جماعت اسلامی کا (N-120)،لاہورمیں تنہا الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ اتحاد امت کے لئے نقصان دہ تھا اور نتائج نے یہ ہی ثابت کیا-
​ جماعت اسلامی جس کا اصل اور اہم ترین کام تمام اسلامی گروہوں میں مستقل اتحاد اور اتفاق پیداکرنا ہے، کیونکہ جماعت اسلامی کوئی فقہی جماعت نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کا ایک اثاثہ  ہے جس کے پاس اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ تمام اسلامی گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے اسلام کے اصل مقصد وجود یعنی نظام اسلامی کے قیام کی جدوجہد کو تیز تر کر سکے ، مگر اس جدوجہد کو مہمیز دینے کے لئے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی ہر ملکی انتخاب اور ایشو میں وہ راستہ اختیار کرے جس کے نتیجہ میں اتحاد امت کا فریضہ انجام دیا جا سکے اور تمام اسلام دشمنوں طاقتوں اور گروہوں کو معاشرتی طور پر بھر پور انداز میں شکست دی جاسکے ۔
​مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت ملکی ضمنی انتخابات میں مستقل تنہا الیکشن میں حصہ لے رہی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ جماعت کو ان نشستوں پر کامیاب ہونے کی کوئی امید نہیں تھی-این اے 120کے انتخابات پر پوری قوم کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔لیکن یہ الیکشن کی مہم محض دو سیکولر جماعتوں کی مسابقت کی ریس بن گئ ۔ان دونوں سیکولر جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت اسلام سے مخلص نہیں اور یہ امریکی استعمار کی اٰلہ کار جماعتیں ہیں –
اس ضمنی انتخابات نے اسلامی سیاسی قوت کے مظاہرے کا ایک نادر موقع فراہم کیا جو ہم نے گنوا دیا ۔
اس انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار کے علاوہ دو مزید اسلامی امیدوار موجود تھے ۔ایک ملی مسلم لیگ کا اور ایک لبیک یارسول اللہ ﷺ کا لیکن یہ بات بالکل واضح تھی کہ ان تینوں اسلامی امیدواروں  میں سے کسی ایک کے بھی جیتنے کا کوئی امکان موجود نہیں ۔
ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا
✔لبیک یا رسول اللہ ﷺ اور ملی مسلم لیگ پر بھر پور دباؤ ڈالنا چاھئے تھا کہ وہ بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث عصبیت سے اوپر اٹھ کر تحفظ دین کے لئے یہ مہم چلائیں اور ایک متحدہ اسلامی امیدوار کھڑا کریں ، چاھے اس کے لئے جماعت اسلامی کو اپنے امیدوار کو بٹھانا پڑتا-
✔ان تینوں جماعتوں کی انتخابی مہم مسلم لیگ(ن) کی اسلامی غداری بلخصوص غازی ممتاز قادریؒ کے عدالتی قتل اور جہاد کشمیر سے غداری اور بھارت نوازی پر مرکوز ہوتی۔
✔ملی مسلم لیگ اور لبیک یارسول اللہ ﷺ کو یقین دلایا جاتا  کہ اگر وہ متحد امیدوار میدان میں لانے پر تیار ہوجائیں تو جماعت اسلامی بھر پور طریقے سے یہ  مہم چلانے میں حصہ لے گی اور ناصرف یہ تین بلکہ دوسری اسلامی جماعتوں پر زور دینے کا امکان موجود تھا کہ وہ سب اس ایک متفقہ اسلامی امیدوار کو اپنا امیدوار سمجھیں ۔
✔اس طرح یہ انتخاب ایم ایم اے کے احیاء کا پہلا عملی قدم ہوتا جو ملک میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتا اورجمعیت علمائے اسلام (ف) کو مسلم لیگ(ن) سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کرسکتا تھا-

اب جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن ان دونوں نئی جماعتوں کا منظر پر آنا اور قابل قدر تعداد میں ووٹ حاصل کرنا ہمارے لئے اس بات کی راہیں کھولتا ہے کہ ہم ان سے مکالمہ کریں اور جمیعت علماء اسلام کے بغیر بھی ان دونوں اور ان جیسی دوسری اسلامی جماعتوں سے اتحاد کی بات کو تیزی سے آگے بڑھائیں، آگے چل کر JUI لامحالہ اس اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور ہو گی-
کسی حال میں جماعت اسلامی کو کسی سیکولر جماعت سے کسی نوعیت کا انتخابی سمجھوتا نہیں کرنا چاھئے،  رہا اکیلے انتخاب لڑنے کا option تو اس  کا بد ترین انجام ہم نے پچھلے کئی ضمنی انتخابات میں دیکھ لیا ہے لہذا اب ہمیں جنگی بنیادوں (war footings ) پر اسلامی اتحاد کی کاوشوں کو آگے بڑھانا چاھئے ورنہ 2018 کے انتخاب ہمیں ایک ایسی شکست سے دوچار کرسکتے ہیں جو ہمارے وجود ہی کیلئے خطرہ نہ بن جائے-
ہمیں NA 120 کے انتخاب سے یہ بھی سبق ملا کہ ہمارے اپنے افراد بھی شاید اب اتنے نظریاتی نہیں رہے اور وہ بھی مفاد اور لسانی عصبیت کا شکار ہو کر ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہیں ورنہ ہمیں 516 ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ ملنے چاھیں تھے ، ظاہر ہے جب قیادت ہی اسلامی نظریاتی بنیادوں کے بجائے مفاد ،قوم پرستی اور سوشل ڈیموکریٹک ایجنڈا لے کر انتخاب میں آئے گی بجائے اسلامی عصبیت و جذباتیت کے تو پھر کارکن کیلئے بھی مفاد و لسانیت و قوم پرستی کی سیاست کا راستہ کھل جاتا ہے لہذا ہمیں یہ بات یقینی  بنانے کی کوشش کرنی چاھئے کہ ہمارا ایجنڈا ہمیشہ اسلامی ہو اور نظاماتی کشمکش کا آیئنہ دار ہو تو جماعت کا کوئی کارکن کسی سیکولر امیدوار کو ووٹ نہ دے گا-
ہمیں اب سمجھ آ جانا چاھئے کہ انتخاب اور انتخاب کے باہر بھی ہمارا کل وقتی ایجنڈا ، منشور ، نعرہ ، narrative صرف اسلام اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونا چاھئے ناکہ سوشل ڈیموکریٹک-
محترم سراج الحق صاحب کی منصورہ مسجد میں خطاب کی کلپ دیکھی جس میں وہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں جماعت کی شکست فاش پر گِلہ کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ  “لاکھوں لوگوں ہیں جو حج عمرہ روزہ و نماز میں مشغول ہیں تو یہ تو نہیں ہے کہ لوگ دین دار نہیں لیکن ہم ان تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟”  ، کاش کوئی امیر محترم تک یہ بات پہنچا دے کہ آپ کے سوشل ڈیموکریٹک بیانیے کو یہ حج عمرہ زکواة و نماز والا طبقہ اسلام سےمتعلق (related) نہیں پاتا ، آپ ” روٹی کپڑا مکان ، مادی ترقی ، تعلیم ، امیری غریبی ، سماجی تفاوت اور معاشی درجے بندیوں”  ہی کو مسائل بنا کر محض ان ہی کی بات کرتے ہیں تو ایک عام راسخ آل عقیدہ مسلمان ان باتوں میں اسلام اور حب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈ نہیں پاتا ہے –
آپ کا کل وقتی بیانیہ ہونا چاھئے ✔استعمار کے خلاف جا بجا جاری عالمی مزاحمتی تحریکوں کے حق میں ✔قانون توہین رسالت کو لاحق خطرات کا ہر آن ذکر فرماتے  اور اس کی حفاظت کیلئے کٹ مرنے کا عہد خود بھی کرتے اور اسلامیان پاکستان کو بھی اس کے لئے تیار رہنے کا داعیہ دیتے
✔ ملک میں ملحد غیر سرکاری اداروں کے ڈریعے کی جانے والی معاشرتی یلغار کی تباہ کاریوں سے قوم کو بھی آگاہ کرتے اور انہیں للکارتے –
سراج صاحب جلدی کیجئے درست سمت میں تیز تر قدم بڑھائیے ، اس لیے کہ 2018 کے الیکشن میں جماعت اسلامی کی کارکردگی اطمینان بخش ہو یہ اس کی بقا کیلیے کتنا ضروری ہے ہم سب اب واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں-


Warning: is_file(): open_basedir restriction in effect. File(/posts.php) is not within the allowed path(s): (C:/Inetpub/vhosts/fikremaududi.com\;C:\Windows\Temp\) in C:\inetpub\vhosts\fikremaududi.com\httpdocs\wp-content\plugins\themekit\includes\shortcodes\func-posts.php on line 16