ہمارے اس بلاگ پر موجود ایک مضمون بعنوان “پی ایس ایل کا فائنل اور جماعت اسلامی کا رویہ” میں ہم نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اب جماعت اسلامی کیا اب عوامی خواہشات و رجحانات پر اپنا لائحہ عمل مرتب کرے گے اور ایسا کرے گی تو اس کی انتہا کیا ہو گی ؟ اسلیے کہ عوامی خواہشات و رجحانات نفس تو ایک ایسا (slippery slope) ہیں جن پر پہلا قدم آپ اپنی مرضی سے رکھتے ہیں اور آپ کا انجام تباہی کے کس گڑھے میں ہوتا ہے یہ آپکے اختیار میں نہیں ہوتا-  

ہمارے اس موقف کی تائید میں محترم شاہنواز فاروقی نے جسارت فرائڈے اسپیشل میں مارچ 17 کو ایک شاندار پر مغز مضمون تحریر کیا ہے – یہ مضمون ایک ایسے وقت تحریر کیا گیا ہے جب پوری قوم بشمول جماعت اسلامی کی قیادت اس میچ کے انعقاد کو ملت کیلیے کوئی بہت بڑی فتح تصور کر رہے تھے –

مضمون بعنوان

“کھیل کو مذہب اور مذہب کو کھیل بنانے کا تماشا” کے اقتباسات پیش ہیں 

“برازیل کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کے دومذہب ہیں ایک عیسائیت ،دوسرا فٹبال۔پاکستان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ پاکستان کے دومذہب ہیں ،اسلام اور کرکٹ۔مگر پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ،ذرائع ابلاغ اور قومی رہنماؤں نے یہ بات کہے بغیر کرکٹ کو پاکستان کا دوسرا مذہب بنادیا ہے ۔اس سلسلے میں میاں نواز شریف کا ایک بیان انتہائی اہم اور زیر بحث موضوع کے حوالے سے ان کے خلاف سب  سے بڑی شہادت ہے ۔مگر اس بیان میں میاں نواز شریف نے کہا کیا ہے؟

بیان کے مطابق میاں صاحب نے فرمایا کہ

ْ گزشتہ چار سال کے دوران کرکٹ سے ہم مزید مضبوط،مستحکم اور متحد ہوئے

(روزنامہ جنگ کراچی  6مارچ 2017ء صفحہ اول)”

میا ں صاحب نے جو کچھ کہا ہے اس کا مفہوم کیا ہے ؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب کرکٹ کے علاوہ کچھ نہیں جو ہمیں مضبوط اور متحد کر سکے! مسلمانوں کی اصل طاقت ان کا دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ان کی محبت ہے ۔یہی چیز یں مسلمانوں کو مضبوط کرتی ہیں ۔یہی چیزیں مسلمانوں کو مستحکم بناتی ہیں۔یہ چیزیں مسلمانوں کو متحد کرتی ہیں ۔چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لئے  کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور پاکستان کی قوم کی اصل طاقت بھی اسلام ہی ہے ۔اسلام نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔لیکن میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران ہمیں ہمارے دین اور عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کرکٹ نے مضبوط ،مستحکم اور متحد کیا ہے ۔یہ اعلان کے بغیر کھیل کو مذہب بنانے کی کوشش نہیں تو اور کیاہے؟

یہاں سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے گزشتہ چار سال میں کتنی بار یہ فرمایا کہ ہمارا مذہب اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مضبوط،مستحکم اور متحد کررہاہے ؟ اس سوال کا جواب واضح ہے ۔میاں صاحب نے گزشتہ چار سال میں ایک بار بھی ایسا بیان  دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔کی ہوتی تو ان کا کوئی نہ کوئی بیان ریکارڈ پر موجود ہوتا ۔لیکن میاں صاحب نے پی ایس ایل کے فائنل کے بعد کرکٹ کو یہ اعزاز عطا کردیا ہے کہ وہ ہمیں مضبوط ومستحکم بنارہاہے ،اورنہ صرف یہ بلکہ وہ ہمیں متحد بھی کررہاہے ۔فرض کیجئے میاں صاحب کی بات سوفیصددرست ہے ۔یعنی کرکٹ کا کھیل ہمیں واقعی مضبوط ومستحکم او رمتحد کررہاہے غور کیا جائے تو یہ بجائے خود ایک افسوسناک بات ہوگی ۔اس لئے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے حکمران قوم کو مضبوط ومستحکم اور متحد کرنے کے سلسلے میں اسلام کی قوت اور امکانات کو توبروئے کار نہیں لارہے لیکن ان کے لئے کرکٹ کھیل اتنا مقدس ہے کہ اس کی قوت اور امکانات کو قوم کے اتحاد اور مضبوطی کے لئے بروئے کار لایا جارہاہے۔ یہ کسی اعلان کے بغیر مذہب کی توہین اور کرکٹ کی انتہائی توقیر کی انتہاء ہے اور بلاشبہ یہ ایک سیکولر رویہ ہے ۔لیکن یہاں مسئلہ صرف نواز شریف کا نہیں ہے پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ کھیل کو مذہب بنانے میں اپنا کردار اداکررہے ہیں ۔یہاں تک کہ بعض سیاسی رہنما بھی بیگانی شادی میں “عبداللہ دیوانہ “کا کردار ادا کرتے نظر آئے ۔یہاں سوال یہ ہے کہ کھیل کو مذہب بنانے کو عمل تو واضح ہوچکا ہے لیکن مذہب کو کھیل بنانے کے عمل کا کیا مفہوم ہے؟

پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہے ۔اس اعتبار سے پاکستان کی ہرچیز کو اسلامی ہونا چاہئے ۔لیکن ہمارے قوانین  غیر اسلامی ہیں ،ہماری تعلیم غیر اسلا می ہے ،ہماری معیشت غیر اسلامی ہے ،ہمارا عدالتی نظام غیر اسلامی ہے ،ہمارے ذرائع ابلاغ پر اسلام ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا ہماری سیاست پر پیسے اور طاقت کی نفسیات اور اقدار کا غلبہ ہے ۔آئین کی دفعہ 62 اور 63 کہتی ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو صادق اور امین ہونا چاہئے لیکن ہمارے منتخب نمائندوں کی عظیم اکثریت بدعنوانی اور قید خانہ بنا دیا ہے۔یعنی ہمارا حکمران طبقہ اسلام کو آئین سے نکال کر قومی زندگی پر اثرانداز ہونے  کی اجازت نہیں دیتا  اس صورت حال نے ہمارے آئین کو سیاسی رہنماؤں اور عوام کے لئے “اسلامی جھنجھنا” بنا دیا ہے جسے بجا کر وہ عرصے سے خوش ہورہے ہیں ۔ہمیں یا دہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے 23دسمبر 1999 ء کو سود کے خلاف مقدمے میں تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا ۔عدالت نے فیصلے میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ ملک کے بینکاری نظام کو سود سے پاک کیا جائے اور وطن عزیز میں غیر سودی بینکاری اور غیر سودی معیشت کی راہ ہموار کی جائے ۔لیکن اس فیصلے کو 18 سال ہوگئے اور ہمارا بینکاری کا نظام کیا پوری معیشت سود پر چل رہی ہے ۔یہ تو کل ہی کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر توہین رسالت کی بڑی بڑی وارداتیں ہورہی تھیں ،لیکن نہ جنرل باجوہ کو ان کی اطلاع ہوسکی نہ میاں نواز شریف ان سے مطلع ہوسکے ،نہ ہماری ایجنسیوں نے اس سلسلے میں کچھ کیا ،نہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس سلسلے میں از خود کاورائی کا خیال آیا ۔پاکستان میں بیٹھ کر ذرا کوئی سوشل میڈیا پر جنرل باجوہ،میاں نواز شریف یا چیف جسٹس آف پاکستان  کی توہین کرکے دیکھے۔ڈیڑھ دودن میں یا تو وہ لاپتہ ہوجائے گا یا دھر لیاجائے گا ۔لیکن توہین رسالت تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی مسئلہ ہی نہیں۔نہ جانے کیسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو توہین رسالت کی وارداتوں کا خیال آیا تو انہوں نے اسے مقدمے کی صورت دی ۔اور اب اچانک میاں نواز شریف بھی متحرک ہوگئے ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی فرمارہے ہیں کہ اگرتوہین رسالت پر پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو بند کردیں گے ۔یہاں عرض کرنے کی اصل بات یہ ہے کہ اس کو کہتے ہیں کہ مذہب کو کھیل بنانا۔۔۔۔اور ہمارا حکمران طبقہ برسوں سے پاکستان میں اسلام کے ساتھ کھیلے چلاجارہاہے ،اور یہ کرتے ہوئے وہ مذہب کو بھی کھیل میں تبدیل کررہاہے۔اس کھیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ امریکہ کہے تو ہمارے جرنیلوں اور سول حکمرانوں کے لئے جہاد حلال اور جہادی مطلوب ومقصود ہوجاتے ہیں۔امریکہ کا مفاد اور اس کی رائے بدلتی ہے تو جہاد حرام اور جہادی مردود ہوجاتے ہیں ۔حکمران اور ان کے زیر اثر لوگ کہتے کہ جہاد کا اعلان کرنا ریاست کی صوابدید ہے اور یہ بات بالکل درست ہے ۔لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑی ہیں مگر انہوں نے ایک بار بھی بھار ت کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا ۔اسرائیل اور عربوں کے درمیان پانچ چھے جنگیں ہوچکی ہیں ،مگر کسی عرب حکمران نے کسی جنگ میں بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کے اعلان کی زحمت نہیں کی ۔مسلم دنیا کے حکمران جہاد کے حکم پر عمل کررہے ہوتے  تو کسی نام نہاد پرائیوٹ جہاد  کی نوبت نہی آتی لیکن حکمرانوں کے مذہبی احکامات بھی اہم اورمقدس نہیں اور وہ ان کے سلسلے میں بھی کھیل کی نفسیات سے بلند نہیں ہوپاتے۔لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اسلام کے کھیل میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کھیل تفریح ہے اور زندگی میں تفریح  کی بھی ضروت ہوتی ہے ۔اس لئے تفریح ذہن ،جذبات،احساسات اور ماحول کی یکسانیت اور تکرار وک تو ڑتی ہے اور انسان کے لئے فرحت کا سامان مہیا کرتی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کھیل زندگی کا حصہ ہے ۔لیکن ہمارے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کو کھیل کا حصہ بنادیاہے ۔یعنی انہو ں نے پوری زندگی کو کھیل اور تفریح میں ڈھال دیا ہے ۔کھیل اور تفریح کا یہ تصورنہ مذہب کے لئے قابل قبول ہے اور نہ یہ ہماری تہذیب اور تاریخ کا تجربہ ہے ۔یہاں تک سیکولر مغرب نے جو مادی ترقی کی وہ بھی علم ذہانت اور محنت کا حاصل ہے کھیل اور تفریح کا حاصل نہیں۔تجزیہ کیا جائے توہماری قومی زندگی پہلے ہی کھیل اور تفریح کی فروانی کا شکار ہے ۔ہمارے یہاں لوگ روزانہ تین سے چار گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں ۔ٹی وی پروہ ڈرامے دیکھتے ہیں ،فلمیں ملاخطہ کرتے ہیں ،موسیقی سنتے ہیں،اسپورٹس چینلز پر کرکٹ،ہاکی ،فٹبال اور ٹینس کے مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔پاکستان کے لوگ انٹرنیٹ کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں یہاں بھی بیشتر لوگ تفریح  ہی تلاش کرتے ہیں۔تفریح کے اس طوفان میں ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ پی ایس ایل یا اس جیسی تفریح کو قوم پر مسلط کریں گے تو قوم کا نظریہ حیات ہی کھیل اور تفریح بن جائے گا ۔کیا ہمارے حکمران ،ذرائع ابلاغ اور سیاسی رہنما یہی چاہتے ہیں؟ لیکن یہاں ایک سوال اور بھی ہے اور وہ  یہ کہ ہمارے یہاں کھیل ،تفریح سے جنون اور جنون سے مذہب کیسے بن جاتا ہے؟

اس کا سبب یہ ہے کہ قومی زندگی میں کوئی بڑا مقصد بھی ہمارے اجتماعی شعور پر سایہ فگن نہیں ہے ہماری اجتماعی زندگی ایک بڑے خلا سے دوچارہے ​ اس خلا کو ہم کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیل میں چھوٹی موٹی کامیابی حاصل کر کے پر کرنا چاہتے ہیں – 


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16