم بلا وجہ کام کرتے رہے۔ 
اسی طرح صورتحال یہ ہے کہ اہلِ مغرب ختم ہو چکے ہیں یہ نہیں کہ ہو جائینگے اور میں اس کی وضاحت کروں گا انشااللہ۔
دوسری بات:
دوسری بات یہ ہے کہ وہ خنجر جس سے انہوں نے خود کشی کی وہ آج ہماری گردنوں میں بھی ہے لیکن ہمیں اس کی پہچان ہی نہیں۔ لہذا
۱۔ ہمیں اس خنجر کو پہچاننا ہے۔
اس زہر کو پہچاننا ہے جو ہمیں پلایا جا رہا ہے تاکہ اس سے بچ سکیں ۔
تیسری بات:
تیسری بات یہ ہے کہ وہ کون سے کام ہیں جو اس وقت ہمیں کرنے ہیں تاکہ ہم دوبارہ وہ مقام حاصل کر سکیں جو اللہ تعالیٰ نے اس امّت کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔ 
مقامِ مسلم:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا خلیفہ بنا یا ہے اور دنیا میں ہم سے عروج کا وعدہ کیا ہے ۔ مگر یہ وعدہ ہمارے بعض اعمال سے مشروط ہے۔ دین کے بہت سے اعمال میں ہر عمل کا کچھ اثر ہوتا ہے۔ اہلِ مغرب نے چونکہ دنیا کو اسباب کی دنیا سمجھا تو یہ گمان کیا کہ دنیا کے عروج کا تعلق مال اور ہتھیار سے ہے۔ چنانچہ انہوں نے بہت سے اسباب بنائے اور وہی سب حاصل کرنے کے لئے ہماری امت کا ایک بڑا طبقہ محنت کر رہا ہے۔ جس چیز کو اہلِ مغرب نے اپنی کامیابی کا راز قرار دیا، اس طبقہ نے اپنی کامیابی کو اسی چیز میں پوشیدہ قرار دیا۔ حالانکہ ہماری امّت کے عروج و زوال کے اسباب اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان فرما دئے۔
تو دین کے وہ کون سے اعمال ہیں جو اس وقت بہت ضروری ہیں یہ چند بنیادی باتیں ہیں جن کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ 
مقصدِ حیات:
ہر شخص اس وقت ذمہ دار ہے اور ہر شخص ہر کام کر سکتا ہے ۔ کم تعداد اور اکیلے ہونے پر نظر نہیں جانی چاہیے۔ بلکہ اللہ ربّ العزّت کی طرف نگاہ اٹھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بہت قیمتی بنایا ہے اور بہت زبردست طاقت دے رکھی ہے۔ 
ایک ایٹم بم میں اللہ تعالیٰ نے صفت رکھی ہے کہ اگر وہ پھٹ جائے تو سارے شہر کو ختم کر سکتا ہے ۔ اسی طرح ہر مومن کے اندر یہ طاقت رکھی ہے کہ اگر س کے اندر ایمان کا جذبہ جاگزیں ہو جائے تو اس کی طاقت سے پہاڑ ہل جائیں دنیا کی تاریخ بدل جائے اور اس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ایک ایک آدمی نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ لیکن ہم نے اپنا مقام نہیں پہچانا۔ ہم نے اپنا مقصد نہیں پہچانا، اپنی ذات کے اندر پوشیدہ گوہر کو نہیں جانا۔ 
اللہ کی عجیب قدرت:
جس طرح ایک بیج میں اللہ تعالیٰ نے ایک درخت نہیں بلکہ پورے جنگل کا نقشہ رکھا ہے ۔ عجیب بات ہے اس ایک بیج میں تنا، پھل ، پتے اور اس کے تمام اجزاء ہوتے ہیں ہر ایک کا الگ فارمولہ ہوتا ہے ۔ جیسے کیمیکل فیکٹری ، کہ اس میں دوائیاں تیار کی جاتی ہیں ۔ ہر دو کا الگ الگ complex formula پچیدہ فارمولا ہوتا ہے۔ اس کی quality control کا نظام ہوتا ہے۔ اگر کوئی دوا غلط بن جائے تو اس کو ضائع کرنے کا مکمل انتظام ہوتا ہے۔ ایسے ہی اس بیج کے اندر مکمل نظام ہے بلکہ کاریگر بھی اللہ تعالیٰ نے اس بیج میں رکھا ہے۔ آپ زمین میں ڈال دیں وہ سارا کام خود کر لیتا ہے۔ اگر وہ بیج صحیح جگہ پہنچ جائے تو اس سے ایسی چیز وقوع پذیر ہوجو محیّر العقل ہو ۔ اگر روزانہ مشاہدہ نہ کریں تو ہم کہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ لیکن چونکہ روز دیکھتے ہیں اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اللہ کی کاریگری کا معجزہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے لیکن ہم اثر نہیں لیتے۔
دل:
اس سے بہت بڑی چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کے اندر رکھی ہے۔ لیکن وہ بھی اپنے محل پر پہنچ کر ترقی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اتنے بڑے ہیں کہ ساری کائنات میں سما نہیں سکتے لیکن اگر دل کی صفائی کر لی جائے تو مومن کے دل میں آ جاتے ہیں۔ جس دل میں اللہ تعالیٰ آ جائیں اس دل کی قوّت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لئے ہر انسان اہم ہے اور اس کے ذمّے بہت بڑا کام ہے۔ ہم نے خود ہی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھا اور خود کو چھوٹا کر لیا۔ اگر ہم دنیا کو بدلنے کا عزم کر لیں تو اللہ تعالیٰ ہم سے دنیا بدلنے کا کام لیں گے اور اگر یہ عزم کر لیں کہ نوکری کر کے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کروں گا تو یہی ہو گا۔ 
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگئی داماں بھی ہے
اللہ ربّ العزّت نے بہت بڑی بڑی چیزیں عطا کی ہیں ہم نے خود ہی اللہ سے کچھ مانگا ہی نہیں ۔
تو یہ بنیادی طورپر اس بات کا خلاصہ ہو گیا جو میں کرنے جا رہا ہوں۔
پہلا موضوع:
اب ہم پہلے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ اہلِ مغرب نے خود کشی کی :
۱۔ وہ کیسے حالات میں ہیں ۲۔ اس وقت کیا ہو رہا ہے ۳۔ اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ۔
علامہ اقبال رحمۃاللہ کے کہا:
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
اہلِ مغرب نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان چیزوں کو بھی جائز اور پسندیدہ قرار دیا جنہیں صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ تمام معاشروں میں برا سمجھا گیا۔ زیادہ تفصیل کا وقت تو نہیں اس لئے صرف ایک بات پر اکتفاء کرتا ہوں اور وہ ہے مال کی پرستش۔
مال کی پرستش:
یہ بہت بنیادی بات ہے جو سب کو lead کر رہی ہے مال کو تمام چیزوں کا معیار بنا یا گیا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ مال و دولت کو مقصدِ زندگی بنایا جائے۔ اس کے حصول کے لئے تمام ذرائع کو جائز قرار دیا جائے اور انسان کی قیمت اس کے پاس موجود مال و دولت سے لگائی جائے۔ اور یہ تمام کام اہلِ مغرب نے کئے۔ اور یہ بات اتنی مشتہر ہو گئی کہ اب ہمارے ذہنوں میں بھی رچ بس گئی اور دل میں اتر گئی۔ یہ ایک زہر ہے جس سے ہمیں بچنا ہے۔ خنجر کے جو اجزاء ہیں جو ہماری گردن پر ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔ 
ضمیر فروشی:
میں نے کئی طلبہ سے بات کی ۔ عام طور پر ان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہمیں خریدا جا سکتا ہے ۔ اہلِ مغرب کا مقولہ ہے:Everyman has his price اور ہم نے بھی یہی سمجھا ۔ لہذا ہمارے طلبہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ڈگری لے کر مارکیٹ میں جائیں گے جو سب سے بڑی بولی لگانے والا (highest bidder) ہو گا وہ ہمیں خرید لے گا۔ اگر اچھے دام مل گئے، اگر لاکھ روپے تنخواہ مل گئی تو زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔ اس سے زیادہ اور کون مانگ سکتا ہے۔ 
مجھے ایک شخص ملا کہ میں ایک Multinational کے لئے کام کر رہا ہوں مجھے اچھی تنخواہ دے رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے لیکن میں نہیں کروں گا تو کوئی اور کرے گا اس شخص نے اپنے آپ کو ، اپنی روح کو اپنے ایمان کو پیسے کے لئے بیچ دیا۔ 
اسی طرح سب کو تیار کیا گیا۔ حتیٰ کہ ایک ڈاکٹر جو طب پڑھ رہا ہے اس کے ذہن میں یہ ہے کہ میں غریب ، بیمار، مجبور اور کمزور لوگوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پیسہ کماؤں گا۔ یہ سوچ و فکر تمام معاشروں میں ذلیل ترین اور انسانیت سے گری ہوئی سوچ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج ہر آدمی کی یہی سوچ لگتی ہے اور اس میں کوئی برائی ہی نظر نہیں آتی۔ یہ وہ زہر ہے جسے مغرب نے پھیلایا ہے اور اس کے اثرات سے ہم سب مجروح ہیں اور اسے ہمیں نکالنا ہے۔ مال و دولت کی محبت کو دل سے نکال باہر کرنا ہے۔ 
اثرات:
تواس کا اثر کیا ہوا؟ اہلِ مغرب پر یہ ظاہر ہے، انہوں نے خود کہا ہے۔کہ پورے کا پورا مغرب جڑ سے اکھڑ کر ختم ہو گیا۔ ان کا خاندانی نظام ٹوٹ گیا ۔ ایک خاندان سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں بچے (manufacture) تیار ہوتے ہیں ان کی تربیت ہوتی ہے اگر انکی تربیت غلط ہو تو برا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اچھی تربیت ہو تو ایک اچھے معاشرے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ 
راز:
یہی وہ راز تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نسل میں دنیا بدل دی مسلمان گھرانوں میں تربیت یافتہ بچے ایمان والے تھے اور اس کے بالکل واضح شواھد موجود ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے دل میں ایمان کے جذبات جاگزیں ہیں ۔ جیسے حضرت اسمٰعیل علیہ الصلاۃ والسلام کا واقعہ ہے اگرچہ کہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ نہیں لیکن یہ دکھلاتا ہے کہ بچے کی تربیت کس حد تک کی جا سکتی ہے ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایک بچے کو اس کا والد کہے کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ۔ تو وہ بچہ کہتا ہے کہ ابا جان آپ وہ کیجئے جس کا آپ کو حکم کیا گیا۔ انشاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ 
کیا تربیت ہے؟ اور یہ وہ تربیت ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تمام گھرانوں میں کروا دی۔ معاشرہ بدل گیا۔ ایسے لوگ تیار ہوئے جنہوں نے ساری دنیا پر حکومت کی۔ اللہ تعالیٰ نے پرکھا کہ یہ لوگ اس لائق ہیں کہ انہیں دنیا کی حکومت دی جائے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی حکومت دے دی۔
اہم کام:
اب بھی ہمارے سامنے سب سے اہم کام یہی ہے کہ بچوں کی تربیت اس طرح ہو کہ وہ سوچ بھی نہ سکیں کہ ہم جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، رشوت بھی لے سکتے ہیں اگر اس طرح تربیت ہو جائے تو جو حالات اب پیش آ رہے ہیں وہ نہ ہوں ۔ لیکن تربیت میں کمی کی وجہ سے ہر بچے کے دل میں یہ ناسور ہے کہ پیسے کی خاطر سب کچھ کرنا جائز ہے۔ اب آپ لانگ مارچ کریں یا شارٹ مارچ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ ایک کو ہٹائیں گے دوسرا آئے گا وہ بھی وہی کام کرے گا کیونکہ وہ بھی پیسے کا غلام ہے۔ تو جب تک یہ ناسور دل سے نہیں نکلے گا اس وقت تک اسلام کا کوئی chance نہیں۔
زندگی کی قیمت:
ایک عمومی تصور (Concept) ہے Value of life کہ انسان کی زندگی کی کیا قیمت ہے ۔ ایک نے کہا کہ 
جتنا پیسہ وہ کما سکتا ہے وہ اسکی قیمت ہے۔ 
شروع میں اس تصور کو بہت برا سمجھا گیا کہ بھلا انسان کو پیسے میں تولا جا سکتا ہے ؟ لیکن اب یہ بات اتنی معروف ہوئی ہے کہ ہر شخص اس کو مانتا ہے۔ اس کے خلاف بات کی جائے تو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اچھا ایسا نہیں ہے۔ لہذا معاشرے نے اس کو قبول کیا کہ انسان کی قیمت و ہی ہے جو وہ کما سکتا ہے۔ زیادہ کمانے والا زیادہ قیمتی ، کم کمانے والا کم ،کچھ نہیں کما رہا تو بے قیمت۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورتوں کا جو کام تھا ’ بچوں کی تربیت‘ جس پر ان کو پیسے نہیں ملتے تھے اس کی قدر ختم ہو گئی۔ حالانکہ معاشرے میں سب سے اہم کام عورت ہی کا ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو تربیت دیتی ہے۔ اگر درست تربیت ہو تو معاشرہ سدھر جائے اگر غلط تربیت ہو گی توسارا معاشرہ بگڑ جائے گا۔ یہ بات اہلِ مغرب نے نہیں پہچانی کیونکہ پیسہ نہیں ملتا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ Women’s Liberation Movement شروع ہوئی۔ 
عورتوں نے کہا کہ ہمیں بھی آزادی دی جائے کہ ہم بھی نوکری کر سکیں تاکہ ہماری بھی کچھ قیمت لگے۔ چنانچہ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے لگا۔ تو آہستہ آہستہ یہ ہوا ۔ آج بھی امریکا میں یہ حال ہے کہ اگر ایک عورت سے پوچھا جائے کہ تم کیا کرتی ہو تو اگر وہ نوکری نہیں کرتی تو اسے یہ کہنے میں شرم آتی ہے کہ میں گھریلو بیوی (Housewife) ہوں یا میں ایک ماں ہوں۔ 
یہ گذشتہ 50 سالوں سے ہو رہا ہے کہ معاشرے کے سب سے اہم کام کو انہوں نے کوئی value نہیں دی ۔ چنانچہ جب عورتوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں نوکری دی جائے گھر سے باہر آنے دیا جائے تو آہستہ آہستہ گھرانے ٹوٹنے لگے۔ خاندان کی بینادی چیزیں جن سے خاندان جڑا ہوتا ہے ختم ہو گئیں انہوں نے بچوں کی پرورش کی Cost of benifit کا حساب کیا کہ ہم ان پر کتنا خرچ کرتے ہیں اور وہ ہمیں نقد میں کتنا واپس دیتے ہیں تو کہا کہ ہم تو Loss میں جا رہے ہیں۔ بچوں کی پرورش پر ہمارے اتنے ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور واپس کچھ بھی نہیں ملتا۔ لہذا بچوں کی پرورش و تربیت کے کام کو چھوڑ دیا گیا۔ تو یہ ساری چیزیں ڈالر میں Calculate (جانچی) کی جانے لگیں ۔ اس طرح بچوں نے بھی جو ان ہو کر کہا کہ بڈھے کو ہم کیوں ساتھ رکھیں ۔ اب تو وہاں یہ روش ہے کہ کوئی بھی بچہ اپنے والدین کو ساتھ نہیں رکھتا۔ سب کو Old-home میں ڈال دیتے ہیں یہ وہ پہلی وجہ تھی جس سے خاندان ٹوٹا۔ اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں ہم اپنی عورتوں کو کام نہیں کرنے دیتے۔ مگر یہ زہر ہمارے اندر بھی ہے ۔ ہماری نظر میں عورت کم تر ہے۔ ہم حاکم ہیں کیونکہ ہم اس کے لئے اور گھر کے لئے کما کر لاتے ہیں تو نعوذ باللہ ہم نے سمجھا کہ روزی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یعنی ہم نے خود کو خدا اور اس کو بندہ سمجھ لیا۔ جو ہم کہیں وہ کرے، بیوی کو مارنا ایک معمولی بات سمجھ لی۔ جس ماں کی عزت نہ کی جائے وہ اپنے بچوں کو عزت اور خود داری کا سبق کیسے پڑھا سکتی ہے؟ شوہر کے ڈر سے بیوی جھوٹ بولتی ہے اور بچوں کو بھی سکھاتی ہے ’یہ بات ابا کو نہ بتانا‘ ہم خوش ہیں کہ ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے اور نسل تباہ، گھر کا ماحول خراب اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ 
ہوس پرستی:
تیسری بات یہ کہ انہوں نے ہوس اور نفس پرستی کی ایک وبا پھیلا دی اور یہ اس طرح سے کہ اصل میں جو حدیث میں آیا ہے کہ :
’دجال آئے گا اس کے ایک ہاتھ میں جنت اور دوسرے میں جہنم ہو گی ۔ اپنی پرستش کرنے والے کو اپنی جنت میں اور انکار کرنے والے کو اپنی جہنم میں دھکیل دے گا‘
اہلِ مغرب نے اس کو بالکل حقیقت بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے ایک جنت بنائی جو ہمیں نظر آتی ہے۔ جو بھی ٹی وی دیکھتا ہے یا ان کے ناول پڑھتا ہے یا ان کے میگزین پڑھتا ہے تو بظاہر اسے نظر آتا ہے کہ یہ تو جنت میں ہیں ۔ مگر درحقیقت وہ جہنم میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک شعبدہ ہے ، ہوس کو انہوں نے اجاگر کیا ہوا ہے اور ہوس پرستی کو اپنا دین بنایا ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں فرمایا ہے کہ:

اس کی مثال یہ ہے کہ انسان کی نفس پرستی کو اس نے بہت ہوا دی حالانکہ یہ کبھی بھی اچھی نہیں سمجھی گئی۔ لیکن انہوں نے اس پر معاشرے کی بنیاد رکھی کہ انسان اپنے نفس کی پرستش کرے گا۔ اس نظریے کی بنیاد اللہ کی ذات کا انکار اور موت کے بعد کی زندگی کا انکار ہے۔ یعنی جو کچھ ہے اسی دنیا میں لینا ہے مرنے کے بعد نہ زندگی ہے نہ کوئی پوچھنے والا۔ لہذا جو ملے اس پر ہاتھ ڈال دو۔ لیکن جو اہلِ ہوس ہوتے ہیں وہ لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ جب انسان ہوس پرست ہو جاتا ہے تو ایک نوالہ اس کے منہ میں ہوتا ہے تو دوسرا ہاتھ میں اور تیسرے پر نظر ہوتی ہے۔چنانچہ منہ کے نوالے سے جس میں اصل مزہ ہے وہ لطف اندوز ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ ڈر لاحق ہوتا ہے کہ ہاتھ میں اور نظروں میں جو نوالہ ہے وہ لوگ کھا نہ جائیں ، بالکل اسی طرح انہوں نے اپنی خاندانی زندگی تباہ کر ڈالی ہے۔ حوروں کی تصویریں ہر جگہ پھیلا دی ہیں ۔ انہیں اس طرح پیش کیا جا تا ہے کہ بس وہ تمہارے لئے حاضر ہیں ۔ جبکہ اسلامی معاشرے میں غیر محرم عورت پر نظر ڈالنا جرم ہے۔ لہذا Automatically ایک شخص کو اپنی بیوی خوبصورت لگتی ہے۔ تو کوئی بھی اس کی بیوی چاہے دنیا کو حور ہی کیوں نہ ہو وہ اس سے راضی نہ ہو گا۔ اور اس سے لطف اندوز بھی نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ ایک خیال بنا کرپیش کیا جا رہا ہے۔ سگریٹ کے اشتہار میں دکھاتے ہیں کہ ساحل سمندر پر ایک شخص خوبصورت گھوڑے پر بیٹھا کش لگا رہا ہے۔ خوبصورت ترین لڑکی اس کے بازو میں ہے۔ ان کی Study کے مطابق یہ Message سیدھا انسان کے دل میں اتر جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھنے والا سوچتا ہے کہ میں بھی ایک کش لگاؤں گا تو وہ گھوڑا ، لڑکی سب مجھے مل جائے گا۔ لیکن ملتا کیا ہے؟کینسر نہ لڑکی ہاتھ آئی نہ گھوڑا۔ یہ ہے وہ دجال کی جنت، کہ دیکھنے میں کچھ اور نظر آتی ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ 
تو اب یہ صورتحال ہے کہ خاندان بکھر چکے ہیں اب ایک بچہ ماں کی مامتا کو ترستا ہے باپ کی شفقت سے بھی محرم رہتا ہے۔

Survey 2001 میں انہوں نے 30,000 ہائی اسکول کے طلبہ کا Survey کیا جس میں یہ بات معلوم ہوئی کہ 30 فیصد طلبہ نے اپنے والدین ، دوستوں اور قرب جوار کی دکانوں سے چوری کی ہے۔ اور جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ تمہاری اخلاقی اقدار (Moral Values) اور اخلاقیات (eithics) کیسی ہیں تو ہر ایک نے خود کو بہترین قرار دیا۔ 
یعنی تربیت اتنی خراب ہوئی ہے کہ انہیں اچھے اور برے کی تمیز ہی نہیں ایثار و محبت سے عاری ہیں۔ دوستی و دشمنی کے فرق سے نا بلد ہیں انسانیت کو نہیں پہچانتے۔ یہ انکی درندگی منظر عام پر آ چکی ہے۔ لیکن انہی معاشرتی اقدار کا پر چار کیا جا رہا ہے۔ 
ہمارے بچپن میں فلموں میں برائی کرنے والے کو یقین ہوتا تھا کہ اس کو سزا ملنی ضروری ہے۔ ان جو فلمیں آ رہی ہیں ان میں پیشہ ور قاتل پیسہ لے کر قتل کرتے ہیں کسی کو بھی hire کر لو ان کو کوئی سزا نہیں ملتی بلکہ وہ Hero ہوتے ہیں ۔ کوئی اخلاقی اقدار باقی نہیں رہیں ۔ یہ ہے وہ زہر جو ہماری نسلوں کو پلایا جا رہا ہے اور ذحنوں میں یہ خناس بھرا جا رہا ہے ان جو نسل آ رہی ہے اس کو کچھ معلوم نہیں کہ انسان کیا ہوتا ہے۔ یہ اب ختم ہو چکے ہیں اس کو ان علماء نے بھی جانا ہے western expert اب اس کے لئے کچھ کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس وہ مادہ نہیں جس سے وہ اس معاشرے کو دوبارہ بنا سکیں جو زیادہ عقلمند لوگ ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ family breakdown کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہ ہو چکا ہے اس کو درست کیا جائے۔ لیکن درست کرنے کے لئے جو چیز درکار ہے وہ ان کے پاس نہیں جس طرح سےHumpty Dumpty had a great fall ہے کہ وہ ٹوٹ گیااس کو واپس ڈھالنے کا کوئی طریقہ نہیں دین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال چکے۔ وفا، محبت، ایثار اور وہ اخلاقی اقدار جن کی ایک معاشرے کی تعمیر میں ضرورت ہوتی ہے ان کا کوئی source نہیں رہا۔ 
اہم بات؍راہِ عمل:
اب اہم بات یہ ہے کہ ہم کیا کریں ہماری نسلیں بھی اسی زہر میں پل رہی ہیں۔ اور یہی خیالات ان کے دل میں اتر رہے ہیں جن کے اثرات ہمارے سامنے ہیں ۔ لہذا اب فیصلہ کرنا ہے کہ:
۱۔ ہمیں ان سے دھوکا نہیں کھانا
۲۔ ایسے خاندان کی تشکیل دینی ہے جس کی بنیاد ہی اسلامی تعلیمات ہوں 
کیونکہ خاندان میں خرابی و نقص معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں خاندان کو مضبوط کرنا ہے۔ 
عشق کا زہر:
ہمارے معاشرے میں بھی اب طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان طبقے کو Romance سکھلایا جا رہا ہے انسان کو عشق کرنا چاہیے لیکن صرف اپنی بیوی سے۔ اور کسی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اس کے برعکس message مل رہا ہے۔ تمام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس سوچ میں ہیں کہ ’مزے کرو ‘ یہ بہت بڑا زہر ہے خاندان اس سے بہت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اوّل تو غیر محرم سے بات نہ کریں اگر ضرورت ہو تو درستگی کے ساتھ کہ دل میں کسی قسم کا غلط خیال پیدا نہ ہو۔ یہ تو ایک جزو ہو۔
دوسرا جزو:
دوسرا جزو یہ ہے کہ پیسے کی پرستش نہیں کرنی ۔ جو محنت کرنی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے کرنی ہے۔ یہ ہمارے دین کا حصّہ ہے رسول اللہ ﷺ نے سکھلایا ہے اور عقل کا بھی تقاضا ہے کہ مال و دولت کی پرستش نہ کی جائے کیونکہ یہ بذاتِ خود مقصود نہیں بلکہ اپنی ضروریات کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ ذریعہ پیسے کے علاوہ اور کچھ بھی ہو سکتاہے۔ ضروری نہیں کہ مال و دولت ہی ہو گا تو ہماری ضروریات پوری ہوں گی۔ 
مال و دولت خوشی کے ضامن نہیں:
آج یہ بات بہت عام ہے کہ پیسے کی خاطر اپنے دوست کو دغا دی جاتی ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ کاروباری شریک دھوکہ دیتا ہے۔ حتی کہ بھائی نے اپنے بھائی کو بھی دھوکہ دیا۔ تو یہ مال و دولت آج کل دوستی، رشتہ داری اور محبت سے بھی زیادہ قیمتی شمار کیا جانے لگا ہے۔ ملینئرز (millionaires) کی ایک study تھی جس میں ایسے لوگ شامل کئے گئے جن کے اپنے جہاز اپنے جزیرے اور بے انتہا دولت تھی ۔ اس study میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ سخت نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بیوی اور بچے اس سے نفرت کرتے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ جتنا مال و دولت کمانا ہے اتنی محنت بھی کرنا ہو گی۔ لہذا ان کے پاس اپنی بیوی اور بچوں کے لئے وقت نہیں۔ بچوں کو مرسڈیز بھی خرید کر دیتا ہے مہنگے ترین اسکول میں ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کرتا ہے لیکن جب اس سے والد کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو جواب ملتا کہ والد بہت خراب ہے۔ کیونکہ اس کے پاس میرے لئے وقت نہیں مجھے اس کی محبت چاہیے۔ مجھے ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں ۔
اب وہ انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے جس کی اولاد اور بیوی اسے نفرت کرتے ہیں۔ 
محبت اہم ہے:
تو انسان کی زندگی میں محبت اہم ہے۔ دوستی اہم ہے لوگوں کی عزت اہم ہے۔ آپ کے کپڑے پرانے ہیں لیکن لوگ عزت کرتے ہیں تو یہ بہت بڑا خزانہ ہے۔ آپ بڑے بڑے محلوں میں رہتے ہیں لیکن لوگ آپ کے منہ پر تھوکتے ہیں تو آپ اس کے اندر خوش نہیں رہ سکتے۔ جو اہم چیز ہے اس کو قربان کر دیتے ہیں۔ مال و دولت کی خاطر اپنے بھائی کو کاٹ دیتے ہیں۔ یہ باتیں ہمیں سکھائی جا رہی ہیں کہ مال ودولت ہی سب کچھ ہے اس طرح سے ایک نہیں کئی زہر خود مغرب نے بھی پئیے اور اب پوری دنیا کو پلا رہے ہیں۔
کرنے کے کام:
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے تو بات بہت آسان ہے کہ ہم نے اسلام پر چلنا ہے اس کے لئے دو چیزیں بہت اہم ہیں
ا۔ ایمان:
ایمان ہر چیز کی بنیاد ہے اگر ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں اس وقت ہمارے ایمان کی صورتحال بعینہ دہی ہے جو حدیث میں بیان کی گئی ۔ مفہوم یہ ہے۔
’اسلام اجنبی بن کر آیا تھا اور اجنبی بن جائے گا‘
لہذا اسلام کی حقیقی تعلیمات بھلا دی گئی ہیں ۔ ہماری کتابوں میں موجود ہے لیکن اس کا نمونہ نہیں۔ سب سے پہلے اس کو اپنی زندگی میں زندہ کرنا ہو گا۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔
لا الہ الا اللّہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے علاوہ کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں اس بات کو دل سے سمجھنا ہے ۔ اب یہ بالکل اہلِ مغرب کی تعلیمات سے برعکس بات ہے۔ ان کا کہنا ہے 
’جو نظر آ رہا ہے وہ اہم ہے جو نظر سے ا وجھل ہے اس کا وجود نہیں‘
یہ ان کا فلسفہ ہے
کون بچائے گا؟
رسول اللہ ﷺ ہیں ،ایک کافر تلوار سونتے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ تمہیں کون بچائے گا؟ اب آنکھ سے نظر آ رہا ہے کہ سامنے کافر ہے۔ اس کے ہاتھ میں تلوار ہے دفاع کی کوئی صورت نہیں اور آپ ﷺ فرماتے ہیں ’اللہ‘
دل میں کوئی خیال نہیں کہ یہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ ہے ایمان کہ نظر کچھ آ رہا ہے لیکن معلوم ہے کہ اللہ کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے وہ نفع پہنچانے والا ہے اور ظاہر میں نقصان بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تلوار میں کوئی طاقت نہیں۔ 
یہ کیفیت دل میں پیدا کرنا کوئی آسان نہیں۔ کیونکہ یہ ہماری زندگی کے تجربے کے خلاف ہے ۔ ہم نے تو یہ سمجھا کہ بھوک کھانے سے مٹ جاتی ہے۔ آگ جلاتی ہے۔ لیکن اس کے پیچھے جو اللہ کی طاقت ہے اسے نہیں دیکھا۔
ایک واقعہ:
ہمارے کچھ احباب گشت پر گئے ایک دفتر میں ایک آفیسر سے بات کر رہے تھے کہ اللہ سب کچھ کر تا ہے کہنے لگے کہ تم کیسی بات کرتے ہو ۔ دیکھو یہ light کا بٹن ہے میں اس کو دباؤں تو light آ جائے گی ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا کام ہے؟ یہ کہہ کر انہوں نے بٹن دبادیا۔ اللہ تعالیٰ کو اسکی ہدایت منظور تھی تو اسی وقت بجلی چلی گئی۔ جماعت والے کہتے ہیں کہ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہا کہ واقعی یہ بات حقیقت ہے ۔
یہ مثال ہے کہ ہم جو light کا بٹن دباتے ہیں اس کے پیچھے تار ہے جو generator سے connect ہے جہاں سے بجلی آ رہی ہے۔ اگر بجلی Hydral سے آ رہی ہے تو وہاں پانی پگھلتا ہے ۔سورج کی طاقت سے وہ پانی چلتا ہے۔ تب بجلی پیدا ہوتی ہے۔ تو یہ ایک بہت بڑا نظام ہے لیکن ہماری آنکھیں اسے نہیں دکھا رہیں۔ جبکہ light اور بٹن کو اتنی بار دیکھا کہ ہم اس نظام کو بھول گئے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت ہر چیز کے پیچھے کر فرما ہے۔ مگر ہمیں نظر نہیں آ رہی۔ ہم تو صرف light اور بٹن کو دیکھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی سب کچھ ہے۔ ہمارا ایمان اسی پر آ گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں اسباب پر اتنی زیادہ نگاہ ہے کہ اچھے خاصے دیندار افراد بھی ترقی کا دارومدار مال و دولت کو سمجھے ہوئے ہیں science اور technology میں ترقی کا راز سمجھتے ہیں اور اگر ان سے بات کی جائے تو ناراض ہو تے ہیں کہ آپ جیسے لوگوں نے ہی حکومت کو روکا ہے۔ دقیانوسی باتیں کرتے ہیں۔ 
رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل:
بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دنیا کی تاریخ کیسے بدلی؟ کون سی Science ہمیں دی۔ بخاری شریف میں کوئی chemistry نہیں کوئی industry کی بات نہیں ۔ آج کے دور کی مادی نگاہوں سے دیکھیں تو یقین نہیں آ سکتا کہ 20سال میں مسلمانوں نے پوری دنیا پر قبضہ کر لیا۔کوئی ٹیکنالوجی کوئی atom bomb نہیں بنایا۔ تو کوئی ہتھیار تو دیا ہو گا کہ مسلمان پوری دنیا پر چھا گئے ۔ اگر ہتھیار نہیں تو کوئی جنگی چال یا خاص طریقہ ہو گا ۔ کچھ نہیں تو Industry ہی لگا دی ہو گی کہ معیشت مضبوط ہو۔ مگر کوئی Industry کوئی فیکٹری نہیں ۔ بخاری اس سے خالی ہے۔
مادہ پرست مسلمان:
اب مسلمان بھی مادہ پرست ہو گئے ہیں ۔ اہلِ مغرب نے یہ زہر اتنا پھیلا دیا ہے کہ سب کے دل میں داخل ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں غریب ہے جب تک مال و دولت حاصل نہیں کرتے اس وقت تک اہلِ مغرب سے آگے نہیں نکل سکتے۔ غزوہ حنین میں مسلمانوں کی تعداد 1200 اور کفّار کی تعداد 4000 تھی۔ دل میں خیال آ گیا کہ اب تو ہماری فتح ہو گی۔ اس پر اللہ کی طرف سے پکڑ آئی۔ لہذا مسلمان کی نگاہ کا اللہ تعالیٰ سے ہٹنا اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے۔ اس وقت بھی مسلمانوں کی نگاہ اسباب پر ہے۔ 
پہلی محنت:
تو سب سے پہلی محنت یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں اس بات کا یقین پیدا ہو جائے کہ ایک اللہ تعالیٰ اگر میرے ساتھ ہو تو میں ساری دنیا سے مقابلہ کر سکتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ شاملِ حال نہیں تو بے شمار دولت، ٹیکنالوجی، ایٹم بم سے بھی میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کا یقین آج مسلمان کے دل سے نکل گیا ۔ 
ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے ایک شیر کو تھپڑ رسید کر کے بھگا دیا۔ لوگ حیران ہوئے تو فرمایا میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو تمام مخلوق اس سے ڈرتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا تو تمام مخلوق اس کو ڈراتی ہے۔ (مفہوم الخدیث)
آج مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ امریکہ ، اسرائیل اور لوگوں کا خوف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس سے کوئی ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اسی سے ڈراتے ہیں۔ جس کا بت بنایا ہے جس کی عظمت دل میں بٹھا رکھی ہے اللہ تعالیٰ نے انہی کو ہم پر مسلط کر دیا ہے۔ تو سب سے اہم کام یہ ہے کہ اپنا تعلق سب سے توڑ کر اللہ تعالیٰ سے جوڑنا ہے۔ اس کے بغیر کچھ کار آمد نہیں۔ 
دوسری محنت:
دوسری چیزجو بہت ضروری ہے وہ یہ کہ ایک انفرادی محنت ہے کہ ہر انسان اپنے دل کی صفائی، ایمان کو بنانے کی طرف متوجہ ہو۔ اور ایک ہے ’اجتماعی محنت‘ کہ امّت کو امّت بنایا جائے۔ جو ہم مسلمانوں کی طاقت کا راز ہے جو کہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ آج ہم بھی طاقت کو اتنی ہی اہمیت دے رہے ہیں جتنی اہلِ مغرب نے دی۔ حکومت کرنا ، ہتھیار حاصل کرنا ،نہ مسلمانوں کی طاقت ہے نہ ماضی میں رہی ہے۔ مسلمانوں کی طاقت کا راز وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں کی۔ مکہ میں انفرادی محنت ہوئی کوئی اجتماعی محنت نہ تھی کسی نے نعرے بلند نہیں کئے کہ ’اہلِ قریش مردہ باد‘ ایک ایک مسلمان کے اندر ایمان کی طاقت پیدا کرنے کی محنت کی گئی مدینہ میں مسلمانوں میں اجتماعیت پیدا ہوئی لہذا اجتماعی محنت شروع کی گئی۔ وہ اجتماعی محنت کیا تھی؟
بعض لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں state قائم کی۔ یہ لوگ چونکہ اہلِ مغرب سے متاثر ہیں اور اسی طرح دیکھ رہے ہیں اور اس کو وہاں تطبیق دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہاں state کا نام بھی نہ تھا state نام کی چیز بیسویں صدی میں وجود میں آئی۔ جبکہ انیسویں صدی میں nation state کا تصوّر پیش کیا گیا تھا۔ 
اقبال نے کہا ہے کہ 
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرھن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
آپ ﷺ نے تو اخوت قائم کی تھی مہاجرین و انصار میں محبت کا رشتہ قائم کیا تھا۔
یہ امّت تو ایک بدن کی مانند ہے اگر کہیں بھی درد ہو گا تو سارے بدن میں تکلیف ہو گی۔ یہ ایک فرض ہے اگر میرے اندر ایمان آ جائے تو میرے لئے تو کافی ہے لیکن امّت پر اس کا کوئی خاص اثر نہ ہو گا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ امّت ہو۔ اور دین کا غلبہ ہو اس کے لئے ہمیں اجتماعی طاقت چاہیے اور اجتماعی طاقت کے لئے اسلام میں بہت سے نسخے سمجھائے گئے ہیں جو ہم بھول چکے ہیں۔ 
ایک سیمینار میں میں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن لوگوں کی سمجھ میں ہی نہیں آیا ۔ جو چیزیں مسلمانوں نے سیکھی ہیں اور جو ہماری کتابوں میں ہیں وہ اتنی مشکل اور بعید ہو گئی ہیں کہ اب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔
محبت:
تو پہلی تدبیر محبت ہے۔ یہ راز ہے مسلمانوں کی کامیابی کا۔ ایک زمانہ تھا کہ سب کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اب داخلے بند ہیں اب تو بزورِ طاقت اسلام سے نکالا جا رہا ہے ۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے لڑنا ایک دوسرے کو برا سمجھنا بہت خطرناک ہے اور احادیث میں اس پر وعید بھی آئی ہیں۔
مسلمانوں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیاجو کسی قوم نے نہیں کیا لیکن بات یہ ہے کہ
تھے تو ابّا وہ تمہارے 
مگر تم کیا ہو
وہ کارنامہ یہ تھا کہ ہمارے چار بڑے مذاہب ہیں مالکی ، حنبلی، شافعی اور حنفی ان کے درمیان بنیادی قسم کے مسائل میں اختلاف رہا ہے۔ لیکن کسی نے دوسرے کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا۔
بنیادی مسئلہ:
یہی وہ بنیادی مسئلہ تھا جہاں اہلِ مغرب اور تمام مذاہب مارے گئے۔ جہاں معمولی نوعیت کا اختلاف بھی ہوا وہاں تکفیر شروع ہو گئی۔ 
اب مسلمان بھی اس روش پر چل پڑے ہیں باقاعدہ اصول ہے کہ ’اگر کوئی دیندار شخص ایسی بات کرتا ہے جو بظاہر کفر ہے تو اس کی تاویل کی جائے تاکہ وہ اسلام سے خارج نہ ہو‘
اور اب اگر کوئی رفع یدین نہ کرے تو لوگ کہتے ہیں حدیث کے خلاف اپنے امام کے قول پر عمل کیا۔ اللہ کے سوا اسے اپنا خدا بنایا۔ لہذا یہ تو دین سے خارج۔
دل میں یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ کچھ بھی کرے ہمارا بھائی ہے کوشش کریں کہ اپنی محبت اور دین کے دائرے سے خارج نہ کریں ۔ 
یہ بات اب لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی وہ کہتے ہیں کہ یا تو میرے ساتھ پورا اتفاق کرو ، تو تم میرے بھائی ہو ورنہ تم میرے دشمن۔ جب جنگ کروں گا تو سب سے پہلے تمہیں قتل کروں گا۔ مسلمانوں میں جو تکفیر کا مسئلہ ہے ہمارے دین کے خلاف ہے ۔ اور ہمارے دین میں اس کی بہت سی تدبیریں ہیں اس میں یہ ہے کہ دو آدمیوں میں اگر بحث ہو جائے تو ایک آدمی صحیح ہوتے ہوئے بھی کہے کہ میں غلط ہوں تم صحیح ہو اور اپنی بات کو منوانے کی کوشش نہ کرے۔ غلط بات کو کہے کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت کی صورت میں اجر عطا فرمائیں گے۔ تو اس طرح ایک نہیں کئی تدابیر ہیں۔ جن سے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے۔ جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن مسلمان آج اس سے بہت دور ہیں ۔ 
آخری بات:
دو اہم باتیں کرنے کی ہیں ۔ 
۱۔ ایک تو یہ کہ خاندان کو بچانا ہے۔ محرم و نامحرم میں تمیز کا اہتمام کرنا۔ خاندان میں جو محبت ہے اس کو برقرار رکھنا، ایک دوسرے کی خدمت کرنا گھر میں صحیح تربیت کرنا ، گھر میں داخل ہونے والے زہر کا سدِّ باب کرنا۔ 
کسی زمانے میں ہمارے مسلمان آباؤاجداد نے کہا تھا کہ یہ ہمارے اسلام کا آخری قلعہ ہے کفّار نے ہر جگہ قبضہ کر لیا ہے لیکن ہمارے گھر محفوظ ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کی صحیح اسلامی تربیت کر دین تو کوئی خطرہ نہیں لیکن افسوس ! آج دشمن کے ایجنٹ ہمارے گھر کے اندر بٹھا دئے گئے ہیں۔ اور ہم بہت شوق سے ان کی باتیں سنتے ہیں۔ تو ہم نے اپنے گھر کو بچانا ہے۔ 
اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ گھر میں تعلیم شروع کی جائے ہر روز جہاں اتنا زہر آ رہا ہے۔ وہاں تھوڑی دیر مل بیٹھ کر خدیث اور قرآن کی باتیں کر لیں تو اس زہر کا اثر کچھ کم ہو جائے گا اور حق میں تو بہت طاقت ہوتی ہے ۔ تھوڑا سا حق بھی باطل کے بڑے سے بڑے اثر کو زائل کر دیتا ہے۔ یہ تو ابتداء ہے۔ 
دوسری اہم چیز یہ کہ لڑکے اور لڑکیوں کا آزاد انہ میل ملاپ روکا جائے۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہے کہ ہمارے گھروں کو تباہ کرنے کے لئے یہ دشمن کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے۔ یہ ہوس پرستی کا طریقہ ہے اصل مٹھاس تو گھر کے اندر ہے۔ لیکن ادھر اُدھر دیکھنے سے ضائع ہو جاتی ہے۔ جس طرح دنیا میں موسیقی سننے والا بھی اصل محبت سے محروم رہے گا۔ اہلِ مغرب اسی محبت کی تلاش میں ہیں جو اصل ہے۔ مگر وہ نہیں مل سکتی۔ اس کے راستے خود انہوں نے بند کر دئے۔ یہ محبت تو اس وقت نصیب ہوتی ہے جب مرد اپنا سب کچھ ایک بیوی کے نام کر دے اور بیوی اپنی تمام محبت اپنے شوہر کے نام کر دے اور یہ ہر مرد و عورت کی چاہت ہے کہ اس کا شریکِ حیات اس کے علاوہ کسی اور کی طرف نگاہ نہ اٹھائے۔ لیکن اہلِ مغرب نے ایسا جادو چلایا کہ ہر عورت کے پاس ہزاروں مرد اور ہر مرد کے پاس لا تعداد عورتیں ۔ لیکن جو چیز وہ ڈھونڈ رہے ہیں وہ نہیں مل سکتی۔ اب ہمیں بھی اسی سمت چلایا جا رہا ہے۔ 
تو اب خاندان کو بچانے کے لئے
۱۔ اپنے دل کی حفاظت کرنی ہے
۲۔ اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی ہے
ان کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے ہے اسی طرح اجتماعی زندگی کی بنیاد کے لئے
۱۔ خاندان کی حفاظت کرنی ہے
۲۔ آپس میں محبت پیدا کرنی ہے۔ 
اس کے لئے اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی برائی کرے تو اسے روکنا ہو گا۔ غیبت سے بچنا ہو گا۔ اچھے اخلاق سے پیش آنا ہوگا۔ اسی طرح دل جیتنے کے لئے اکرام و خدمت ہیں۔
یہ تمام چیزیں عمل کرنے سے حاصل ہوں گی۔ انہیں اختیار کریں گے تو انشاء اللہ اہلِ مغرب کے اثرات سے محفوظ رہیں گے ان اہلِ مغرب کی تہذیب ختم ہو چکی ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اب ہمارا دور شروع ہو۔ اگر اعمال کی اصلاح کر لی اور اللہ تعالیٰ کی رضا والے اعمال اختیار کر لئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ہی خلافت رکھی ہے۔ لیکن اگر اسی طرز پر چلتے رہے جس طرز پر چل رہے ہیں تو وہ خنجر ہماری گردن پر بھی ہے۔ 
بظاہر کوئی اصلاح کی طرف movement نظر نہیں آرہی۔ البتہ کچھ کوشش میں بیداری آ رہی ہے اور جب بہار آتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کہ سارے باغ میں پتے مرجھاتے ہوتے ہیں لیکن دور کہیں کوئی ایک کلی کوئی پودا نظر آتا ہے اسی طرح کا سماں ہے۔ 
اگر محنت کی جائے تو انشاء اللہ وہ بہار جس کے انتظار میں ہیں وہ آ جائے گی۔ تو آپ سب لوگ بھی محنت کے لئے تیار ہوں۔ اس کام کے لئے جان کھپانے والی محنت کرنی ہو گی۔ دن میں بندوں پر محنت اور رات کو ہڈیان پگھلا دینے والی اللہ تعالیٰ کے لئے محنت ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں 
’جو لوگ ہمارے اوپر محنت کریں گے ہم ان کو راستے دکھلائیں گے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16