جون ٢٠١٣ء سے چین نے (One Belt One Road) اور (Twenty First Century Maritime Silk Road) کے پراجیکٹ کا افتتاح کیا اور CPEC اسی بڑی تجارتی اور تعمیری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔اس سے کچھ قبل چین نے امریکا کی مخالفت کے باوجود ایک عالمی بینک Asia Infrastructure Investment Bank) (AIIB)) قائم کیا تھا جس کو ہر سرمایہ دارانہ ممالکـبرطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہـ نے بہت جلد قبول کر لیا اور اس کے ممبر بن گئے۔ ان دونوں اسکیموں کا محرک چین کی یہ خواہش ہے کہ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی صف اول کی قیادت میں شمولیت حاصل کرے۔

چینی قومی سرمایہ دارانہ نظام کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ١٩٤٩ء سے چین نے جو سرمایہ دارانہ ترقیاتی حکمت عملی (Capitalist Development Strategy) اپنائی ہے اس میں بھاری صنعتوں کے فروغ کو کلیدی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ صنعتیں اشیائے صرف ، کپڑا، اشیائے خوردنی، جوتے وغیرہ نہیں بناتیں بلکہ یہ وہ اشیا پیدا کرتی ہیں جن کو اشیائے صرف کی صنعتیں خام مال کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ مثلاً لوہا، توانائی، کیمیکل اشیا وغیرہ۔ چین نے ان بھاری صنعتوں میں اشیائے صرف کی صنعتوں کے مقابلے میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔

چینی سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہاں چینی ریاست اور کمیونسٹ پارٹی خود بڑے سرمایہ دار ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے حکومت اور کمیونسٹوں نے کھربوں ڈالر کی لاگت پر بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں بنائی ہیں جن کو (State Owned Enterprises) (SOEs) چلا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی ریاست اور کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ملکی بینک کاری اور فنانشل نظام پر حکومتی اجارہ داری قائم رکھی ہے۔

اس سرمایہ دارانہ نظام کو کامیابی سے چلانے کی بدولت کمیونسٹ پارٹی اپنا معاشرتی اور ریاستی اقتدار مدت سے کامیاب بنا رہی ہے لیکن اس حکمت عملی کی ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ جو بھاری اشیا بازار میں آتی ہیں ان کی رسد ان کی طلب سے کہیں زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے کیوں کہ اشیائے صرف کی صنعتوں کی پیداواری رفتار نمو بھاری صنعتوں کے مقابلہ میں کم ہوتی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کی قوت خرید میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا کیوں کہ بڑھتی ہوئی سرمایہ دارانہ اجارہ داری کے نتیجہ میں تقسیم آمدنی اور دولت مستقل غیرمساویانہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ ٢٠١٤ء میں تخمینہ لگایا گیا کہ چین کی کی ٦٠ فی صد سے زیادہ دولت اس کی آبادی کے صرف ١٠ فی صد افراد کے قبضہ میں ہے۔

لہٰذا ہر اجارہ دار سرمایہ دارانہ (monopoly capitalist) ملک کی طرح چین میں بھی پیداواری سکت اور خریداری سکت میں توازن مستقل بگڑتا جا رہا ہے۔ سرمایہ فنانس کی شکل میں تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اس کی منافع بخش سرمایہ کاری کے قوی امکانات مستقل کم ہو رہے ہیں۔ آج چینی بینک کھربوں ڈالر کا خسارہ برداشت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی سرمایہ کاری کا وہ حصہ جو ناقابل حصول اور (Infected (portfolio بن گیا ہے ہوش ربا رفتار سے بڑھ رہا ہے اور چینی حکومت ان بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ٹیکس دہندگان سے کھربوں ڈالر لے رہی ہے۔ بھاری صنعتوں کی پیداوار کا بڑا حصہ ملک میں بیچا نہیں جا سکتا وہ فالتو پڑا ہے اور اس فالتو سامان کے ڈھیر پہ ڈھیر لگتے چلے جا رہے ہیں۔

ہر اجارہ دارانہ   (monopoly capitalist) سرمایہ داری کا نظام اپنے پالیسی سازوں سے متقاضی ہوتا ہے کہ وہ ایک نوآبادیاتی مہم چلائیں تاکہ فالتو مال اور فالتو سرمایہ حاصل شدہ نوآبادیاتی علاقوں کے استحصال کے لیے استعمال کیا جا سکتے۔ چین ایک پرانی استعماری قوت ہے۔ انیسویں صدی میں اس نے مشرقی ترکستان اور تبت پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ کیا۔ اب وہ سی پیک اور OBOR کے ذریعے اپنی استعماری گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے معاشی حربہ استعمال کر رہا ہے۔

سی پیک اور OBOR کا مقصد چینی فالتو پیداوار اور فالتو سرمایہ کو برآمد کر کے چینی حکومت کی عالمی استعماری نظام میں اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔ چینی سرمایہ دارانہ استعمار کی یہ توسیع زمینی بھی متوقع ہے اور بحری بھی۔ اس چینی استعماری توسیعی منصوبہ میں کلیدی شریک کار روس ہے جس نے اپنے نوآبادیاتی نظام کو از سرنو ترتیب دینے کے لیے (Euro Asian Economic Union) تعمیر کی ہے۔

لیکن اپنے استعماری نظام کی پیش رفت کے باوجود فی الحال چین عالمی سرمایہ دارانہ نظام امریکا کی بالادستی اور تحکیم کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ یا عزم نہیں رکھتا۔ اس نے کھربوں ڈالر کے امریکی حکومتی تمسکات (Treasury Bonds) خرید رکھے ہیں اور ان کی خرید و فروخت کی ایسی حکمت عملی چلائی ہے جس سے امریکی معیشت کو استحکام حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ چین عالمی فنانشل نظام میں امریکی ڈالر کی مرکزیت کو سہارا دیے ہوئے ہے۔ یہ بات ٢٠٠٨ء کے سرمایہ دارانہ بحران میں چینی حکومت کی امریکی اور یورپی حکومتوں سے بھرپور تعاون سے عیاں ہوتی ہے۔

چینی استعمار نے امریکی دہشت گردی کا کہیں مقابلہ نہیں کیا۔نہ افغانستان میں نہ عراق میں نہ شام میں نہ افریقا کے کسی ملک میں۔ آج وہ امریکا کو راضی رکھنے کے لیے شمالی کوریا پر لگائے گئے عالمی sanctions کو نافذ کر رہا ہے اور شمالی کوریا پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے نیوکلیئر پروگرام سے دست بردار ہو جائے۔ کیا عجب کہ جب اس کی گرفت ہمارے معاشی اور سیاسی نظام پر مستحکم ہو جائے تو وہ پاکستان کو نیوکلیئر پروگرام سے دست بردار ہونے پر مجبور کرے۔

چین نے اپنے سرمایہ دارانہ استعمار کو توسیع دینے کی غرض سے اور بھی کئی استعماری اداروں میں سرمایہ دارانہ ممالک کا ساتھ دیا ہے۔ جن میں  New Development Bank, BRICS, (Contingent Reserve Arrangement)  اور (Shanghai Co-operation Organization) شامل ہیں۔ یہ ادارے آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او اور ورلڈ بینک کے ساتھ تعاون پر زور دیتے ہیں۔ ان کا متبادل بننے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ چین کو اس بات کا احساس ہے کہ تکنیکی ترقی اور اختراع  (Innovation)کے میدان میں وہ امریکا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تکنیکی ترقی  (Innovation)میں وہ امریکی ملٹی نیشنلز  (Multinationals)پر ہی انحصار کر رہا ہے اور امید رکھتا ہے کہ ان ملٹی نیشنلز اور نجی شعبہ کے چینی کمپنیوں سے تعاون کے نتیجہ میں وہ تکنیکی ترقی کر سکے گا۔ چین نے غیرملکی سرمایہ کاری کی ہے جو اکثر بحران کا شکار رہی ہے۔ اس کی سب سے اہم مثال سری لنکاہے جہاں اس نے گوادر کے مماثل ایک بہت وسیع بندرگار بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ چینی پراجیکٹس لیبیا، سوڈان اور میکسیکو میں بھی بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ چین کو اس کا احساس ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ حکومتوں اور ملٹی نیشنلز کے تعاون کے بغیر وہ بین الاقوامی سرمایہ دارانہ ادارتی ڈھانچہ کھڑا نہیں کر سکتا جو اس کی غیرملکی سرمایہ کاری کو استحکام دے۔ اسی غرض سے اس نے AIIB اور New Development Bank میں مغربی استعماری ممالک سے گہرے تعاون کے لیے انتظامی اشتراک عمل اختیار کیا ہے۔

آج عالمی سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندی انتشار کا شکار ہے۔ امریکا، یورپی ممالک اور نئے سرمایہ دارانہ ترقی یافتہ مراکز (ہندوستان، جنوبی کوریا، سنگاپور وغیرہ) کے ملکی مفادات منفرد اور متصادم ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کردہ عالمی سرمایہ دارانہ تنظیم جسے (Bretton Woods System) کہتے ہیں، ١٩٧٣ء سے انتشار پذیر ہے۔ جو عالمی ادارہ اس نظاماتی تناظر میں قائم کیے گئے (IMF, WTO, WB) ان میں امریکا کو فیصلہ کن فوقیت(veto power) حاصل ہے اور جیسا کہ حالیہ ماحولیاتی(Environmental crisis) بحران سے نبٹنے کی پالیسی سازی کے ضمن میں واضح ہوا امریکی اور دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں تنائو بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ روس اور چین اس نظاماتی کش مکش سے فائدہ اٹھا کر یورپی ممالک سے اشتراک عمل قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جنوبی کوریا اور فلپائن بھی اپنے اوپر امریکی  معاشی دبائو کو کم کرنے کے خواہاں ہیں۔

لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی بھی سرمایہ دارانہ ملک یا بلاک امریکی عسکری بالادستی اور اجارہ داری کو چیلنج نہیں کر رہا۔ نہ چین، نہ روس نہ جرمنی نہ بھارت۔ ان سب کی مشترکہ کوشش یہ ہے کہ ان پر امریکی معاشی گرفت کمزور ہو لیکن ان کو امریکی عسکری تحفظ مستقل حاصل رہے۔ مجموعی عالمی فوجی اخراجات کا ٤٠ فی صد سے زیادہ امریکا برداشت کرتا ہے اور تقریباً ٢٠٠ ممالک میں اس کی فوج تعینات ہے۔ یورپی ممالک کی یہ شدید خواہش ہے کہ ان پر فوجی اخراجات کا بوجھ نہ پڑے اور ان کو امریکی فوجی تحفظ حاصل رہے۔

چینی معیشت کی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے اس کے لیے بھی دفاعی اخراجات میں اضافہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان داخلی کمزوریوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، محنت کشوں کی جدوجہد(strikes and agitations)، معاشی ناہمواریاں او رارتکازِ دولت اور سب سے بڑھ کر ہوش ربا ماحولیاتی آلودگی شامل ہے۔ چین آج کسی بڑی جنگ میں ملوث ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ پرامن ترقی (peaceful development)کا پرچار کر رہا ہے۔ لیکن وہ اس کا خواہاں ضرور ہے کہ اپنے علاقائی حلقہ اثر میں وسعت پیدا کرے۔ اس کی کوشش ہے کہ علاقائی توسیع امریکی استعماری عزائم سے متصادم نہ ہو۔ اس پالیسی کی بہترین مثال چین کی اختیار کردہ جنوبی بحرالکاہل کی پالیسی ہے اور اس کی یہ مستقل کوشش ہے کہ بھارت سی پیک اور OBOR میں شریک کار بن جائے۔

CPEC سی پیک اور OBOR سے چین کیا حاصل کرنا چاہتا ہے

(تفصیلی مضمون Rejecting Freedom and Progress کی ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں۔)

   ١۔ چین ایک سرمایہ دارانہ استعماری ملک ہے جو مشرقی ترکستان اور تبت پر اپنا غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

   ٢۔  CPEC سی پیک اور OBOR کا بنیادی مقصد چینی سرمایہ دارانہ استعمار کی توسیع ہے۔

   ٣۔ چین نے ١٩٤٩ء سے جو معاشی حکمت عملی اپنائی ہے اس کے نتیجہ میں فاضل مشینری، توانائی اور خام مال کے ڈھیر لگ گئے ہیں جو ملکی سطح پر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ عوامی قوتِ خرید کی رفتارِ نمو میں سست روی اور دولت کی بڑھتی ہوئی نامساویانہ تقسیم ہے۔

   ٤۔ CPEC سی پیک اور OBOR کے تحت قائم ادارتی صف بندی کا مقصد چینی فاضل سرمایہ اور فاضل پیداوار کی درآمد کے ذریعے ایک معاشی استعماری نظام کا قیام ہے۔

   ٥۔ ہر نوآبادیاتی سرمایہ دارانہ قوت کی طرح چین بھی اپنے برآمد شدہ مال اور سرمایہ کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کر رہا ہے۔ اس کے دیے ہوئے قرضوں پر شرح سود بین الاقوامی سطح سے بہت اونچی ہوتی ہے۔

   ٦۔ چینی استعماری توسیع کا مقصد عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں امریکا کا شریک کار بننا ہے۔ وہ یورپی اور دوسرے سرمایہ دارانہ ممالک سے اشتراک عمل کے ذریعے اپنی استعماری ادارتی صف بندی کا استحکام چاہتا ہے۔

   ٧۔ چین امریکی دفاعی عالمی برتری کو چیلنج نہیں کرتا۔ اس نے کہیں بھی امریکی دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا۔ نہ افغانستان میں، نہ عراق میں نہ شمالی کوریا میں۔

   ٨۔ آج وہ امریکی ایما پر شمالی کوریا پر زور ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے نیوکلیئر پروگرام سے دست بردار ہو جائے۔

   ٩۔ کل وہ پاکستان کو بھی نیوکلیئر پروگرام سے دست بردار ہونے پر مجبور کر سکتا ہے۔

 CPEC سی پیک اور OBOR میں شرکت کے نقصانات

   ١۔ مشرقی ترکستان میں جاری اسلامی جدوجہد سے غداری

  ٢ ۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں مکمل انضمام

   ٣۔ بتدریج پاکستان چینی کالونی بن جائے گا۔

   ٤۔ نیوکلیئر پروگرام پر چینی تسلط اور اس کے اختتام کا خطرہ

   ٥۔ پاکستان میں چینی ثقافت کی یلغار

   ٦۔ پاکستانی معیشت پر چینی کمپنیوں، بینکوں اور تجارت کا غلبہ

لہٰذا جماعت اسلامی کو CPEC, OBOR کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے۔


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16